کینال ویو UBLاور میَں (قسط 5)

کینال ویو UBLاور میَں (قسط 5)
کینال ویو UBLاور میَں (قسط 5)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 کینال ویو کا پہلا فیز جو نہر سے ملتان روڈ تک پھیلا ہوا تھا اُس کی پہلی قرعہ اندازی غالباً 1977/ 78ء میں ہوئی۔ اُس وقت کمپیوٹر عام نہیں ہوا تھا۔ پلاٹوں کے نمبر پلاٹوں کے اُس وقت کے سائز یعنی 10مرلہ، ایک کنال اور دو کنال یعنی 3 رنگوں والی پرچیاں بنائی گئیں اور ممبران کی بھی پلاٹ سائز کے مطابق 3 رنگوں والی پرچیاں بنائی گئیں۔ یہ تمام کام اللہ مغفرت کرے سوسائٹی کے چیف اکاؤنٹنٹ اکبر علی چوہدری، شریف بٹ صاحب اور آفس اسسٹنٹ برکت(مرحوم) نے دو دِن میں مکمل کر لیا۔ 6 عدد پلاسٹک کی بالٹیاں لی گئیں، 3 بالٹیوں میں ممبران کی 3 رنگوں کی پرچیاں طے کرکے ڈال دی گئیں اور 3 بالٹیوں میں تینوں سائز کے پلاٹوں کی 3 رنگوں والی پرچیاں ڈال دی گئیں۔ کافی تماشے والا نظارہ تھا۔ ممبران کے مجمع میں ہی سے دو خواتین نے قرعہ اندازی کا کام انجام دیا اور شریف بٹ صاحب اپنی پاٹ دار مردانہ آواز میں اناؤنسمنٹ کرتے گئے(آج کل علیل ہیں، اللہ انہیں صحت دے)۔


پلاٹوں کی قرعہ اندازی نہائت احتیاط اور دیانت داری سے ہوئی تھی۔ ہر ایک ممبر کو اُس کی خواہش کے مطابق نہر کی لوکیشن پر پلاٹ نہیں مل سکتا تھا۔ میرے بینک کے سینئر افسر جو بینکوں کے قومیانے کے بعد دوسرے بینکوں سے آئے تھے اور سوسائٹی کے ممبر بھی بن گئے تھے، اُنہوں نے ہی میرے اور سلطان محمد خان کے خلاف ایک بھر پور سازش شروع کر دی۔ سلطان صاحب جوائنٹ ڈائریکٹر بن کر ہیڈ آفس کراچی جا چکے تھے۔ مشتاق احمد یوسفی تو چند ماہ بعد ہی پاکستانی بینک چھوڑ کر BCCIمیں شامل ہو کر لندن چلے گئے تھے۔ اُن کی جگہ خواجہ ضیاالدین جو نیشنل بینک سے آئے تھے UBLکے صدر بن گئے۔ نیشنل بینک میں رہ کر اُن کی سوچ ویسی ہی Unenterprising بلکہ کلرکوں والی ہو چکی تھی۔ لاہور کے سینئر افسر جو اصل میں UBL کے نہیں تھے اُنہوں نے میرے خلاف جھوٹے الزامات لگوانے شروع کر دیئے۔ بددیانتی کے، ٹھیکوں میں اقرباء پروری کے، زمین کی خریداری میں کمیشن کھانے کے، اس سازشی پروگرام میں لاہور سٹاک ایکسچینج کے معتبر بھی شامل کر لئے گئے۔ میرے خلاف سٹاک ایکسچینج کے معتبر بروکر حضرات جو الیکشن وغیرہ کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرنا جانتے تھے، اُنہوں نے محکمہ کوآپریٹو میں اخباروں اور ہینڈبلز کے ذریعے مجھے بدنام کرنے کی خوب کوششیں کیں تاکہ میَں سوسائٹی کی سربراہی سے ہٹا دیا جاؤں۔ ممبران کو خطوط لکھے گئے۔ میَں چونکہ ذرا سخت طبیعت سیکرٹری تھا۔ سوسائٹی کے صدر شیخ اکرم بھی  اندرونی طور پر میرے خلاف ہو گئے تھے لیکن میَں اپنی سوسائٹی کے ممبران کے اعتماد پر پورا اُترتا تھا۔ اُس وقت کی لاہور کی مارشل لاء اتھارٹی(1978ء) بھی میری عزت کرتی تھی۔ جب میرے مخالفوں نے دیکھا کہ میَں اُن کے ہتھکنڈوں سے کمزور نہیں پڑا تو ترقی دے کر میرا تبادلہ بہاول نگر کر دیا گیا بطور زونل ہیڈ۔ جنرل محمد اقبال پنجاب کے ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹر ہوا کرتے تھے، میَں اُنہیں نہیں جانتا تھا لیکن میرے بہت نزدیکی دوست بریگیڈیر ڈاکٹر مظہر الحق (مرحوم)جو اُن دِنوں CMH لاہور کے کمانڈنٹ تھے،اُنہوں نے فون اُٹھایا اور جنرل اقبال سے بات کی، اُنہوں نے اس معاملے کو بڑی مہارت سے ایسے سلجھایا کہ کمال ہو گیا۔ اُن کے دفتر کے ایک کرنل شجاع نے سوسائٹی کے دفتر پر اس طرح Raid کیا جیسے مارشل لاء اتھارٹی نے میرے خلاف شکائتوں کا نوٹس لے لیا ہے۔

اُنہوں نے تمام شکائت کرنیوالوں کے کوائف لئے، میرے خلاف جو سازشی مواد تھا وہ لیا اور میرے علاوہ کوآپریٹو محکمہ کے ڈپٹی رجسٹرار کو، اور سٹاک ایکسچینج کے بڑوں کو، UBLکے سینئر بینک افسران کو، پنجاب اسمبلی میں مارشل لاء کے دفتر میں دو دِن کے بعد پیش ہونے کا حکم دیا جوکہ ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔ میرے مخالفین خوش تھے کہ منظور اب پکٹرمیں آگیا۔ مقررہ دِن کرنل شجاع (اب مرحوم)کے دفتر جو پنجاب اسمبلی میں تھا وہاں سب لوگ اکٹھے ہو گئے۔ مجھے ملزموں کی طرح الگ کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ پہلے کوآپریٹو کے DR سے پوچھا گیا کہ محکمانہ طور پر مسٹر منظور کے متعلق کیا رپورٹ ہے، کیا سوسائٹی کا آڈٹ ہوا، کیا سوسائٹی میں محکمے نے کوئی گڑبڑ پائی۔ DRصاحب کا جواب نہائت تسلی بخش تھا۔ اب کرنل شجاع نے سٹاک ایکسچینج کے اُس وقت کے معتبروں کے ہیڈ سے پوچھا کہ آپ نے جو اِلزامات لگائے ہیں سیکرٹری کینال ویو پر، اُس کا ثبوت پیش کریں، رنگ فق ہو گیا سب کا۔ کرنل نے سختی سے پوچھا اخباروں میں اور ہینڈبلز میں جو آپ نے الزام لگائے ہیں وہ کس بنیاد پر لگائے ہیں۔ کچھ جواب نہ تھا۔ اَب میرے ریجنل ہیڈ سلیم ملک (مرحوم)SEVPکی باری آئی۔ میَں مرحوم کے بارے میں کیا لکھوں۔ صاحب کِردار اِنسان نہیں تھا۔ سلطان صاحب سے دشمنی رکھتا تھا، اُس نے دیکھا کہ مارشل لاء والے ثبوت مانگ رہے ہیں اُس نے فوراً ہی پینترا بدلا اور میری تعریفوں کے پُل باندھ دیئے۔ کرنل شجاع نے وارننگ نما نصیحت کر کے سب کو رخصت کیا۔ سب سازشیں اُس وقت کے ایک مارشلائی کرنل نے آ دھے گھنٹے میں ختم کر دیں۔ ابھی مزید سازشوں کا ذکر آئے گا۔ 


