بابے کے بال لمبے، رنگ سانولا، چہرہ بے نور،آنکھیں سرخ، ہونٹ بر بڑا رہے تھے،لمحوں کی خاموشی کے بعد کڑک دار آواز سنائی دی”بندش ہے بچہ“

 بابے کے بال لمبے، رنگ سانولا، چہرہ بے نور،آنکھیں سرخ، ہونٹ بر بڑا رہے ...
 بابے کے بال لمبے، رنگ سانولا، چہرہ بے نور،آنکھیں سرخ، ہونٹ بر بڑا رہے تھے،لمحوں کی خاموشی کے بعد کڑک دار آواز سنائی دی”بندش ہے بچہ“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:145
 چیلوں نے ہمیں بابا جی سے ملنے کا پروانہ دیا اور اگلے ہی لمحہ ہم اُس کے اگر بتی اور چرس کی خوشبو سے مہکتے کمرے میں تھے۔ نیم اندھیرے کمرے میں ہر چیز سبز رنگ میں رنگی تھی۔ بابا ایک بڑے گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے بیٹھے تھا، ہاتھ میں پانچ سو دانوں والی تسبیح تھی۔ارد گرد چند اور گاؤ تکیئے بھی رکھے تھے۔ بابے کے بال لمبے، رنگ سانولا، چہرہ بے نور، قد لمبا، داڑھی سیاہ و سفید، آنکھیں چڑھی ہوئی اور سرخ۔سلام کے جواب میں آدھ کھلی آنکھوں سے بولا؛”جوانو کیسے آنا ہوا۔ بابا کیسے یاد آ گیا۔محبو ب روٹھا ہے یا قابو نہیں آ رہا، فیل ہو گئے ہو یا نوکری کا مسئلہ ہے۔“رونی صورت بنا کر میں بولا؛”بابا جی! تین سال ہو گئے بی اے پاس نہیں ہوا۔ تیاری کرتا ہوں پر ہر بار فیل ہو جاتا ہوں۔آپ کا بڑا نام سنا ہے بس چلے آئے ہیں۔“ اس کی نیم کھلی آنکھیں مکمل بند ہو گئیں۔اس کے ہاتھ کی انگلیاں ٹیرھی میڑھی چل رہی تھیں، ہونٹ بر بڑا رہے تھے۔لمحوں کی خاموشی کے بعد اس کی کڑک دار آواز سنائی دی؛”بندش ہے بچہ۔ بندش۔او بدبخت تجھے پتہ نہیں کس سے پالا پڑا ہے۔ بھاگ جا۔ بندش ختم ہو جائے گی اور تو پاس ہو جائے گاا بچہ۔“ میں کہا؛”جی بابا! بندش کس نے کی اور مجھے کرنا کیا ہوگا۔“ کہنے لگا؛”چھوڑ! بندش کس نے کی۔ ہے جو نہیں چاہتا تم کامیاب ہو۔ تجھے اس کا کام کا ہدیہ دینا ہو گا بچہ، ہدیہ۔“ میں کہا بابا؛”کتنا ہدیہ ہو گا۔“”بس 2 ہزار روپے بچہ۔“ اس وقت یہ بڑی رقم تھی۔ میرے والد کی تنخواہ 3 ہزار روپے تھی۔ شعیب بولا؛”بابا جی! اتنی رقم ہم نہیں دے سکتے۔ مہربانی کریں۔“ جواب دیا؛”ایک ہزار سے کم پر بندش ختم نہیں کی جا سکتی۔ ایک ہی تعویز سے کام۔۔۔“ شعیب کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ میں نے اشارہ اسے روکنا چاہا مگر اس نے بابے کو پنجابی میں با آواز بلند ماں بہن کی دو چارگالیاں دیں اور آگے بڑھ کے بولا؛”فراڈیے! ہمیں تو بی اے پاس کیے کئی سال بیت چکے۔ اس کے چیلے بھی کمرے میں آ چکے تھے۔ ان کے لئے صورت حال اچھی نہ تھی۔ باہر دو چار گاہک بھی بیٹھے تھے۔ شعیب کی آواز کمرے میں گونجتی باہر بھی جا رہی ہو گی۔ میں ساری صورت حال سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ بات بگڑتی دیکھ کر با با اور اس کے چیلے منت سماجت پر آ گئے۔ بنگالی با با اور اس کے چیلے اب میرے جن کے قبضے میں تھے۔ انہوں نے 200 روپیہ ہمیں دے کر جان چھڑائی۔ ہمارے لئے یہ بڑے پیسے تھے۔ موٹر سائیکل کی ٹینکی فل کرائی۔ مسلم ٹاؤن سے پیٹروں والا ٹھنڈا دودھ پیا۔ 100 روپے سے کچھ زیادہ رقم پھر بھی بچ گئی۔ ہماری حماقت سے ایک جعلی پیر کی اصلیت بھی جان گئے تھے۔شعیب نے پہلے ڈاکٹر بننے کے لئے علامہ اقبال میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ آدھا ڈاکٹر بن گیا تھا کہ نہ جانے کیا سوجھی، ڈاکٹری چھوڑی گورنمنٹ کالج سے بی اے کیا اور بینک جوائن کیا اور آخر میں بینک سے بڑے عہدے سے نوکری چھوڑ کر خاندانی زمینیں سنبھال لیں۔پانچ وقت کا نمازی اور شریف انسان ہے۔ اس کے ماشااللہ2بیٹے مومن اور غازی ہیں۔
شعیب، بد معا شی اور کاشف؛
 اوپر ذکر ہوا تھا کہ وکی، شعیب اور میں اسلام آباد مومن صدر سے ملاقات کے لئے گئے توکچھ دن اسلام آباد رہے بھی تھے۔ میرے بھتیجے کاشف کا اسلام آباد میں کسی مہہ جبین کی وجہ سے جھگڑا ہو گیا۔وہ اکیلا تھا اور جن سے لڑائی وہ تین چار لڑکے اس جھگڑے سے پہلے دوست ہی تھے۔یہ لڑکی اب وجہ تنازعہ تھی۔ کاشف ان لڑکوں کے ڈر سے گھر تک ہی محدود ہو گیا تھا۔ میں اسلام آباد بھائی جان شہزاد کے گھر پہنچا۔ کاشف سے وکی اور شعیب کا تعارف کرایا۔ اس کا ہنس مکھ چہرہ بجھا بجھاتھا اور صورت رونی بنا رکھی تھی۔شعیب اور وکی کسی سے ملنے چلے گئے۔میں نے اس سے اداسی اور گھر سے باہر نہ نکلنے کی وجہ پوچھی تو اس نے مجھے سب بتا دیا۔ سن کر میں ہنسا اور ڈانٹتے کہا؛”بچو! لڑکی کے پیچھے لڑائی، کچھ شرم کرو۔ خیر کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -