مہنگائی، مہنگائی…… غیر سیاسی کالم!
گزشتہ ہفتے صوبائی حکومت نے ایک خوشخبری سنائی کہ صوبے میں حکومتی اقدامات کی بدولت مہنگائی میں کمی ہوگئی ہے۔ حکومتی دعوے کے مطابق آٹے کی قیمت میں کمی ہوئی ہے۔ یہ قیمت کم کیسے ہوئی یہ روزانہ شام ٹی وی میڈیا دیکھ لیں پتہ چل جائیگا کہ گندم کہاں سے آئی، صرف اسے بیچنے کی اجازت کیوں ملی اور سرکاری گوداموں میں محفوظ گندم کی قیمت اس موقع پر بجائے کم کرنے کے زیادہ کیوں کردی گئی۔ چند گھنٹے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ”ضائع“ کرکے سمجھ آجائیگی کہ آٹا کس ذریعے سے کس نے سستا کیا اور کس کی قیمت پر کیا (اور بھگت کون رہا ہے 6 کروڑ کسان) دوسرا دعویٰ کہ مکئی سستی ہوگئی ہے جبکہ مکئی کے سستے ہونے کی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اسکی قیمت میں کمی ہونا ہے، اسکا اثر پاکستان میں بھی پڑا ہے، اس میں کسی حکومت کا کوئی کمال نہیں ہے۔ چاول کی قیمت میں ہزاروں روپے کی حیران کن کمی بتائی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ جو زیادہ قیمت بتائی گئی ہے وہ کس نسل کا چاول ہے باسمتی ہے، موٹا چاول ہے، اری ہے کونسا ہے؟ بہرحال قیمت لکھ دی گئی ہے کہ یہ تھی اور یہ ہوگئی ہے۔ مرغی کے گوشت میں ضرور 300 روپے کا فرق آیا ہے، اب اس کی وجوہات بھی بتانا چاہئیں، اگر ہم اپنا ایک دن کا مرغی کا چوزہ افغانستان بھیج دیں گے تو پاکستان میں چوزوں کی کمی کا چھ ہفتے بعد پتہ چلے گا کیونکہ بازار میں برائلر مرغی کی رسد کم ہوجائیگی اور قیمت بڑھ جائیگی۔ اب حکومت نے افغانستان کو چوزے کی برآمد پر پابندی عائد کردی ہے اور نتیجے میں مرغی کے گوشت کی قیمت ”دھڑام“ سے نیچے آگئی ہے کاش کہ یہ کام ہم پہلے کرلیتے کہ جو چیز ہماری ضرورت سے زیادہ نہیں ہے وہ ہم کیوں باہر بھیج رہے ہیں۔،یہی کام ہم اب چینی کے ساتھ کرنیوالے ہیں۔ طاقتور سیاسی حلقے ”ایک بڑے گھر“ کے ذریعے یہ مہم چلا رہے ہیں کہ چینی زیادہ ہوگئی ہے باہر بھیجنے کی اجازت دی جائے، اب یہ چینی باہر بھیج کے ڈالر کمائیں گے۔ پھر پاکستان میں چینی مہنگی کرکے عوام کی جیبوں سے پیسے نکالیں گے، پھر کہیں گے مہنگائی ہوگئی ہے۔
مہنگائی پر بات کرنے کیلئے ریکارڈ دیکھنا شروع کیا کہ آج سے 8 یا 10 سال پہلے کی قیمتوں میں کتنا فرق ہے؟ تو 2016ء کے ڈپٹی کمشنر لاہور کے مقرر کردہ نرخ کی کاپی ملی جس کے مطابق اعلیٰ نسل کے باسمتی چاول کی قیمت 85 روپے کلو مقرر کی گئی تھی اور اب لاہور کے ڈپٹی کمشنر کی چاول کی مقرر کردہ قیمت (ضلعی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق) 290 روپے ہے جبکہ بازار میں یہ چاول 450 روپے کلو تک دستیاب ہے۔ اسی طرح ایک کلو چنے کی دال کی قیمت اس وقت 140 روپے کلو تھی جبکہ اسکا سرکاری نرخ آج 240 روپے کلو ہے اور دوسری طرف بازار میں یہ 290 سے 310 روپے میں مل رہی ہے۔ مسور کی دال کی قیمت 2016ء میں 140 روپے تھی، آج سرکاری ریٹ 305 ہے جبکہ بازار میں 340 سے 350 روپے ہے۔ ماش کی دال دھلی ہوئی کی قیمت 2016ء میں 230 تھی، آج 530 ہے اور بازار میں یہ دال 570 سے 600 روپے میں بک رہی ہے۔ دھلی مونگ کی دال کی قیمت 2016ء میں 120 تھی آج سرکاری قیمت 280 اور بازار میں 370 روپے تک مل رہی ہے۔ کالا چناکا سرکاری ریٹ 135 روپے مقرر تھا، آج 235 ہے جبکہ بازار میں یہ 260 سے 270 روپے میں ملتا ہے۔ سفید چنا 2016ء میں 150 روپے کلو تھا، آج اسکا سرکاری نرخ 320 اور بازار میں 350 سے 360 روپے ہے۔ بیسن 142 روپے کلو تھا، آج سرکاری قیمت 230 روپے اور بازار میں 250 روپے کلو ہے۔ 2016ء میں لال مرچوں کی سرکاری قیمت 240 روپے کلو تھی، آج بازار میں یہ قیمت 1200 روپے کلو ہے۔ چینی کی سرکاری قیمت 69 روپے کلو تھی، آج بازار میں چینی 150 روپے سے کم پر دستیاب نہیں ہے۔ دودھ ایک لیٹر کا ریٹ 70 روپے مقرر تھا جو آج 160 ہے، بازار میں 180 سے 200 روپے ملے گا۔ دہی 2016ء میں 80 روپے کلو تھا، آج سرکاری ریٹ 180 روپے ہوگیا ہے اور بازار میں یہ 220 سے 230 روپے میں ملتا ہے۔ بکرے کے گوشت کا نرخ ڈپٹی کمشنر نے 2016ء میں 700 روپے مقرر کیا تھا جو آج 1600 روپے مقرر ہے۔ اگر 2200، 2400 روپے میں اچھا گوشت مل جائے تو بڑی خوش قسمتی ہوگی۔ گائے کا گوشت 2016ء میں 325 اور آج حکومتی نرخ کے مطابق 800 ہے جبکہ بازار میں 1200 سے 1400 روپے ملتا ہے۔ اب مجھے یہ کوئی بتائے کہ یہ نرخ کہاں سے آتے ہیں، اگر حکومت نرخ مقرر کرتی ہے تو اس نرخ پر یہ بکتا کیوں نہیں ہے؟
یہ گھر کی گروسری یعنی باورچی خانے کی ضرورت کی اشیاء کے نرخ تھے۔ اب اگر 2016ء اور آج کے سبزی اور پھل کے نرخ کا تقابل کرلیں صرف کچھ ضروری چیزوں کا تو آلو 2016ء میں بازار میں 41 روپے تھا، آج 75 روپے کلو بک رہا ہے۔ پیاز تب 22 روپے تھا آج 95 روپے بک رہا ہے۔ ٹماٹر 55 روپے تھا آج 70 پر بک رہا ہے (یہی ایک مہینہ پہلے 200 روپے تک بکتا رہا)۔ لہسن 2016ء میں 271 روپے تھا آج 640 روپے ہے، ادرک 90 روپے تھا آج 600 روپے ہے۔ ایک معمولی سی سبزی بینگن 2016ء میں 22 روپے تھی آج 80 روپے ہے۔ بھنڈی تب 47 تھی آج 175 سے 200 روپے کلو ہے۔ اروی تب 47 تھی آج بازار میں 230 ہے۔ دیسی لیموں تب 146 تھا آج 560 ہے اور چائنہ لیموں تب 106 تھا آج 340 ہے۔ پھلوں میں کیلا 47 تھا آج 150 روپے درجن ہے۔ انار قندھاری تب 150 تھا اب 490 روپے کلو ہے۔ مسمی تب 80 روپے درجن تھی اس دفعہ 280 روپے بکی۔
یہ کچھ حیران کن قیمتیں ہیں باقی اب اتنا لمبا چوڑا کیا لکھنا۔ ہم نے صرف قیمتوں کا موازنہ کیا ہے، باقی حکومت اور عوام پر چھوڑ دیا ہے۔ بجلی، پانی، گیس کے بلوں میں مسلسل اضافے، تعلیم، گھروں کے کرائے سمیت ہر چیز میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف تنخواہوں میں کتنا اضافہ ہوا؟ قیمت میں کمی کہاں ہوئی ہے؟ حکومت کہتی ہے مہنگائی کم ہوئی ہے۔ صحیح کہتی ہے، دراصل انسانی جان سستی ہوگئی ہے۔ روزانہ خبروں میں انسانی جان ہی ”ضائع“ ہوتی نظر آتی ہے، باقی تو ہر چیز مہنگی ہے، سستا صرف ”انسانی خون“ ہو گیا ہے۔
……٭……٭……