وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 54ویں قسط
زرغام کا ملازم ساجد اپنے کوارٹر میں قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول تھا۔ تلاوت کے بعد جب اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اس کے ہاتھ کانپنے لگے ندامت کا ایک احساس اس کے اور اس کے رب کے درمیان میں آجاتا۔ یہی تکلیف دہ احساس کہ وہ ایک کافر کی غلامی کر رہا ہے اس کی ذات کا نا سور بن چکا تھا مگر ہمیشہ کی طرح وہ اپنے پروردگار سے اپنا حال دل بیان کیے بغیر رہ نہ سکا۔
”میرے رب! وارثت کی طرح آباﺅ اجداد سے منتقل ہوتی ہوئی یہ غلامی میرے حصے میں آگئی۔ میرا ابا کہتا تھا کہ مالک جو مرضی کریں ہمیں اس سے کیا لینا ہمیں تو اپنی نوکری پوری ایمانداری سے نبھانی ہے۔ تیری جان بھی تیرے مالک کی ہے۔ میں حرام کھاتا ہوں حرام دیکھتا ہوں....میں نفرت کرتا ہوں زرغام سے....بس اپنے ابا سے کیا وعدہ نبھا رہا ہوں....مجھ گناہگار کو معا ف کر دے۔ معاف کردے یا رب....“
زرغام کی گاڑی کے ہارن کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ اس نے دعا پوری کی اور قرآن پاک کو الماری میں رکھ دیا۔ سب ملازم کام کرکے چلے گئے اس لیے اس نے کوٹھی کے دروازے لاک کرکے باہر گیٹ کو بھی قفل چڑھا دیا تھا اس کا کوارٹر کوٹھی کے ساتھ ہی تھا۔
اس نے جلدی سے اپنی جیب سے چابی نکالی اور تیز قدموں سے چلتا ہوا اپنے کوارٹر سے باہر نکلا زرغام نان سٹاپ ہارن بجا رہا تھا۔
ساجد نے آگے بڑھ کر گیٹ کا قفل کھولا گاڑی گیراج میں داخل ہوگئی۔ ساجد نے گھر کے دروازے بھی کھول دیئے۔
زرغام گھر میں داخل ہوتے ہی ساجد پر برس پڑا”کہاں مر گئے تھے اتنی دیر لگا دی گیٹ کھولنے میں۔“
”صاحب جی! میں نے تو بڑی کوشش کی تھی گیٹ جلدی کھولنے کی۔“
زرغام نے اپنا کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا ، بوٹ اور جرابیں اتار کے بے ترتیبی سے پھینکیں۔”تمہیں ضرورت کیا ہے دن کے وقت گھر بند کرکے اپنے کوارٹر میں جانے کی اس گھر میں دل نہیں لگتا۔“
”صاحب جی! سارے ملازم کام کرکے چلے گئے تھے آپ بھی گھر پر نہیں تھے....“
زرغام کا موڈ پہلے سے ہی خراب تھا، ساجد کی بات سن کر وہ مزید تپ گیا۔”میں تو کئی کئی دن گھر پر نہیں ہوتا تم کیا گھر بند رکھو گے۔ا ٓئندہ رات سے پہلے تم کوارٹر میں نہیں جاﺅ گے۔“
ساجد کی زبان سے بے اختیار نکل گیا۔”بہت خوف آتا ہے مجھے اس گھر سے۔“
زرغام کا چہرہ غصے سے پھولا ہوا تھا مگر ساجد کی بات سن کے اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔”تمہیں ڈر لگتا ہے، زرغام کے ملازم کو زرغام جو ماورائی دنیا کا بادشاہ ہے جنات جس کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔“
ساجد کانپنے لگ گیا”صاحب جی!بس دن میں کسی بھی وقت تھوڑی دیر کے لیے اپنے کوارٹر میں جانے کی اجازت دے دیں۔“
”اچھا....اچھا اب زیادہ میرا دماغ مت کھاﺅ۔“
ساجد دھیرے دھیرے قدموں سے کچن کی طرف بڑھنے لگا۔ زرغام نے اسے پیچھے سے پکارا۔”جلدی سے میرے لیے کھانا بنا دو۔ مجھے ضروری کام کرنا ہے۔“
”کھانا تو میں نے صبح ہی بنا دیا تھا، بس چپاتی توے پر ڈالنی ہے۔“ ساجد نے بتایا۔
”اچھا پھر جلدی کرو ، میں اتنی دیر میں فریش ہو جاتا ہوں۔“
زرغام یہ کہہ کر واش روم چلا گیا۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے اور ڈائننگ ٹیبل پر آکے بیٹھ گیا۔ ساجد نے سالن اور روٹی زرغام کے آگے رکھ دی اور ساتھ میں پانی اور پھل بھی رکھ دیئے سارے لوازمات پورے کرکے وہ کچن میں ہی بیٹھ گیا۔
