پاکستان میں گداگری کے فن میں جدیدیت (حصہ اوّل)
جی میں سنجیدگی سے پاکستان میں گداگری کو فنونِ لطیفہ کا درجہ دیتا ہوں۔ حکومت خواہ اس گداگری کو لعنت ہی کہتی ہو۔ آج سے 60/70 سال قبل جو دوست عاقل و بالغ ہو چکے تھے، انہیں شائد یاد ہو کہ ہمارے ہاں ”بہروپئے“ ہوا کرتے تھے۔ ہوتے تووہ بھی گداگرتھے، لیکن کتنی محنت اور جدّت سے وہ مختلف روپ دھار کر بازاروں میں پھیرا لگاتے تھے، ایسا مکمل سوانگ بھرتے تھے کہ بعض اوقات بھیک دینے والے بھی اُن کا حُلیہ دیکھ کر دھوکا کھا جاتے تھے۔ ایسے بہروپئے لاہور کی بیڈن روڈ، لکشمی چوک، کرشن نگرکے بازاروں میں نظر آتے تھے۔ مال روڈ کی دوکانیں اُن کا ٹارگٹ نہیں ہوتی تھیں۔میَں بات کر رہا ہوں 50-60ء کی دھائیوں کی۔ اِنڈیا کی بنی ہوئی فلم لیلیٰ مجنوں کا بڑا چرچا تھا۔ سورن لتا اور نذیر کی یہ فلم تھی۔ نذیر نے مجنوں کا رول ادا کیا تھا۔ بہروپئے کبھی لہو لہان کپڑوں میں مجنوں بن کر اپنی لیلیٰ کے لئے پاگل بن کر ہاتھ میں اینٹ لے کر ہر راہ گیر کو مارنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے نظر آتے، ساتھ ہی ”لیلیٰ لیلیٰ“کا نعرہ لگاکے راہ گیروں پر اینٹ مارنے کا تاثر دے کر ڈراتے ہوئے اور پھر سب کو ہنسا کر اور ہاتھ جوڑ کر معافی کے خواستگار ہو جاتے اور ہاتھ پھیلا کردوکانداروں سے خیرات مانگ لیتے تھے۔ یہ چلتا پھرتا تھیٹر بازار والوں اور راہگیروں کو خوش کرنے کے لئے ہوتا تھا، کبھی گورے تھانیدار کا حلیہ بنا کر، چہرے پر گلابی پینٹ مل کر گورے ”تھانیدارکی طرح خاکی وردی بھی پہن کر دوکانداروں کے ساتھ”انٹ شنٹ“ انگریزی بول کر رعب ڈالتے ہوئے نظر آتے۔ پھر فوراً ہی ”تہاڈے بچیاں دی خیرہووے“ کہہ کر ہاتھ پھیلا دیتے۔
کبھی کوئی دوسرا بہروپیا ٹوٹی پھوٹی کرائے کی سائیکل پر Telegram لانے والے کی خاکی وردی پہن کر ہاتھ میں جھوٹ موٹ کے ٹیلیگرام کا کاغذ پکڑے، کسی کمزور دل دوکاندار کے پاس پہنچ کر کان مین اٹکی ہوئی پنسل نکال کر جعلی سے رجسٹر پر تار کی وصولی کے دستخط مانگنے کا مکمل ڈرامہ کر کے کمزور دل دوکاندار کا ”ترا“نکال کر فوراً ہی ہاتھ جوڑ کر”سخی کی خیر ہووے“کا نعرہ لگاتا اور اسے کچھ نہ کچھ خیرات مل ہی جاتی تھی۔ بہروُپیوں کو اردگرد کے دوکانداروں سے شاباش بھی مل جاتی۔
1960ء کے بعد شہروں میں بہروپئے کی روائت قریباً ختم ہوتی گئی۔ ڈائریکٹ مانگنے والوں کا دور تو پہلے سے موجود تھا۔ اَب باقاعدہ بھیک منگتے مارکیٹ میں آنا شروع ہو گئے، لوگوں کے پاس کاریں بھی آنا شروع ہو گئی تھیں۔ سڑکوں پر ٹریفک سنگل بن گئے جہاں کاروں کو بہرصورت رکنا پڑتا تھا۔ ابھی پاکستان میں لا قانونیت نہیں آئی تھی۔ ٹریفک سنگل گداگروں کا محبوب ٹھکانہ بننا شروع ہو گئے۔ 1966ء تک جاپانی کاریں ابھی نہیں آئی تھیں۔ سکوڈا، فیٹ1100 اور Volkswagen، Opel اور برٹش چھوٹی کاریں نظر آتی تھیں۔ امیر لوگ جو پاکستان میں ابھی بہت زیادہ نہیں تھے وہ البتہ امریکی کاریں Dodge، Chevy، Lincon،Cadillac استعمال کرتے تھے۔ کچھ مہینوں کے لئے روسی کاریں بھی نظر آئیں،اس کا نام تھا Moscovich۔ لیکن یہ زیادہ چل نہیں سکی۔ 1967ء سے جاپانی کاروں کی یلغار شروع ہو چکی تھی۔ شہری دولت مند بھی ہونا شروع ہوگئے تھے۔ SUVs یعنی پراڈو، لینڈ کروزر کا ابھی رواج نہیں شروع ہوا تھا۔ برٹش Road rovers اور Land rover اور امریکی Jeep نظر آتی تھیں۔مسلم ٹاؤن اور گارڈن ٹاؤن بن چکے تھے لیکن ”ٹیکا اور شان“ ابھی گلبرگ سے ہی منصوب تھے۔ ابھی فوج لاہور میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں بھی نہیں آئی تھی۔ صرف کراچی کی DHA تک محدود تھی۔ چھاؤنیوں میں کسی سویلین کی رہائش Status اور رعب کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ روپے کی اچانک ریل پیل کا دور 1975ء تک شروع نہیں ہوا تھا۔ گداگری کے فن نے بھی 1975ء تک زیادہ ترقی نہیں کی تھی۔ وہی پُرانا طریقہ تھا۔ ہاتھوں میں مصنوعی ”ٹنڈ“بنا لیا، کوئی ایسا جعلی سا زخم بنا لیا جس سے ”خون اور پیپ(Puss) رِس رہا ہو، آپ کراہیت سے گھبرا کر کوئی سکہ اس کی جھولی میں ڈال ہی دیتے تھے۔ ابھی ہمارے دو پیسے کے سکے کی بھی وقعت تھی۔ 1970ء تک پاکستانی 5 روپے کا ایک ڈالر ہوتا تھا۔ جنرل ضیاء پاکستان کی مستقل بربادی کا آغاز کرنے والا دوسرا مارشل لاء چیف آیا تھا۔ پہلا جنرل یحییٰ تھا۔ جنرل ایوب ہی ایک شخص تھا جو پاکستان کی تیز رفتار ترقی کا باعث بنا تھا۔ ہمارے جعلی دانشور اور بزعم خود جمہوریت کے چیمپئن، اخباروں والے ایوب خان پر تبرہ بھیجنا ضروری سمجھتے ہیں۔ گداگری کے فن پر لکھتے لکھتے موضوع سے انحراف کی معذرت چاہتا ہوں۔
ایوب خان کے زوال کے بعد ہمارے ملک کی Organic معاشی ترقی کے دروازے 20سال تک بند رہے۔ ہمارے صنعتکار بجائے انڈسٹری کو آگے بڑھانے کے ٹریڈرز بن گئے۔ قریباًتمام صنعتکاروں نے اپنی ٹریڈنگ کے دفاتر دبئی، ملائشیا اور یورپ میں کھول لئے۔ بد قسمتی سے روس/ افغان جنگ میں پاکستان بھی کود پڑا جس کی وجہ سے پاکستان میں مصنوعی خوشحالی کے ساتھ ساتھ جرائم، فرقہ پرستی، ڈرگز، ماڈرن اسلحہ اور مذہبی شدّت پسندی بھی عام ہو گئے۔ 1990ء تک گداگری نے بھی خوب ترقی کی، لیکن ابھی اس میں جدید فنکاری کا عنصر شروع نہیں ہوا تھا۔ ابھی ٹریفک سگنلز پر شام سے ہی ”خسرے“بناؤ سنگار کر کے کھڑے ہونا شروع نہیں ہوئے تھے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ٹریفک سگنلز پر رکی ہوئی کاروں کے ونڈ سکرین صاف کرتے نظر آنا شروع نہیں ہوئے تھے۔ البتہ نوجوان خاوند/ بیوی اور دو تین بچوں کا ”مسافر ٹبر“ بڑے مہذب طریقے سے اپنی دُکھ بری داستان سنا کر بڑی مناسب خیرات لینے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔ چونکہ یہ زمانہ مذہبی گرم جوشی کا تھا۔ عمرے اور حج کرنے اور کروانے والوں کے نفع بخش کاروبار کا آغاز شروع ہو چکا تھا۔ اِن ہی دنوں میں نوجوان لڑکے، سر پر کپڑے کی ٹوپیاں سجائے، چگی سی داڑھی کے ساتھ مذہبی سا حلیہ بنائے، ٹریفک سنگنلز اور مارکیٹوں میں حج کی دُعاؤں کی کتابیں بڑی یتیم کی سی شکل بنائے فروخت کرتے نظر آنے لگے تھے۔ تاجر ہی زیادہ تر عمرے اور حج کے شوقین ہوتے تھے اور اَب تو بہت ہی زیادہ ہیں۔ حکومتی ٹیکس چوری کی بچت سے عمرے اور حج پر اور خیر خیرات پر یہ لوگ خوب خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ دُعاؤں اور وظیفوں کی Booklets خوب اچھے داموں پر یہ نوجوان فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔(جاری ہے)