دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 33
ویسے پچھلی دنیا میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے مجھے اندازہ تھا کہ یہ عام سا حوض نہیں ہوگا بلکہ کوئی سمندر ہوگا۔ بلکہ حضور ﷺکے ارشادات سے مجھے خیال ہوتا تھا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں پچھلی دنیا میں عر ب اور افریقہ کو جدا کرنے والا بحیرۂ احمر (Red Sea) بہتا تھا۔ میں نے اپنے اس اندازے کا اظہار صالح سے کیا تو وہ بولا:
’’بڑی حد تک یہ اندازہ ٹھیک ہے۔ زمین پھیل کر گرچہ بہت بڑی ہوچکی ہے، مگر یہ کم و بیش وہی جگہ ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ میدان حشر سرزمین عرب میں برپا ہورہا ہے؟‘‘
’’ہاں تمھارے اندازے ٹھیک ہیں۔‘‘
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 32 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں خاموشی سے سوچنے لگا کہ کیسا وقت تھا وہ جب دنیا آباد تھی۔ لوگ اس وقت دنیا کے ہنگاموں میں گم تھے۔ کاش انہیں اندازہ ہوجاتا کہ اصل دنیا تو موت کے بعد شروع ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کو بھیج کر پچھلی دنیا میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا، مگر لوگ مان کر ہی نہیں دیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان انبیا میں سے کچھ کو منصب رسالت پر فائز کردیا۔ یہ رسول نہ صرف لوگوں کو صحیح راستے کی طرف بلاتے بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر لوگوں کو متنبہ کردیتے کہ ان کی بات نہیں مانی گئی تو اللہ تعالیٰ قیامت سے قبل ہی اس قوم پر اپنا عذاب بھیج دے گا جس سے صرف ماننے والے بچائے جائیں گے۔ چنانچہ قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط، قوم شعیب، آل فرعون اور خود قریش مکہ کے ساتھ یہی ہوا۔
ان اقوام کے رسولوں نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا، مگر جب وہ نہ مانے تو قیامت سے قبل ہی دنیا میں انہیں عذاب دیا گیا۔ قوم نوح اور آل فرعون کو پانی میں ڈبوکر، عاد کو تند آندھی سے، قوم ثمود اور قوم شعیب کو ایک کڑک سے، قوم لوط کو پتھر والی ہوا سے اور کفار مکہ کو مؤمنوں کی تلواروں سے ختم کیا گیا اور اہل ایمان کو بچاکر زمین کا اقتدار انہیں دے دیا گیا۔ خاص کر کفار مکہ اور حضور کا معاملہ تو تاریخ کی روشنی میں ہوا اور قرآن میں اس کا ریکارڈ محفوظ کردیا گیا۔ اور کسے معلوم نہیں تھا کہ صحابہ کرام کو کس طرح چند برسوں میں دنیا کا حکمران بنادیا گیا۔ یوں اخروی سزا و جزا کا ایک دنیوی نمونہ اس طرح قائم کیا گیا کہ کوئی شخص بھی اس کا انکار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پھر بھی لوگوں نے اس دن کی تیاری نہیں کی۔
سب سے بڑھ کر اسی مڈل ایسٹ کے علاقے میں جہاں آج حشر برپا ہے، چار ہزار برس تک آل ابراہیم کی شکل میں ایک قوم کے ساتھ مستقل سزا جزا کا معاملہ کیا گیا۔ اولاد ابراہیم کی دو شاخوں یعنی بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کے ساتھ اللہ کا قانون یہ رہا کہ اگر وہ فرمانبرداری کرتے تو خدا کی رحمت انہیں دنیا میں نوازتی اور نافرمانی کرتے تو دنیا میں قومی حیثیت میں سزا پاتے۔ بنی اسرائیل کو اپنی تاریخ میں اپنے جرائم کی پاداش میں دو دفعہ عظیم تباہیوں کا سامنا بطور سزا کرنا پڑا۔ ایک دفعہ عراق کے بادشاہ بخت نصر کے ہاتھوں اور دوسری دفعہ رومی جرنل ٹائٹس کے ہاتھوں ان پر تباہی نازل کی گئی۔ اسی طرح امت مسلمہ کو بھی ان کے جرائم کی بنا پر دو دفعہ بڑے پیمانے پر سزا دی گئی۔ ایک دفعہ تاتاریوں کے ہاتھوں اور دوسری دفعہ یورپی اقوام کے ہاتھوں انہیں تباہی اور غلامی کی ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سزا کے ساتھ جب کبھی وہ توبہ اور رجوع کرتے تو ان پر حکومت و انعامات کے دروازے کھل جاتے۔ اس کی ایک مثال وہ تھی جب تاتاریوں کے ہاتھوں مکمل تباہی کے بعد مسلمانوں نے ان تک اسلام کا پیغام پہنچایا تو تھوڑے ہی عرصے میں برباد شدہ مسلمان دوبارہ دنیا کی عظیم سپر پاور بن گئے۔ مگر افسوس کہ لوگوں نے سزا و جزا کے اس کھلے ہوئے معاملے کو دیکھ کر بھی قیامت کی سزا و جزا کی حقانیت کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بے اختیار میرے منہ سے ایک ٹھنڈی آہ نکلی اور میں نے کہا:
’’میرے رب تو نے تو سمجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر انسان بڑی ہی ڈھیٹ مخلوق تھا۔ اسی لیے اسے آج کا یہ تلخ دن دیکھنا پڑرہا ہے۔‘‘
صالح نے میرا جملہ سن کر لمحہ بھر کے لیے مجھے دیکھا اور بولا:
’’نہیں! ہر انسان ایسا نہیں تھا۔ دیکھ لو تمھارے اردگرد حوض کوثر پر کتنے سارے لوگ ہیں۔‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا مگر کچھ بولا نہیں۔ وجہ صاف ظاہر تھی۔ صالح یہاں موجود لوگوں کو دیکھ رہا تھا اور میں باہر حشر میں موجود لوگوں کے خیال میں تھا جن میں میرا اپنا بیٹا جمشید بھی شامل تھا۔ میں میدان حشر میں اس کی تلاش میں لوٹا تھا، مگر حضرت عیسیٰ کی گواہی کا منظر دیکھ کر میرا حوصلہ جواب دے چکا تھا۔ اس لیے سر دست اس کا معاملہ میں نے خدا پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
(جاری ہے، اگلی یعنی 34 ویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