ایک عزیز کے خط کے جواب میں
گزشتہ ماہ میرے ایک عزیز دوست کا خط موصول ہوا۔ ان ایام میں تحریری خط و کتابت تقریباً 99% کی حد تک ختم ہو چکی ہے۔ لیکن نقوی صاحب ہنوز اس سلسلہء خط و کتابت سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں ”ازراہ مجبوری“ ان کے خط کا جواب بھی بذریعہ خط دیتا ہوں …… سوچا آج قارئین کو بھی اپنی اس لَت سے کچھ آگہی فراہم کروں۔ وہ چوآسیدن شاہ کے کیڈٹ کالج میں اردو زبان کے لیکچرار ہیں۔ ملٹری ہسٹری،اردو اور فارسی سے ان کا شغف بہت پرانا ہے۔ لیکن اتنا پرانا نہیں کہ جتنا راقم الحروف کا ہے۔ اس لئے اگر یہ تحریر ان کی نظر سے گزرے تو وہ بھی اس سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ اردو زبان میں جیومیٹری کی اصطلاحات وغیرہ کی اجنبیت تقریباً بہت سے قارئین کے لئے بھی چشم خراشی کا باعث ہوں گی اس لئے ان سے پیشگی معذرت!
…………………………
Lahore Cantt
18 Nov 23
عزیز مکرم ذکی نقوی صاحب
سلام مسنون!
آپ کا 18اکتوبر کا لکھا خط موصول ہوا اس لئے 18کے ہندسے کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے 18نومبر ہی کو اس کا جواب لکھ رہا ہوں۔
ایک سے لے کر 10تک کی گنتی میں 8کا ہندسہ بڑا خوبصورت، معنی خیز اور قابلِ توجہ ہے۔ اس کے دو دائرے جو اوپر نیچے ایک دوسرے سے پیوست ہیں، یہ انسانی فطرت یا حضرتِ انسان کی پے بہ پے آرزوؤں کی طرف نشان دہی کرتے ہیں …… یہ ایک الگ داستان بھی ہے۔ جیومیٹری کو علمِ ہندسہ بھی کہا جاتا ہے لیکن علمِ ہندسہ درحقیقت ایک علیحدہ صنفِ علم ہے جس کا جیومیٹری سے دور کا تعلق ہے۔جیو (Geo) کا لغوی معنی زمین ہے اور میٹر کا معنی پیمائش ہے یعنی یہ علم ”زمین کی پیمائش“ کا علم ہے اس کا باوا آدم فیثا غورث (Pythagoras)، ایک یونانی فلاسفر تھا جو سقراط، افلاطون اور ارسطو کے وقتوں کا ایک معروف ریاضی دان ہے۔
کہتے ہیں ایک روز وہ زمین پر بیٹھا دو دائرے بنا کر ان پر غور و فکر کررہا تھا…… ایک دائرہ اوپر تھا اور دوسرا اس کے نیچے تھا۔ ایک دیہاتی کا گزر وہاں سے ہوا تو اس نے ایک نظر فیثا غورث کے انہماک زدہ چہرے پر ڈالی اور دوسری نگاہ ریتلی زمین پر دو دائروں پر…… اور بڑبڑاتا ہوا اپنے کھیتوں کی طرف چل دیا۔ سہ پہر کے قریب واپس ہوا تو وہ حکیم اسی جگہ بیٹھا تھا اور دائروں کو دیکھ دیکھ کر ایک طرح کے عالمِ استعجاب میں مستغرق تھا۔ دیہاتی کو شک گزرا کہ یہ شخص ضرور پاگل ہے۔اس نے حکیم سے پوچھا: ”آپ صبح سے ان دائروں کے ”پیچھے“ کیوں پڑے ہوئے ہیں؟“
فیثا غورث نے جواب دیا: ”میاں آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ یہ آپ سے بہت ”اوپر“ کا مسئلہ ہے“۔
دیہاتی نے سن کر کہا: ”بڑے میاں! آپ دیوانے ہیں کیا؟…… یہ اوپر کا دائرہ ایک بڑا سا پیاز ہے اور نیچے کا دائرہ ایک نان ہے۔ اور بس…… میں تو ہر روز یہ ”نان پیاز“ ایک پوٹلی میں باندھ کر گھر سے نکلتا ہوں اور ہل چلانے کے بعد ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر ان سے اپنا پیٹ بھر لیتا ہوں …… آپ کس چکر میں پڑے ہوئے ہیں، ریت کا یہ ”نان پیاز“ آپ کی بھوک نہیں مٹا سکے گا…… خدا حافظ“
اس دیہاتی کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ کس سے مخاطب ہے۔ ہمارے میٹرک کے جیومیٹری کے نصاب میں ”مسئلہ فیثا غورث“ ایک الگ باب تھا جو خواجہ دل محمد دل کی جیومیٹری میں ہمیں پڑھایا جاتا تھا۔ فیثا غورث نے ہی دائرے کا محیط اور ان کا رقبہ نکالنے کا فارمولا ایجاد کیا تھا۔ لفظ ”پائی“ (آ) اسی کا ایجاد کردہ ہے۔تکونوں کی اقسام بھی فیثا غورث کی ایجاد بتائی جاتی ہیں۔ مثلث قائمۃ الزاویہ، مثلث متساوی الساقین، ذوذنقہ وغیرہ اسی فلاسفر کی ایجاد تھیں جن کے خطوط کے نام آج بھی وہی ہیں جو 800 ق م میں تھے یعنی قاعدہ،عمود اور وِتر وغیرہ۔
مثلث قائمہ الزاویہ کا رقبہ نکالنے کا فارمولا بھی اسی سے منسوب ہے یعنی قاعدہ کا مربع +عمود کا مربع = وتر کا مربع…… مثال کے طور پر اگر کسی قائم الزاویہ مثلث کا قاعدہ 3انچ ہے اور اس کا عمود 4انچ ہے تو اس کا وتر نکالنے کے لئے پہلے 3کا مربع نکالیں گے یعنی 9=3x3اور پھر 4کا مربع نکالیں گے یعنی 16=4x4۔ پھر ان دونوں کو جمع کریں گے یعنی 25=16+9۔ اگر 25کا جذر نکالیں گے تو اس کا جواب 5آئے گا اور اس مثلث کا وتر 5انچ ہوگا۔
مثلث قائمتہ الزاویہ اُس مثلث کو کہا جاتا ہے جس کا وہ ضلع جو قاعدے اور عمود کوملاتا ہے 90oدرجے کا ہو۔ اس مثلث کے باقی دو ضلعوں کا درمیانی زاویہ 90oسے کم ہوگا…… زاویے کی تین اقسام ہیں یعنی قائمہ، حادہ اور منفرجہ…… زاویہ قائمہ 90oدرجے کا ہوتا ہے۔ اگر اس سے کم ہو تو اس کو حادہ کہا جاتا ہے اور اگر زیادہ ہو تو اس کو منفرجہ کہا جائے گا۔ خطِ مستقیم پر جو زاویے بنائے جائیں گے ان کا مجموعہ ہمیشہ 180oدرجے ہوگا۔
قیامِ پاکستان پر سکولوں اور کالجوں میں جو ریاضی کی نصابی کتابیں (حساب، الجبراء، جیومیٹری) پڑھائی جاتی تھیں، وہ انگریزی زبان میں تھیں۔ 1947ء میں پاکستان کے محکمہ ء تعلیم کے کرتا دھرتاؤں نے سوچا کہ ان کتب کو ”اردو“ زبان میں منتقل کر دیا جائے۔ چنانچہ اس کام کے لئے ایک ایسے پاکستانی کو منتخب کیا گیا جن کی شہرت ایک ریاضی دان کے علاوہ اردو کے ایک مسلم الثبوت شاعر کی بھی تھی۔ 1947ء کے بعد 1960ء تک بلکہ شاید اس کے بعد بھی ہمیں اردو کی جو نصابی کتاب میٹرک میں پڑھائی جاتی تھی اس کا نام ”سرمایہء اردو“ تھا جو حافظ محمود شیرانی کی ترتیب کردہ تھی۔ اس کتاب میں جو نظمیں شامل تھیں ان میں دو نظموں کے شاعر خواجہ دل محمد ایم اے تھے جن کے عنوانات یہ تھے: ”خطاب بہ یونیورسٹی (پنجاب یونیورسٹی کی جوبلی کے موقع پر)“ …… اور دوسری ”علمائے یورپ کے عزائم“ تھی۔
تاریخِ عالم میں ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جو ریاضی اور فلسفہ کے عالم فاضل بھی ہوں اور بے بدل شاعر بھی۔ خواجہ دل محمد انہی میں سے ایک تھے۔ لاہور کی دل محمد روڈ، انہی کے نامِ نامی سے معنون ہے۔
حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
1950ء میں ہمارے سکول میں (جو اردو میڈیم تھا) دل کا حساب، دل کا الجبرا اور دل کی جیومیٹری بطور نصاب رائج تھی۔ جب ہم نویں کلاس میں پہنچے تو ہمیں دل محمد کی یہی کتابیں پڑھنے کو ملیں۔اس زمانے کے اساتذہ کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ قاضی محمد اسماعیل مرحوم ہمارے ریاضی کے استاد تھے۔ انہوں نے یہ تینوں کتابیں انگریزی میں پڑھی تھیں لیکن جب ان کو پڑھانے کا وقت آیا تو انگریزی کی بجائے اردو میں پڑھانے کامشکل مرحلہ درپیش تھا لیکن انہوں نے اتنی محنت اور جانفشانی سے یہ کتابیں ہمیں تدریس کیں کہ میٹرک کی ہماری تمام کلاس (ایک لڑکے کے سوا) فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئی۔اس دور میں میٹرک کا امتحان باقاعدہ پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی۔میرا میٹرک کا سرٹیفکیٹ پنجاب یونیورسٹی ہی کا ایشو کردہ ہے۔ ہمارے زمانے میں میٹرک کے کل نمبر850 ہوتے تھے اور فرسٹ ڈویژن 510 سے شروع ہوتی تھی۔ ہماری کلاس میں صرف ایک لڑکے کے 509 نمبر تھے جس کو سیکنڈ ڈویژن کا سرٹیفکیٹ (یا سند) دی گئی تھی۔ ان کو (اور ان کے ساتھ ہم سب کو کہ جو ان کے کلاس فیلوز تھے) یہ قلق رہا کہ صرف ایک نمبرسے ان کی فرسٹ ڈویژن مِس (Miss) ہو گئی۔ نذیر احمد صاحب،بعد میں محکمہ ء تعلیم میں چلے گئے تھے اور ایک اعلیٰ عہد ے تک پہنچے۔ حال ہی میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
میرے سارے بچے اور بچیاں اور ان کے بچے انگلش میڈیم سکولوں اور کالجوں کے طلباء و طالبات ہیں۔ ان کا ریاضی (Mathematics) کا نصاب انگریزی میں تھا۔ لیکن جب وہ مجھے جیومیٹری کے مسئلوں (Prepositions)کو ”فرفر“ اردو میں دہراتا ہوئے سنتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں۔ میں ان کے انگلش نصاب کو بھی ساتھ ہی آسانی سے دہرا دیتا ہوں لیکن وہ اردو زبان کی اصطلاحات سے قطعی طور پر نابلد ہیں۔نئی اور پرانی نسل کا یہ فرق شاید مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