کینال ویو بننے کے بعد ایک مشہور کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی ایسی بنی تھی کہ جس کی تمام کاغذی کاروائی، اکاؤنٹس بُکس اور ممبر شپ فارم کا ڈیزائن، اس کی رجسٹریشن کا کام کینال ویو کے توسط سے مرحوم احسان جان نے کیا تھا۔ اس سوسائٹی کانام تھا ”لاہور کینٹو نمنٹ کواپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی LCCHS۔ یہ سوسائٹی 1975ء میں تشکیل ہوئی۔ اس سوسائٹی کو بنانے والے گلزار احمد خان، چوہدری حاکم علی، اور چوہدری مستجب خان تھے۔ یہ تینوں صاحبان محکمہ مال کے چھوٹے اہل کار تھے جو ملازمت سے فارغ کر دیئے گئے تھے۔ بہت امیر ہو چکے تھے بلکہ گلزار احمد خان کابڑا ڈپازٹ ہماری UBL دیال سنگھ بلڈنگ برانچ میں تھا۔ وہیں گلزار خان کو کینال ویو سوسائٹی کا پتہ چلا۔ گلزار خان اور اُس کے ساتھیوں نے اپنی کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کا منصوبہ بنالیا اور UBL برانچ کے منیجر کے ذریعے سوسائٹی بنانے کے لوازمات جاننے کے لئے میرے دفتر تشریف لائے۔ بینک کے افسروں کا فرض ہوتا ہے کہ بینک کے معزز گاہکوں کو خدمات دی جائیں۔ میَں نے گلزار صاحب اور اُن کے ساتھیوں کو احسان جان مرحوم کے حوالے کر دیا اور اُس نے اپنی تگڑی فیس لے کر LCCHS بنوا دی۔گلزار وغیرہ نے اراضی کلیموں اور یونٹوں کی شکل میں خریدنی شروع کر دی۔ ایسی اراضی کے بعض مالکانہ کے کاغذات مشکوک بھی تھے۔ بعض رقبے زیر عدالتی کاروائی تھے۔ بہر حال اس سوسائٹی کے زیادہ تر اِبتدائی ممبر فوجی افسر تھے جو 5/5 ہزار ڈاؤن ادائیگی کر کے لاہور کینٹ سوسائٹی کے ممبر تو بن گئے لیکن اُنہیں سائٹ پر کوئی کام ہوتانظر نہیں آتا تھا۔ 1977ء میں مارشل لاء لگ گیا۔ لاہور کینٹ سوسائٹی کے فوجی ممبروں نے سوسائٹی کی انکوائری کروادی۔ مارشل لاء نے کاروائی شروع کر دی۔ غالباً کچھ گرفتاریاں بھی ہو گئیں۔ لاہور کینٹ سوسائٹی کی انتظامیہ توڑ دی گئی۔ کوآپریٹو محکمہ کا ایڈمنسٹریٹر اِنتظامی سربراہ بنا دیا گیا اور 1999ئمیں اس سوسائٹی کو ایک آرڈیننس کے ذریعے DHA کا درجہ دے دیا گیا۔ بعد میں گلزار خان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بن گئے اور اَب مرحوم ہیں اوراَب اُن کے دونوں بیٹے سنیٹرز ہیں یا تھے۔ چوہدری حاکم علی بھی مرحوم ہو گئے۔ 
میَں کینال ویو کو چار سال میں مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یعنی داخلی پختہ سڑکیں بن گئیں، بجلی آگئی۔ اُس زمانے میں لیسکو وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔ بجلی حاصل کرنے کے لئے ڈائیریکٹ واپڈا کو درخواست دینی پڑتی تھی۔ اُس زمانے میں واپڈا نے Electricity Boards بنائے ہوتے تھے ہر بڑے شہر یا ریجن کے لئے۔ لاہور بورڈکے چیرمین کیپٹن (ریٹائرڈ)محمد یوسف ہوتے تھے۔ بھلے انسان تھے۔ میَں نے واپڈا سے Depositبنیاد پر بجلی حاصل کرنے کی درخواست دی۔ لاہور کے بورڈ نے سروے کیا، حساب کتاب لگا کر مجھے کوئی ڈیڑھ کروڑ کا Invoice پکڑا دیا۔ میَں کیپٹن یوسف چیرمین لاہور الکٹریسٹی بورڈ کے پاس Demand Note لے کر گیا۔ (جاری ہے) 

مزید :

رائے -کالم -