فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر431

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر431
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر431

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’راج دہانیر بوکے ‘‘ کے ساتھ ہی ایک اور بنگلہ فلم ’’ہرانو دن ‘‘ میں بھی شبنم نے اداکاری کی تھی اور روبن گوش نے اس کی موسیقی بنائی تھی مگر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے کون سی فلم ان کی پہلی فلم تھی ۔ عام طور پر ’’ راج دہانیربو کے ‘‘ ہی ان کی پہلی فلم قرار دی جاتی ہے۔ یہ فلم ساز کی حیثیت سے انیس دو سانی کی پہلی فلم تھی ۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر430 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
’’راج دہانیر بوکے ‘‘ کی ایک اور نمایاں خصوصیات یہ تھی کہ یہ پہلی پاکستانی فلم بھی جس کے لیے طلعت محمود نے گلوکاری کی تھی ۔ طلعت محمود رہنے والے تو لکھنؤ کے تھے لیکن عرصہ دراز تک کلکتہ میں رہنے کی وجہ سے بنگلہ سے بھی واقف تھے اور بہت سے غیر فلمی بنگالی گیت انہوں نے گائے تھے جو بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ اس زمانے میں کلکتہ اور ڈھاکا آمدروفت میں کوئی دقت نہ تھی اس لیے دونوں شہروں کے لوگ آزادی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے رہتے تھے۔
طلعت محمود جب اس فلم کے گانے ریکارڈ کرانے کے لیے آئے تو وہ ریل کے ذریعے چٹاگانگ بھی گئے تھے ۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ہر اسٹیشن پر جہاں ٹرین رکتی تھی سیکڑوں مداح ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے تھے ۔ طلعت محمود نے مشرقی پاکستان کی ایک اردو فلم ’’ ہم سفر ‘‘ کے لیے گانے گائے تھے ۔ اس فلم کی ہدایت کار شوکت ہاشمی تھے ۔ وہی اس کے مصنف بھی تھے ۔
انیس دوسانی کے بارے میں دوسری باتیں بتانے سے پہلے ان کی پیدائش اور تعلیم و تربیت کا ذکر بھی ہوجائے تو بہتر ہے۔ انیس دوسانی ۱۹۳۷ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے اور محاورے کے مطابق منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے تھے کیونکہ خوش حال اور دولت مندی کا دور دورہ تھا ۔ انہوں نے دار جلنگ کے اعلیٰ ترین اور مہنگے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی تھی ۔ لندن کے جے آرتھر رینک اسٹوڈیوز میں بھی انہوں نے ایک سال تک فلم کی تربیت حاصل کی تھی ۔ جب وہ فارغ التحصیل ہوگئے تو ان کے والد نے کاروبار کا زیادہ تر بوجھ ان پر ڈال دیا مگر خود بھی اس کی دیکھ بھال میں شامل رہے۔
انیس دوسانی نے فلم سازی کے میدان میں ایک بنگلہ فلم کی تیاری سے قدم رکھا تھا مگر ان کو جوش جنون انہیں اور بھی کچھ کرنے پر اکسا تا رہا۔ انہیں بخوبی احساس تھا کہ فلم کی بڑی مارکیٹ مغربی پاکستان ہے اس لیے اردو فلمیں بنا کر ہی فلم سازی میں مقام اور منافع حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ انہیں یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگی کہ تقسیم کا ادارے کے لیے اردو فلموں کا بنانا بھی ضروری ہے۔
ڈھاکے میں ان دنوں میں اول تو فلم بنانا ہی کارے دارد تھا ۔ نہ اداکار ‘ نہ ہدایت کار ‘ نہ مصنف ‘ نہ موسیقار ‘ نہ عکاس ۔ کچھ بھی تو دستیاب نہ تھا ۔ بنگلہ فلمیں بنانے والے ڈھاکے سے گانوں کی صدا بندی کے لیے لاہور آیا کرتے تھے ۔موسیقار اور گلوکار بھی یہیں سے حاصل کیے جاتے تھے ۔ ایسے میں ڈھاکا میں ایک اردو فلم بنانے کا ارادہ کرنا اور پھرا اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دینا انیس دوسانی جیسے باہمت انسان ہی کا کام تھا۔
انیس دوسانی نے ڈھاکا میں پہلی اردو فلم ’’ چندا ‘‘ کا آغاز کیا جس کے فلم ساز وہ خود ہی تھے۔ ’’چندا‘‘ کے ہدایت کار احتشام تھے۔ یہ کچھ عرصے مغربی پاکستان خصوصاً لاہور کے قلمی حلقوں میں رہ چکے تھے اور کیپٹن رحمٰن کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ کیپٹن رحمان بہت دلچسپ اور باتونی آدمی تھے ۔ ہمارے ان سے ان ہی دنوں کی ملاقات اور دوستی ہے جب وہ لاہور کے نگار خانوں میں فلم سازی اور ہدایت کاری سیکھتے نظر آتے تھے۔ اس فلم میں بھی نئے لوگ متعارف کرائے گئے تھے۔ جن میں بھی نئے لوگ متعارف کرائے گئے تھے جن میں رحمٰن ، شبنم اور مزاحیہ اداکار سبھاش دتہ کے علاوہ فلم کی ہیروئن سلطانہ زمان بھی شامل ہیں۔ سلطانہ زمان کیمرا مین زمان کی بیگم تھیں ۔ بعد میں ان دونوں کی علیٰحدگی ہوگئی تھی ۔ زمان صاحب پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئے تھے ۔ وہ مغربی پاکستان میں اسٹیشن منیجر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ذرا غور کیجئے کہ پہلی فلم میں یہ سب لوگ بالکل نئے نو آموز اور ناتجربہ کار تھے لیکن کچھ عرصے بعد ان سب نے فلمی صنعت میں بہت نمایاں حیثیت حاصل کر لی اور انہوں نے اپنے شعبے میں بام عروج تک پہنچ گئے ۔ روبن گھوش اس فلم کے موسیقار تھے ۔ ان تمام فنکاروں نے سارے ملک میں نام پیدا کیا ۔
سبھاش دتہ بطور مزاحیہ اداکار اس فلم میں پہلی بار پیش کیے گئے تھے ۔ سبھاش دتہ نے اس فلم میں بہت سادہ مگر بہت اچھی اداکاری کی تھی ۔ اس فلم میں مزاحیہ اداکار کے طور پر انہیں نگار ایوارڈ دیا گیا تھا ۔ سبھاش دتہ کا تعارف ایک مزاحیہ اداکار کی حیثیت سے ہوا تھا لیکن بعد میں انہوں نے ہدایت کار اور فلم ساز کی حیثیت سے بنگلہ فلمی صنعت میں بہت نمایاں حیثیت حاصل کی اور بے حد کامیاب اور مقبول فلمیں بنائیں ۔ اس فلم میں شبنم نے معاون اداکارہ کا حیثیت سے اتنی اچھی اداکاری کی تھی کہ دیکھنے والوں نے ہیروئن سے بھی زیادہ پسند کیا ۔ کچھ عرصے بعد شبنم ہیروئن کی حیثیت سے فلمی صنعت میں ابھرنے لگیں اور فلم ’’چندا ‘‘ کی ہیروئن سلطانہ زمان کچھ عرصے بعد فلمی افق سے ہی غائب ہوگئیں ۔ اس کے برعکس شبنم سپر اسٹار بن گئیں۔
انیس دوسانی کے بقول اس فلم پر ایک لاکھ روپے لاگت آئی تھی ۔ فلم کا کاسٹ اور کریڈٹ بالکل نئے اور انجانے تھے ۔ ظاہر ہے کہ اردو فلموں کے لیے اصل مارکیٹ تو مغربی پاکستان ہی تھی ۔ جب ’’چندا ‘‘ مکمل ہو کر نمائش کے لیے تیار ہوئی تو انیس دوسانی نے اس کو مغربی پاکستان میں ریلیز کرنے کا پروگرام بنایا۔ مغربی پاکستان کاسٹ سسٹم بہت مضبوط تھا ۔ فلم کی فروخت اور کامیابی کے لیے فلم میں بڑے بڑے ناموں کے موجودگی ضروری تھی لیکن ’’چندا‘‘ میں ہر نام پاکستانی فلم بینوں کے لیے نامانوس اور بالکل نیا تھا ۔ بعد میں یہ سب لوگ مامور اور سپر اسٹار ہوگئے تھے مگر ’’چندا ‘‘ کی ریلیز کے موقع پر یہی کاسٹ اور ہدایت کار بالکل نئے تھے اور ان نئے ناموں والی فلم کو ریلیز کرنے کا خطرہ کوئی مول نہیں لے سکتا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ نگار و یکلی کے مدیر الیاس رشیدی صاحب نے ہمارے سامنے پنجاب اور کراچی کے کئی تقسیم کاروں سے ’’چندا‘‘ کی ریلیز کے لیے کہا مگر کوئی آمادہ نہ ہوا۔ الیاس صاحب نے ایک تقسیم کار کو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ سوا لاکھ روپے میں ساری مغربی پاکستان کے لیے ’’چندا‘‘ کے حقوق حاصل کرلیں مگر ہمارے ایک دوست تقسیم کار ’’چندا‘‘ کو اس قیمت میں بھی بہت مہنگا سمجھتے تھے ۔ اس لیے انہوں نے معذرت کر دی۔
انیس دوسانی بلند حوصلہ انسان تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مغربی پاکستان میں کوئی ان کی فلم خریدنے پر آمادہ نہیں ہے تو انہوں کراچی میں اپنا تقسیم کار ادارہ دوسانی فلمز قائم کر کے اللہ کا نام لے کر ’’چندا ‘‘ کراچی ‘ سندھ اور بلوچستان سرکٹ میں نمائش کے لیے پیش کر دی ۔ کہتے ہیں کہ اللہ ہمیشہ حوصلہ مندوں کا ساتھ دیتا ہے ۔ یہی معاملہ انیس دوسانی کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ ان کی جس فلم پر کل ایک لاکھ روپے لاگت آئی تھی اس نے صرف کراچی سرکٹ میں بیس لاکھ روپے سے زائد کا بزنس کیا ۔ اس طرح کراچی میں دوسانی فلمز کا تقسیم کار ارادہ بھی مستحکم بنیادوں پر قائم ہوگیا۔ (جاری ہے)

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر432 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں