وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 55ویں قسط
ساجد بڑبڑاتا کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا لیونگ روم میں داخل ہوا۔’’نہ جانے یہ خطرناک جانور زرغام صاحب نے کس لیے منگوائے ہیں اب مجھے ان جانوروں کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ چلہ ختم ہونے تک تو اس سے کوئی بات نہیں کر سکتا۔ فارغ ہوکے باہر آئے گا تو پوچھ لوں گا۔‘‘
چلہ مکمل ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ ساجد نے خود بھی کھانا کھا لیا تھا۔ اس کا نچلی منزل کا تقریبا سارا کام ختم ہوگیا تھا اسے خیال آیا کہ اوپری منزل کے دو کمروں کی ڈسٹنگ چیک کر لوں نہ جانے ملاملازمہ نے ٹھیک طرح سے وہ کمرے صاف بھی کیے ہوں گے کہ نہیں زرغام کا خاص کمرہ تو ہمیشہ بند ہی رہتا تھا اسے تو زرغام ہی کھولتا تھا۔
اس نے ڈسٹنگ کا کپڑا لیا اور زینہ چڑھتا ہوا اوپری منزل پہنچ گیا۔ ساجد زرغام کے خاص کمرے کے قریب سے گزرا تو اس کے پورے وجود میں کپکپی دوڑ گئی۔ اس کمرے سے خوفناک غرغراہٹوں کے ساتھ مردانہ اور نسوانی بہت سی آوازیں آرہی تھیں جبکہ اس کے سامنے زرغام تنہا اس کمرے میں گیا تھا یقیناًوہ پراسرار قوتوں سے ہم کلام تھا۔
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 54ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ساجد کے دل کو گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی۔ وہ خوفزدہ تھا مگر اسکے دل میں چھپی ہوئی اچھائی کی طاقت اسے مجبور کرنے لگی کہ وہ زرغام کی باتیں سنے کہ وہ کون ساشیطانی کھیل کھیلنے والا ہے۔ وہ ہمت کرکے دروازے کے آگے رک گیا۔ زرغام ترش روئی سے چلا رہا تھا۔’’تمہاری تو شیطانی طاقتیں بڑھ گئی تھیں تو پھر تو عام انسان تمہارے چنگل سے کیسے نکل گئے۔‘‘
جواب میں کسی لڑکی کی آواز ابھری’’ساحل کی موت تو یقینی تھی وہ تو کسی بھی طرح سے میرے بچھائے ہوئے جال سے نہیں بچ سکتا تھا مگر خیام۔۔۔‘‘
’’تم تین ہو اور خیام ایک پھر کس طرح کی طاقت تمہاری شیطانی طاقتوں پر حاوی ہو گئی۔‘‘ زرغام کا غصہ مزید بڑھ گیا۔
اسی دوران ایک اور مردانہ آواز گونجی وہ آواز زرغام کی نہیں تھی۔’’میں خود اس بات پر حیران ہوں کہ عمارہ کی ماں موت کی دسترس سے کیسے نکل گئی۔‘‘
زرغام ایک بار پھر تپے ہوئے انداز میں چلایا۔’’تم نے جو کیا میں اس کی تمہیں سزا دینا نہیں چاہتا مگر تم تینوں سے کچھ ایسا چاہتا ہوں کہ ہر طرف خوف و ہراس پھیل جائے۔‘‘
’’ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‘‘ مردانہ آواز میں کسی نے پوچھا۔
کچھ دیر خاموشی رہی پھر زرغام نے کہا’’کل صبح نو بجے برٹش سکول کے نرسری کلاس کے بچوں کی بس وادی سون سکیسر کے ٹرپ کے لیے روانہ ہوگئی۔ سب بچوں کو موت کی نیند سلا دو اور ان کی موت ایسی ہو کہ والدین اپنے بچوں کو نہ پہچان سکیں سکیسر کی وادی میں قہقہوں کے بجائے آہ و بکا گونجے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی ساجد کو کمرے سے زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ وہ تیز تیز قدموں سے زینہ پھلانگتا ہوا نیچے آگیا۔
اسکا چہرہ پسینے سے تر تھا۔ سانس پھولی ہوئی تھی۔ ہاتھ پاؤں تو جیسے بے جان ہوگئے تھے اسنے کچن سے پانی کی بوتل لی اور گلاس بھر کے غٹاغٹ پی گیا۔ مگر اس کا حلق ابھی بھی خشک تھا۔اس نے ایک گلاس اور پانی پیا۔ وہ بے چینی سے ادھر ادھر پھرنے لگا وہ سخت پریشان تھا۔ اس نے رب کے آگے ہاتھ پھیلائے۔’’ان معصوم بچوں نے اس شیطان کا کیا بگاڑا ہے میرے رب مجھے کوئی راستہ دکھا کر میں ان معصوم بچوں کی جان بچا سکوں۔‘‘یہ کہہ کر ساجد نے اپنی جیب سے تسبیح نکالی اور اللہ الصمد کا ورد کرنے لگا۔
چلہ مکمل ہونے کے بعد زرغام اپنے خاص کمرے سے باہر آیا۔
نیچے آتے ہی اس نے ساجد کو پکارا۔ ساجد ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔’’جی صاحب۔‘‘
’’ایک کپ چائے بنا کر لاؤ میں بہت تھک گیا ہوں۔’’زرغام نے اپنے پلنگ پر براجمان ہوتے ہوئے کہا۔ ساجد کچن میں گیا اور اس کے لیے چائے بنا کے لے آیا۔
’’صاحب اگر اجازت ہو تو اپنے کوارٹر میں چلا جاؤں۔‘‘
’’ہاں چلے جاؤ۔‘‘ زرغام نے چائے کا کپ لیتے ہوئے کہا۔
ساجد اپنے کوارٹر میں جا کے بھی سر پکڑے بیٹھا رہا اسے زرغام کی طرف سے موبائل رکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ زرغام بہت خطرناک ہے اگر وہ حویلی سے باہر جا کے کسی کی مدد لینا چاہے تو زرغام اسے زندہ نہیں چھوڑے گا اور اگر کسی طریقے سے بچوں کے ٹرپ کی بس رکوا دی جائے تو زرغام اپنے حملے کا طریقہ بدل لے گا۔ ایسا کیا کیا جائے کہ زرغام اپنے ناپاک ارادے سے باز آجائے۔
اسی سوچ میں گم وہ پریشان بیٹھا تھا۔ اس کا ذہن ماؤف ہوگیا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
***
تقریباً رات آٹھ بجے کے قریب اسامہ عمارہ کے گھر پہنچ گیا۔ عمارہ نے اپنا بیگ پیک کرلیا تھا۔ رابعہ بھی تیار تھی۔ اسامہ باہر گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔ عمارہ اور رابعہ نے گھر لاک کیا اور اپنا سامان اٹھا کے اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ عمارہ اور اسامہ کی گاڑیاں ایک ساتھ وہاں سے روانہ ہوئیں۔ وہ ظفر کے گھر پہنچے تو ساحل اور عارفین وہاں پہلے سے موجود تھے۔ وہ دونوں بھی اپنا اپنا بیگ ساتھ لائے تھے ظفر نے ان سب کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔
ظفر نے ان سب کو مخاطب کیا’’میں نے آپ سب کو اپنا اپنا بیگ لانے کی تلقین اس لیے کی کہ میرا خیال ہے کہ اپنے مشن پر آپ سب ایک ساتھ میرے گھر سے ہی روانہ ہوں۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ پہلے میں امی کو ان کے کمرے تک چھوڑ آؤں پھر ہم تسلی سے بات کرتے ہیں۔‘‘ عمارہ نے رابعہ کو سہارا دیتے ہوئے اٹھایا۔
’’میں تمہیں کمرہ دکھاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر ظفر عمارہ کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
عمارہ نے رابعہ کو بستر پر لٹایا۔ ظفر نے ملازمہ کو رابعہ کے پاس رکنے کو کہا۔
عمارہ مطمئن ہو کے سب کے ساتھ آبیٹھی۔ ظفر نے اپنی بات دوبارہ شروع کی۔’’آپ سب اس مشن کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔‘‘
’’ہم سب ذہنی طور پر تیار ہیں اس لیے یہاں موجود ہیں مگر اسامہ ہمیں تفصیل سے بتائے کہ اس کے پاس کیا پلان ہے۔‘‘ ساحل نے کہا۔ عارفین نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
اسامہ نے اپنے بیگ سے ایک چارٹ نکالا اور اسے میز پر پھیلا دیا۔
اس نے اپنا پلان بتانے سے پہلے سب کی طرف ایک نظر دیکھا۔’’اتنے خطرناک مشن کے لیے آپ مجھ پر بھروسا کرکے میرے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں میں آپ کو مشکورہوں مگر ایک بات اپنے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں بھی یہ سب اسی نیک نیتی سے کر رہا ہوں جس نیک نیتی سے آپ کر رہے ہیں۔ میں بھی آپ کی طرح انسانیت کی خدمت کرنا چاہتا ہوں اس مشن میں آپ مجھ سے میرے بارے میں بار بار سوال نہیں کریں گے۔ آپ سب کے ذہن میں الجھے ہوئے سوالوں کا جواب پہلے ہی دے دیتا ہوں کہ جس طرح آپ کو میں نے اس مشن کے لیے آمادہ کیا ہے۔ اسی طرح مجھے بھی کسی نے اس مشن کے لیے آمادہ کیا ہے میں آپ کو اس کا نام نہیں بتا سکتا اور پلیز آپ لوگ پوچھئے گا بھی نہیں۔‘‘
