بجلی بلوں کی زیادتی اور مہنگائی کے ذمہ دار ہم نہیں،عمران خان ہے۔نواز شریف
سابق وزیرِ اعظم میا ں نواز شریف نے کہا ہے کہ”مہنگائی اور بجلی بلوں کی زیادتی کے ذمہ دار ہم نہیں عمران خان ہے اگرچہ اِس سے کے اصل ذمہ دار آئی پی پیز معاہدے تھے جو کہ ہمارے ہی عہد میں کئے گئے تھے جس کا اصل علاج یہ تھا کہ اِن معاہدوں میں ترمیم کر کے انہیں معقولیت کے دائرے میں لایا جاتا لیکن یہ اِس لیے ممکن نہیں ہے کہ اِن کے بینی فشریز ہمارے ہی لو گ ہیں جو یا حکومت میں ہوتے ہیں یاا پوزیشن میں اور اِن کے خلاف کوئی کاروائی کرنا اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے اور اُس عظیم جذبہئ اخوت کے خلاف ہے جس پر ہمارا معاشرہ قائم ہے اور دراصل یہ وہ خوش قسمت لوگ ہیں جن پر اللہ کا فضل ہے اور اللہ میاں نے اپنے چھپر پھاڑ پھاڑ کر اِن کی مدد کی ہے اوریہ چھپر کبھی ماشااللہ ہم پر بھی پھاڑے جاتے تھے لیکن اب وہ صورتحال نہیں ہے کیونکہ اُس کے اسباب ہی نا پید ہو چکے ہیں یعنی ملکی خزانہ خالی ہے اور وسائل نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں لیکن ہم مایو س نہیں ہیں کیونکہ اللہ میاں کے ہاں ایسے چھپروں کے ماشااللہ انبار لگے ہوئے ہیں اور ہماری باری کسی وقت بھی آسکتی ہے اور کسی وقت بھی ایک بار پھر ہمارے وارے نیارے ہو سکتے ہیں اور جہاں تک مہنگائی اور عوام کا تعلق ہے تو اُنہیں صبر و شکر سے کام لینا چاہیے اگرچہ بعض اپوزیشن راہمناؤں نے میرے اِس بیان کو فریب او ر دھوکہ قرار دیا ہے تاہم یہ ایک سیاسی بیان ہے جس کے بار ے میں میں پوری وضاحت کر چکا ہوں کہ سیاسی بیان کیا ہوتا ہے جبکہ میرے جیسا سینئر سیاست دان ایک غیر سیاسی بیان دیتا ہو اکیا اچھا لگے گا،ہیں جی؟آپ اگلے روز لاہور میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرس سے خطاب کر رہے تھے۔
پنجاب میں بجلی ریلیف ہماری جوتیاں اور ہمارا ہی سر جیسا ہے۔ محمد علی دُرّانی
سابق وفاقی وزیر محمد علی درّانی نے کہاہے کہ”پنجاب میں بجلی ریلیف ہماری جوتیاں اور ہمارا ہی سر جیسا ہے کیونکہ یہ ترقیاتی فنڈز میں موجود جو پیسہ ہمارے ہی اوپر خرچ کیا جانا تھا اور جو ہم پر خرچ کرنے کی بجائے ہمیں ریلیف کے طور پر دیا جا رہا ہے یعنی ہماری جیب سے پیسہ نکال کر ہمیں ہی ریلیف کے طور پر دیا جا رہا ہے جو ہم پر خرچ نہیں ہو گا چناچہ غریب عوام کے ساتھ اِس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے اور جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا جو ہمارے ہی مزید کڑاکے نکالے گی اور اِس کا مزید مطلب یہ ہے کہ آدھی روٹی کا ٹکڑ اجو ہمارے ہاتھ میں تھا وہ ایک ہاتھ سے نکال کر دوسری میں پکڑ ا دیا گیا ہے کہ لو عیش کرو اور ہمیں روز ِ اوّل سے ہی اسی قسم کے عیش کر وائے جا رہے ہیں جبکہ یہ ایک ایسا ریلیف ہے کہ جس میں ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے اور بقول ع
ہم پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
آپ اگلے روز ایک ٹی وی انٹرویومیں اپنے خیالات کا انتظار کر رہے تھے۔
استحکام پارتی ملک و قوم او ر ریاست کے ساتھ کھڑی ہے۔عبدالعلیم خاں
استحکام پارٹی کے صدر عبدالعلیم خاں نے کہا ہے کہ ”استحکام پارتی ملک و قوم او ر ریاست کے ساتھ کھڑی ہے اور یہ بھی کہنے کی حد تک ہی ہے ورنہ یہ ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ ملک قوم اور ریاست ایک دوسرے سے میلوں کے فاصلے پر کھڑے ہیں اور اُن کے ساتھ کھڑے ہونا ہمارے لیے جان جوکھوں کاکام ہے کیونکہ اتنے فاصلوں پر اِ ن کے ساتھ کھڑے ہو کر ہماری پارٹی کا شیرازہ ہی بکھر جائے گا اِس لیے جب تک یہ تینوں مل کر نہیں کھڑے ہوتے تب تک ہم اِس عیّاشی کا ارتکاب کر ہی نہیں سکتے جبکہ اِن تینوں کو ایک دوسرے سے دور رہنے کی ویسے بھی عادت پڑ چکی ہے اور اِس طرح اِن کا کام بھی ٹھیک طرح سے چل رہا ہے اِس لیے مستقل میں اِ ن کے ایک دوسرے کے قریب کھڑے ہونے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور ہم بھی یہ پنگا لینے اور خود کوٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہے کیونکہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا کوئی بھی پسند نہیں کرتا آپ اگلے روز پارٹی کے ضلعی صدور اور پارٹی راہنماؤں کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
اُلٹی گردن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سکھ نے کسی دوسرے شہر میں جانا تھا،سخت سردی کا موسم تھا اور تیز ہوا چل رہی تھی وہ موٹر سائیکل پربیٹھ کر روانہ ہوئے تو سامنے سے یخ ہوا کی بوچھاڑ اِس طرح پڑی کہ اُنہیں نانی یاد آگئی۔اُنہیں ایک ترکیب سوجھی، نیچے اُتر کے کوٹ اُتا ر کر اُلٹی طرف سے پہنا اور پیچھے سے بٹن بند کر لیے۔اِس طرح اُنہیں ٹھنڈی ہوا سے تو ریلیف مل گیا لیکن تھوڑی دور آگے جا کر وہ ایک ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گئے۔نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑے تھے کہ قریبی سکھ بستی سے ایک سردار نے آکر اُن کا چارج سنبھالا اور ہلانے جُلانے لگے۔ اتنے میں دوچار سکھ اور بھی آگئے جنہوں نے ایکسیڈنٹ کے بارے میں پوچھا تو وہ بولا، ”کیا بتاؤں جی،حادثہ اتنا خوفناک تھا کہ سردار جی کی گردن اُلٹی ہوگئی تھی جو میں نے بڑی مشکل سے سیدھی کی ہے،پہلے کچھ ہوں ہاں کر تے تھے،اب وہ بھی نہیں کر رہے!“
اور اب آخر میں جوا د شیخ کی یہ غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ غم تو ہے سو ہے کہ غریب الدیار ہو ں
لیکن جہاں جہاں ہوں میں دیوانہ وار ہوں
تیری عطا ہے آروزئے روزگارِ غم
میری خطا ہے صیدِ غمِ روز گار ہوں
زنجیر ہوں تو اُلجھی ہوئی اپنے آپ سے
میں تیر ہوں تو اپنے ہی سینے کے پار ہوں
غم کے لیے کچھ اور،خوشی کے لیے کچھ اور
جائے پناہ ہوں کہیں راہِ فرار ہوں
قائم رہیں وہ جن کی بدولت ہے یہ مدا ر
دائم رہیں وہ جن کا میں دارومدا ر ہوں
خاموشی تھی سو اب بھی وہی ہے مرا مزاج
غم کوشی تھی تو اب بھی اُسی کا شکار ہوں
یعنی عروج ہی میں نہاں ہے مرا زوال
پہلے میں دل گُداز تھا اب دل فگار ہوں
آج کا مطلع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذر ا بھی فرق نہیں،ہوبہو دھڑکتا ہے
یہ دل نہیں مرے سینے میں تُو دھڑکتا ہے