آنیوالے دنوں میں کیا حال ہونیوالا ہے ؟

آنیوالے دنوں میں کیا حال ہونیوالا ہے ؟
آنیوالے دنوں میں کیا حال ہونیوالا ہے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر : طیبہ بخاری 
وطن عزیز سیلاب میں گھراہے۔۔۔۔
مختلف نوعیت ، مختلف شکلوں کا سیلاب۔۔۔
ہر طرف پانی ہی پانی ۔۔۔۔
دیکھنے والی آنکھوں میں۔۔۔۔
 سیلابی ریلے میں بہہ جانے والی بستیوں میں ۔۔۔۔
سینکڑوں ڈوب گئے ۔۔۔۔
3 کروڑ سے زائد افراد سیلاب میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ، باقی آبادی مہنگائی ، بے روزگاری اور سیاسی بے چینی کا شکا ر ہے۔۔۔۔
بچانے کی کوششیں بھی جاری ہیں ۔۔۔۔اندر سے اور باہر سے بھی ۔۔۔۔ اور اب امداد بھی لوٹی جارہی ہے 
کیسی بے بسی کی موت ۔۔۔۔اور کیسی لاچار زندگی 
 کہا جا رہا ہے کہ پاک وطن کو ” ڈیزاسٹر پیکج “کی ضرورت ہے ۔۔۔۔
لاکھوں ڈالرز مل رہے ہیں مزید بھی مل جائیں گے ۔۔۔ملتے رہیں گے ۔۔۔۔
لیکن سیلاب متاثرین کو جو لوٹ رہے ہیں ان کیلئے شرم ، غیرت کہاں سے لائیں ۔۔۔ کون بھیجے گا ۔۔۔؟ 
 ٹینٹ مہنگے ۔۔۔ روٹی 50روپے کی ۔۔۔کپڑوں کی قلت ، دواﺅں کی قلت ،پینے کو پانی نہیں ۔۔۔۔ امدادی سامان لے جانیوالے ٹرک بھی لوٹے جا رہے ہیں ۔۔۔۔ کون روکے گا انہیں ۔۔۔؟ 
بحران تو ابھی آئیں گے ۔۔۔ایک سے بڑھ کر ایک بحران ۔۔۔۔آٹے کا بحران جاری ہے قیمتیں ڈبل ہو چکیں ، دوائیں شہروں میں نایاب ہو چکیں ، پانی میں ڈوبے علاقوں کا حال کیا ہو گا ؟ مت پوچھیں 
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اگر دوا مل بھی جائے تو دوا کھانے کےلئے صاف پانی نہیں۔۔۔ پانی میں انسانوں اور مویشیوں کی لاشوں کے باعث متعدد علاقوں میں شدید تعفن پھیلا ہوا ہے۔ 
بدترین تباہ کاریوں اور لاکھوں افراد کے بے گھر ہوجانے کے باوجود صنفی بنیاد پر تشدد اور بچوں کے عدم تحفظ کے خدشات دگنا ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل انسانی تحفظ کی سرگرمیوں کیلئے معاون ادارے پروٹیکشن سیکٹر کے مطابق سیلاب نے عدم تحفظ کے خدشات کو بڑھا دیا ہے جن میں خاندانوں کا بچھڑ جانا، صنفی بنیاد پر تشدد، چوریاں اور جسمانی حملے شامل ہیں، خاص طور پر خواتین اور لڑکیاں تشدد کا نشانہ بننے کے سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں۔انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے حالیہ جائزوں کے مطابق خواتین کی صحت ، خوراک سمیت کئی مناسب بنیادی سہولیات تک رسائی نہیں انہیں تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرات کا بھی سامنا ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں حاملہ عورتوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات الگ سے ہیں جبکہ دوسری جانب بنیادی انفرا سٹرکچر کانقصان انسانی ضروریات کو بڑھانے اور بے گھر افراد کی تعداد میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ یونیسیف کے مطابق سیلاب میں گھرے لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں تقریباً 34لاکھ سیلاب زدہ بچے فوری امداد کے منتظر ہیں بچوں کو بھوک کے ساتھ بیماریوں نے گھیر لیا ہے، ملیریا اور ڈینگی کے ساتھ پیٹ کے امراض ان پر حملہ آور ہیں۔ یہ بچے اور بچیاں اس موسمیاتی تباہی کی قیمت چکا رہے ہیں جس میں وہ حصے دار ہی نہیں، سیلاب سے متاثرہ بچوں کی مائیں غذائی قلت کا شکار ہوکر دودھ پلانے سے بھی قاصر ہیں۔ 
 آنے والے بحرانوں کا ذکر کریں تو ۔۔۔ زراعت اور لائیو سٹاک کا نقصان 1300 ارب روپے سے زائد ہونے کا خدشہ ہے۔وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے سیلاب اور بارشوں سے زرعی شعبے کو ہوئے نقصان کی جو ابتدائی رپورٹ تیارکی ہے اس کے مطابق زرعی شعبے کو 536 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا کپاس، مکئی، چاول، گنے، دال، ٹماٹر، پیاز سمیت دیگر فصلیں تباہ ہو گئیں۔صرف سندھ میں 355 ارب روپے کی فصلوں کو نقصان پہنچا زرعی زمینوں پر کئی فٹ پانی کھڑا ہے، 2 ماہ میں کیسے فصل لگاسکیں گے؟ سندھ میں 50 سال میں کبھی ایسے نظارے نہیں دیکھے گئے جیسے اب دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔۔۔ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں ، ہزاروں ایکڑ پر محیط گندم اور فصلیں تباہ ہوگئیں تو دوسری جانب تباہی کے اثرات سبزی منڈیوں تک پہنچ گئے ہیں، گراں فروشوں کے مخصوص گینگ منڈیوں اور اتوار بازاروں میں عوام الناس کو لوٹنے میں مصروف ہیں ۔۔۔۔جیسے ”سیزن “ لگا ہوا ہے ،بلوچستان میں1 ماہ میں آٹے کی 100 کلو کی بوری کی قیمت میں 3بار اضافہ کیا گیا۔
 ماہرین نے پاکستان میں غذائی بحران کا خدشہ ظاہر کیا ہے ۔بلوچستان اور سندھ میں کپاس اور چاول سمیت کئی سبزیوں اور پھلوں کی فصل تباہ ہو چکی ہے۔ آنےوالے مہینوں میں گندم کی بوائی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
 اس بارمون سون بارشوں کا 30سالہ ریکارڈ اپنے ساتھ انسانی بحران لایا، معصوم بچوں سمیت سینکڑوں افراد جانیں گنوا بیٹھے،لاکھوں بے گھر ہو گئے ابھی تک لوگ پانی میں پھنسے ہیں ، ریسکیو اور ریلیف کے منتظر ہیں۔فلاحی تنظیموں کو بھی فنڈز کی قلت کے باعث کام کرنے میں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔این ڈی ایم اے کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سیلاب سے 116 ا ضلا ع متاثر ہوئے، 129 پلوں، 2 ہزار 886 شاہراہیں سیلابی پانی کی نذر ہوگئیں۔
جے ایس بروکریج کی ریسرچ کے مطابق ملک بھر میں 3 گنا زیادہ سے آنے والے سیلاب نے زندگی، فصلوں اور بنیادی ڈھانچے کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ نقصانات کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا لیکن نقصانات سال 11-2010کے سیلاب سے زیادہ ہیں۔سیلاب کے باعث رواں سیزن میں برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہونگی، 1ارب 70کروڑ ڈالر تک کی گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ گزشتہ سال اڑھائی ارب ڈالرز کے چاول برآمد کیے تھے جو اس سال نہیں ہوپائیں گے۔ کپاس کی درآمد کرنا پڑسکتی ہے۔ مویشیوں کی اموات کے باعث گوشت کی قیمت اور فصلوں اور باغات تباہ ہونے سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کے باعث ملک میں مہنگائی نئے ریکارڈ پر پہنچ جائیگی جبکہ عوامی منصوبوں پر خرچ بڑھ جانے کے باعث حکومت مالیاتی خسارے کا ہدف حاصل نہیں کرپائے گی۔۔۔۔
 صاف نظر آ رہا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریاں محدود نہیں ، بھوک ہمارے تعاقب میں تھی اور اب عذاب کی صورت میں مزید قریب آ چکی ہے جبکہ دوسری جانب منتخب ارکان کے نخرے ہیں کہ کم ہونے میں ہی نہیں آ رہے ۔۔۔ ارکان پارلیمنٹ مصیبت کی اس گھڑی میں بھی پارلیمنٹ لاجز سجانے کیلئے بضد ہیں اور سی ڈی اے نے پارلیمنٹ لاجز کی تزئین وآرائش کیلئے 32 کروڑروپے مانگ لئے ہیں۔یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں سبھی جانتے ہیں کہ سیلاب کے باعث کروڑوں عوام کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں ، کھانے کو دو وقت کی روٹی, پینے کو صاف پانی نہیں اور دوسری جانب پارلیمینٹ ارکان کو لاجز کی تزئین و آرائش کی پڑی ہے۔ہے کوئی جو شرم سے پانی پانی ہو ۔۔۔۔۔؟
دنیا بھر میں بھوکے 116ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 92واں نمبر ہے بھارت 101ویں نمبر پر موجود ہے لیکن خطے کے دیگر ممالک پاکستان کے مقابلے بہتر درجہ بندی پر موجود ہیں، سری لنکا اس فہرست میں 65ویں جبکہ نیپال اور بنگلہ دیش 76ویں نمبر پر موجود ہیں۔اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے اعداد و شمار تشویشناک ہیں،آج دنیا میں تقریباً 81 کروڑ 10 لاکھ لوگ بھوک کا شکار ہیں اور 4 کروڑ 10 لاکھ لوگ قحط کے دہانے پر ہیں جبکہ 47 ممالک 2030 تک بھوک کی کم سطح تک نہیں پہنچ پائیں گے، ان میں سے 28 ممالک کا تعلق افریقہ سے ہے۔۔۔۔ 
آنیوالے دنوں میں ہمارا کیا حال ہونیوالا ہے اس کا اندازہ خود ہی لگا لیں۔۔۔۔ اعدادوشمار اور بھیانک صورتحال آپ کے سامنے ہے ۔ سندھ اور بلوچستان کے عوام میں حکومتوں کی کارکردگی پر شدید غم وغصہ پایا جا رہاہے، تباہ حال عوام اب بے حسوں کو اپنے نمائندوں کی حیثیت سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں، جمہوری نظام میں کئی مسائل کھل کر سامنے آ چکے ہیں، آئندہ ڈرا دھمکا کر ووٹ لینا بھی ممکن نہ رہے گا ۔
روک سکو تو آنے والے بحرانوں کو روک لو ۔۔۔۔۔

نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی  آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

بلاگ -