ظفر نے اسامہ کے کندھے پر تھپکی دی۔’’ہم تمہاری بات سمجھ رہے ہیں تم مطمئن رہو۔‘‘
ظفر کی بات سن کے اسامہ اپنے پوائنٹ کی طرف آیا اس نے چارٹ کو پھیلایا۔
’’ہمیں درخت کی جڑیں کاٹنی ہوں گی شاخیں خود بخود مر جھا جائیں گی۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔‘‘ ساحل نے کہا۔
’’یہ زرغام کی رہائش گاہ ہے۔ ہمارا پہلا ٹارگٹ یہی ہے ہمیں اس شیطان کو سب سے پہلے ختم کرنا ہے۔‘‘ اسامہ نے چارٹ پر کھینچے ہوئے نقشے میں ایک پوائنٹ پر انگشت رکھتے ہوئے کہا۔
’’اس نے یقیناًاپنی کوٹھی کے آس پاس باڈی گارڈز رکھے ہوں گے۔‘ ‘ عارفین نے پوچھا۔
اسامہ نے مسکراتے ہوئے عارفین کی طرف دیکھا۔’’اس کی کوٹھی کے آس پاس باڈی گارڈز ضرور ہوں گے مگر انسان نہیں آسیب اور شیاطین ہوں گے۔ انہیں ہم ہتھیاروں سے نہیں ماریں گے ان کو بھگانے کے طریقے ہیں میرے پاس۔ زرغام روحانی طاقتیں بھلے رکھتا ہو۔ ہے تو گوشت پوست کا انسان، اسلحہ تو اس کے لیے استعمال ہوگا۔ زرغام کو ہمیں ہر حال میں طلوع آفتاب کے بعد اور غروب آفتاب سے پہلے کسی بھی وقت مارنا ہے۔‘‘
’’طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب کے بعد ہم زرغام کو کیوں نہیں مار سکتے۔‘‘ ساحل نے پوچھا۔
’’اسکی وجہ میں آپ کو تفصیل سے بتا دوں گا فی الحال ہمیں یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ ان دو اوقات میں ہمیں زرغام کو نہیں مارنا۔‘‘ اسامہ نے کہا۔
’’فرض کرلیں کہ ہم زرغام کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ہمارا اگلا قدم کیا ہوگا۔‘‘
عمارہ نے اسامہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ اسامہ نے بلا تامل جواب دیا۔’’ہمیں تاخیر کیے بغیر مری کے لیے روانہ ہوناہوگا۔‘‘
’’مری۔۔۔مری کہاں جائیں گے؟‘‘ ظفر نے پوچھا۔
’’اسی جگہ پر جہاں چار اسٹوڈنٹس نے کھائی میں چھلانگ لگائی تھی اسی مقام پر جانا ہے جہاں سے یہ بھیانک عمل شروع ہوا تھا۔ باقی کا پلان زرغام کی موت کے بعد سمجھا دوں گا۔‘‘
زرغام کی بات سن کر ظفر نے عمارہ کی طرف دیکھا۔’’مری کے حساب سے تم لوگوں نے جو جو چیز اپنے ساتھ رکھنی ہے وہ دیکھ لو۔ میں بازار سے لا دیتا ہوں جو کچھ بھی چاہئے۔‘‘
ظفر کی بات سن کر اسامہ نے فوراً کہا’’ہم صبح دس بجے سے پہلے نہیں نکلیں گے آپ سب نے اپنے گھر کا چکر لگانا ہو تو آپ چلے جانا کوئی چیز لینی ہو تو لے آنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے ہم سب صبح صبح اپنے گھروں سے کچھ گرم کپڑے اور ضرورت کی اور چیزیں لے لیں گے۔‘‘ عمارہ نے کہا۔
اسامہ نے نقشہ سمیٹ کر اپنے بیگ میں ڈالا اور ایک رائفل اور تین پسٹل بیگ سے نکال کر میز پر رکھی۔ اس نے دو پسٹلز ساحل اور عارفین کو دی اور ایک پسٹل اس نے عمارہ کی طرف بڑھائی۔
عمارہ نے کندھے اچکاتے ہوئے اپنے ہاتھ پیچھے سکیڑ لیے۔’’میں اسے استعمال کرنا نہیں جانتی۔‘‘
اسامہ نے عمارہ کا ہاتھ پکڑ ا اور اس کے ہاتھ میں پسٹل تھما دی۔’’میں سکھا دوں گا۔۔۔‘‘ عمارہ نے پسٹل اپنے بیگ میں ڈال لی۔(جاری ہے)
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 56ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں