کاش انکم ٹیکس افسر کو یہ پتہ ہو کہ آپکی آدھی سے زیادہ آمدنی بیوی کی ساڑھیوں پر خرچ ہوتی ہے(کنہیا لال کپور کی طنز و مزاح سے بھرپور تحریر )
آخری قسط
”آپ کہاں پروفیسر ہیں“
”کلچرل کالج میں“
”آپ کی تنخواہ“
”ایک سو بیس روپیہ ماہانہ“
اور آپ دل ہی دل میں جھنجلا کر کہتے ہیں، کم بخت اندھا ہے، پڑھ نہیں سکتا؟ نقشے میں ان تمام سوالوں کے جواب لکھ تو دیئے تھے۔ اس قسم کے تین چار بے ضرر سوالات کرنے کے بعد آمدم بر سر مطلب والا معاملہ شروع ہوتا ہے۔
”ہاں تو آپ نے تنخواہ کے علاوہ اپنی بالائی آمدنی کیوں نہیں دکھائی۔“
”جناب“ آپ منکسرانہ لہجے میں کہتے ہیں، ”تنخواہ کے علاوہ میری کوئی اور آمدنی نہیں۔“
”ہوں“ وہ منہ سے پائپ یا سگار نکال کر طنزیہ انداز میں فرماتے ہیں، ”اور وہ جو جناب نے کبوتر نامہ لکھا تھا، اس کی رائلٹی کیا ہوئی۔“
”جی کیا عرض کروں، بندہ پرور، سال بھر میں کل تین کاپیاں فروخت ہوئیں جن پر ساڑھے تیرہ آنے رائلٹی ملی۔“
”ساڑھے تیرہ آنے سے مطلب نہیں۔“ وہ گرج کر فرماتے ہیں، ”آمدنی کے نقشے میں اسے بھی دکھانا چاہئے۔“
آپ دبی زبان سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں۔ وہ غرا کر پھر پوچھتے ہیں۔
”اور وہ جو آپ کو ریڈیو سے معاوضہ ملا، وہ کیوں نہیں دکھایا۔“
”اجی حضرت وہ کیا معاوضہ تھا۔ ڈھائی منٹ کے لئے بچوں کے ایک فیچر پروگرام میں گیدڑ کا پارٹ ادا کیا تھا۔ جس کے ڈھائی روپے ملے۔ ا ب میں وہ کیا آمدنی کے نقشہ میں دکھاتا۔“
وہ اسی فرعونیت کے ساتھ جواب دیتے ہیں، ”کچھ بھی ہو اندراج مکمل ہونا چاہئے۔“
چند ثانیوں کی اذیت بخش خاموشی کے بعد وہ پھر آپ سے مخاطب ہوتے ہیں، ”ہاں اور وہ جو آپ رائے بہادر مستیا مل کی لڑکی کو بطور معلم پڑھاتے رہے، وہ ٹیوشن فیس آپ نے درج نہیں کی۔“
”جناب، رائے بہادر 20 روپے ماہوار ہی تو دیتے تھے اور ان کی کوٹھی تھی غریب خانے سے6میل دور، 15روپے ماہوار تانگے والا لے لیتا۔ باقی رہے 5۔ ان سے بمشکل سگریٹ پان کا خرچ چلتا۔“
مگر وہ دہاڑ کر کہتے ہیں،”آمدنی آمدنی ہے، 5 ہو یا50۔“
اور آپ بے حد مرعوب ہوکر سوچنے لگتے ہیں، یہ کم بخت انکم ٹیکس والے حساب دان ہونے کے علاوہ غضب کے سراغ رساں بھی ہیں۔ آپ کی آمدنی کے متعلق آپ سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ حالانکہ آپ نے صرف ریڈیو والوں کی لاج رکھنے کے لئے ڈھائی روپے کی گرانقدر رقم کا ذکر نہ کیا تھا او ر اگر چہ ”کبوتر نامہ“ کی رائلٹی آپ کے ذہن سے بالکل اتر چکی ہے مگر انہیں سب کچھ یاد ہے۔ آپ کی آمدنی کے تمام ذریعوں کا انہیں پتہ ہے۔ آپ یہ سوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ وہ لال لال آنکھیں نکال کر کہتے ہیں، ”آپ کو معلوم ہے، آمدنی چھپانا جرم ہے۔“ اور پیشتر اس کے کہ وہ آپ کو تعزیرات کی اس دفعہ کا حوالہ دے سکیں جس کے تحت آپ کو گرفتار کیا جا سکتا ہے آپ معافی مانگنے پر اتر آتے ہیں اور یہ ہے وہ بات جس پر انکم ٹیکس کے انسپکٹروں کو ناز ہے کہ کلچرل کالج کا پروفیسر دین دیال جو ایم اے ہونے کے علاوہ ایل ایل بی بھی ہے ان سے گڑ گڑا کر معذرت کر رہا ہے۔ اور در اصل اسی امر کے لئے تو آپ کو دفتر میں طلب کیا گیا تھا تاکہ انسپکٹر صاحب اپنے احباب میں مونچھوں پر تاؤ دے کر کہہ سکیں، ”اجی ہماری موجودگی میں بڑوں بڑوں کے زہرے آپ ہو جاتے ہیں۔ پرسوں کلچرل کالج کے ایک پروفیسر کو اتنا دھمکایا کہ بیچارا تھر تھر کانپنے لگا۔۔۔“
سگار کے دو چار کش اور لگانے کے بعد وہ آپ کی معذرت قبول فرما لیتے ہیں جس کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ وہ آپ کو بیٹھنے کے لئے کرسی پیش کرتے ہیں۔ مگر رخصت ہوتے وقت یہ خوشخبری آپ کے گوش گزار کی جاتی ہے کہ انہوں نے آپ کی حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے صرف 120 روپیہ انکم ٹیکس تجویز کیا ہے جو آپ کی ایک مہینہ کی پوری تنخواہ ہے۔ اس پر بھی آپ ناراض ہونے کے بجائے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
مگر جب گھر لوٹتے ہیں تو دل ہی دل میں کہتے ہیں، ”آمدنی آمدنی ہے، پانچ ہو یا پچاس۔ خوب مگر کیا خرچ خرچ نہیں۔ پانچ سو ہو یا پانچ ہزار۔“
اور اس وقت آپ کا جی چاہتا ہے کہ کاش یہ زبان دراز افسر آپ کے اخراجات کا بھی جائزہ لے سکتا اور جیسے آپ کی آمدنی کے تمام ذرائع معلوم ہیں کاش اسے آ پ کے خرچ کی تفاصیل بھی اسی طرح ازبر ہوتیں۔ کاش اسے یہ پتہ ہوتا کہ آپ کی آدھی سے زیادہ آمدنی بیوی کی ساڑھیوں پر خرچ ہوتی ہے۔ ایک چوتھائی آپ کے فیملی ڈاکٹر کی جیب میں چلی جاتی ہے اور اگر آپ کا ہمسایہ آپ کو قرض نہ دے تو شاید آپ کو کسی یتیم خانے کی پناہ لینی پڑے اور آپ سرد آہ کھینچ کر کہتے ہیں، صرف120 روپے انکم ٹیکس تجویز کرنے والے مہربان اگر تجھے واقعی میرے اخراجات کا علم ہوتا تو انکم ٹیکس تجویز کرنے کی بجائے گورنمنٹ سے مجھے اسپیشل وظیفہ دلواتا۔ مگر افسوس تو یہی ہے کہ تجھے میرے اخراجات کا علم نہیں۔
"برج بانو " سے اقتباس