اور بڑھ جائیں جما لات میاں کیا کہنے۔۔۔
ان سے مل جائیں خیالات میاں کیا کہنے
وہ بڑھائیں مرے در جات میاں کیا کہنے
دھل کے نکلے ہیں مری آنکھ سے کتنے آنسو
اب نہ گدلے ہوں مقامات میاں کیا کہنے
سب سوالوں کے جوابات دیئے ہیں واضح
شعر کرتے ہیں کرامات میاں کیا کہنے
نیتیں صاف ہوں سرکار کی لوٹے تھوڑا
پھر سے ہو فصل پہ برسات میاں کیا کہنے
ناں ذرا رعب جماؤ نہ نکالو دل سے
روز بن جائے تری بات میاں کیا کہنے
دید کے جس کی رہی روز جگر میں حسرت
رات لائی وہ بھی سوغات ، میاں کیا کہنے
شاخِ گل سوکھتی ہو جائے ہری اے امبر
اور بڑھ جائیں جما لات میاں کیا کہنے
کلام : ڈاکٹر شہباز امبر رانجھا