”تم بھی کھانا کھالو....“ زرغام نے اونچی آواز میں کہا۔
”ابھی بھوک نہیں ہے صاحب جی....جب بھوک ہوگی تو کھا لوں گا۔“ ساجد نے کہا۔
زرغام نے جلدی میں کھانا کھایا اور ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے ساجد کی طرف بڑھا”میں اوپر والے کمرے میں جا رہا ہوں۔ میں نے تین گھنٹے کا چلہ کاٹنا ہے۔ مجھے ڈسٹرب نہیں کرنا، کوئی بھی ملنے آئے یا فون آئے یہی کہنا کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔“
”ٹھیک ہے صاحب....“ ساجد نے کہا۔
زرغام زینہ چڑھتا ہوا گیلری میں چلا گیا۔ اس نے اپنی جیب سے کمرے کی چابی نکالی اور قفل کھولا۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد اس نے چٹنی لگا لی اور کمرے کی ساری کھڑکیاں کھول کر پردے پیچھے کر دیئے۔
٭٭٭
عمارہ، اسامہ کی بات سن کر بہرت الجھ گئی۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اتنی جلدی سب کو کس طرح تیار کرے اس نے ظفر کو فون کیا اس نے ظفر کو ساری بات بتائی۔
ظفر نے اسے سمجھایا۔”اس میں اس قدرسوچنے والی کیا بات ہے ۔اگر تم نے زرغام کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے تو تمہیں فیصلہ لینے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ اسامہ اگر چار لوگوں کی ٹیم بنانا چاہتا ہے تو ایسے ہی سہی، ہم ادھر ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے تم لوگ بس اپنا خیال رکھنا۔ سب لوگوں کو اکٹھا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سب سے فون پر بات کر لیتا ہوں۔ تم اپنی والدہ کو میرے گھر چھوڑ دو۔ تمہارا گھر بھی سیٹ کرا دوں گا۔“
”ہمیں آج رات کو ہی سب پلان کرنا ہے۔“ عمارہ نے گھبراہٹ میں کہا۔
”ایسا کرو کہ تم رات کے آٹھ بجے اپنی والدہ کے ساتھ میرے گھر آجاﺅ۔ اسامہ کو بھی بلا لینا۔ ساحل اور عارفین کو میں بلا لوں گا۔“ ظفر نے کہا۔
عمارہ، ظفر کے سمجھانے کے باوجود الجھی ہوئی تھی۔”ہم اسامہ کو ٹھیک طرح سے جانتے نہیں، اس کی شخصیت انتہائی پیچیدہ ہے اور اوپر سے اس کی یہ جلد بازی....“
”تم تو سائیکاٹرسٹ ہو،تم نے کیا اندازہ لگایا ہے کہ وہ کس طرح کا انسان ہے؟“ ظفر نے پوچھا۔
”مخفی خصوصیات کا مالک ہے ریٹائرڈ میجر ہے، ظاہری بات ہے کہ بہادر اور ذہین ہے۔ جو بات مجھے پریشان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ زرغام اور اس کے مسخر کیے ہوئے ہمزاد کے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہے کہ جتنا ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا وہ کہتا ہے کہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ انہیں کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے۔“ عمارہ نے کہا۔
”ہمارے لیے تو بہت بڑی بات ہے کہ کوئی شخص اس طرح کے دعوے کر رہا ہے۔ وہ کیا کہتا ہے رات کو اس کی بات سنتے ہیں باقی تم ذہنی طور پر تیار ہو تم عارفین اور ساحل کے ساتھ مل کر اس کے ساتھ مشن پرچلی جانا۔تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ساحل اور عارفین تو تمہارے ساتھ ہیں۔“
ظفر کی بات سن کے عمارہ کو کچھ تسلی ہوئی”باقی باتیں رات کو ہوں گی۔اچھا اللہ حافظ۔“ یہ کہہ کر عمارہ نے فون بند کر دیا۔
ظفر نے تاخیر کیے بغیر ساحل اور عارفین سے بات کر لی ساری بات کا جب راحت کا علم ہوا تو وہ انتہائی پریشان ہوگئی مگر ساحل نے کسی نہ کسی طرح ماں کو منا ہی لیا۔ اسی طرح کی صورت حال عارفین کے گھر والوں کی بھی تھی مگر اس کے گھر والوں کو بھی اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اس نے اپنی اور وینا کی شادی کا ارادہ بھی فی الحال ترک کر دیا۔
عمارہ نے اسامہ کو بھی رات آٹھ بجے کا وقت دیا کہ وہ ظفر کے گھر پہنچ جائے۔ ساحل اور عارفین نے اپنی اپنی پیکنگ کر لی۔
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 53ویں قسط
زرغام اپنے چلے میں مصروف تھا ساجد برتن دھو رہا تھا ساتھ ساتھ اس کا ذہن عجیب طرح کی سوچوں میں الجھا ہو ا تھا۔
”نہ جانے یہ شیطان کس کی موت کے منصوبے تیار کر رہا ہے، ویسے اتنا پریشان تو یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کی کوئی چال کارآمد نہ ہو۔ا س خناس کے چہرے پہ پھیلی ہوئی مسکراہٹ کے پیچھے نہ جانے کتنے لوگوں کی آہیں ہوتی ہیں۔کبھی کوئی چلہ اس پر ہی الٹا پڑ جائے۔“
ساجد انہی سوچوں میں الجھا گھر کے کام کرتا رہا اس دوران باہر بیل ہوئی ساجد نے دروازہ کھولا تو باہر کوئی شخص زرغام کاپوچھ رہا تھا۔
”صاحب تو گھر پرنہیں ہیں۔“ ساجد نے کہا۔ وہ شخص گاڑی میں آیا تھا۔
”زرغام نے کچھ منگوایا تھا۔ میں ان کا سامان اندر رکھ دیتا ہوں۔“
”مگر مجھے تو صاحب نے کسی سامان کے بارے میں نہیں بتایا۔“ ساجد نے کہا۔
”بھول گئے ہوں گے بتانا، سامان رکھنا ہے تو رکھوالو۔ میں اتنی دور سے بار بار نہیں آسکتا۔“ باہر کھڑے ہوئے شخص نے کی رنگ گھماتے ہوئے کہا۔
وہ شخص اپنی گاڑی کی طرف بڑھا اور گاڑی سے ایک پنجرہ اٹھا کے لایا جس کی لمبائی اور چوڑائی تقریبا دو دو فٹ تھی۔ وہ شخص پنجرا اٹھا کے گیراج میں داخل ہوا تو ساجد لرز کے رہ گیا۔
”یہ تم کیا لے کر آئے ہو۔“
”نظر نہیں آتا بابا جی! یہ سانپ ہیں۔ کوبرا نسل کی جوڑی ہے۔ جس کو ڈس لے اس کی موت چند سکینڈز میں ہو جاتی ہے۔“ اس شخص نے پنجرا ساجد کے قریب کرتے ہوئے کہا۔
”یار پرے کرو....میری کیوں جان نکالتے ہو ادھر رکھ دو کہیں۔“ ساجد نے کہا۔
اس شخص نے نفی کے انداز میں سرہلایا۔”زرغام صاحب نے کہا تھا یہ پنجرے لیونگ روم میں رکھنے ہیں۔“
”پنجرے....“ ساجد نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں ایک اور پنجرا بھی ہے“ اس شخص نے کہا۔
”لے آﺅ اندر....“ ساجد نے اندر جا کر لیونگ روم کا دروازہ کھول دیا۔ وہ شخص سانپوں کا پنجرا اٹھا کے لیونگ روم میں آگیا اور اس نے پنجرا دیوار کے ساتھ رکھ دیا پھر دوسرا پنجرا لینے کمرے سے باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص ایک اور پنجرا لے کر کمرے میں داخل ہوا۔
ایک بار پھر ساجد کے جسم سے جھرجھری دوڑ گئی۔ اس پنجرے میں چھپکلیاں کچھا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ پنجرا رکھنے کے بعد وہ شخص دوبارہ کمرے سے باہر گیا اور کچھ دیر کے بعد دو چھوٹے چھوٹے ڈبے لے آیا اس نے وہ ڈبے ساجد کی طرف بڑھائے۔
”یہ ان کی خوراک ہے جس ڈبے کے اوپر سانپ کی تصویر ہے یہ سانپوں کی خوراک ہے اور جس کے اوپر Lizardsکی تصویر ہے یہ ان کی خوراک ہے ۔ سانپوں کو دودھ بھی دینا ہے۔ باقی یہ توزرغام صاحب جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ کس مقصد کے لیے منگوائے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ شخص چلا گیا ساجد نے گیٹ بند کر دیا۔(جاری ہے)
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 55ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں