معروف کرکٹر کے چھوٹے بھائی نے ایک بار عدالت لگا کر کتے کو پھانسی کی سزا سنائی کہ وہ رات کو بے وقت بھونکتا ہے، کیسی کیسی حماقتیں تھیں ہماری

معروف کرکٹر کے چھوٹے بھائی نے ایک بار عدالت لگا کر کتے کو پھانسی کی سزا سنائی ...
معروف کرکٹر کے چھوٹے بھائی نے ایک بار عدالت لگا کر کتے کو پھانسی کی سزا سنائی کہ وہ رات کو بے وقت بھونکتا ہے، کیسی کیسی حماقتیں تھیں ہماری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:146
آج شام ہم اسلام آباد کلب جائیں گے۔ شعیب انکل جن سے تم ابھی ملے ہو لاہور کے نامی بدمعاش ہیں۔ 3 قتل کر چکے ہیں۔ یہ بھی ہمارے ساتھ جائے گا۔“ اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور بولا؛”شہزاد بھائی! اب میں راسم(یہی اس کا اچھا دوست اب رقیب تھا۔ رقابت بھی کیا شے ہے۔)کو مزا چکھاؤں گا اس کی بد معاشی کا۔“ خیر شام ہوئی تیار ہو کر ہم اسلام آباد کلب پہنچے۔ شعیب اپنی بھاری بھرکم وجود پر کھلے شلوار قمیض اور پیر میں پشاوری چپل پہنے تھا۔ راسم اور اس کے ساتھی درخت کے ساتھ ٹیک لگا ئے کاشف کے انتظار میں تھے۔کاشف کار سے اترا پرانے دوست اور تازہ رقیب راسم کے پاس گیا۔ شعیب اتنے میں کار سے اتر کر کار کے بمپر پر پیر رکھ کر کھڑا ہو گیا اور ان ممی ڈیڈی بچوں کو گھوری کرانے لگا۔ ان ممی ڈیڈی بچوں کے لئے اس کی گھوری ہی بہت تھی۔کاشف نے راسم سے کہا؛”شہزاد بھائی!(راسم مجھے پہلے سے جانتا تھا۔) لاہور سے اپنے دوستوں کے ساتھ آئے ہیں اور شعیب انکل تو لاہور کے بڑے نامی بد معاش ہیں۔ اب کیا ارادہ ہے۔“ اس کا تو رنگ تو شعیب کی گھوری سے پہلے ہی فق تھا رہی سہی کسر کاشف کی گفتگو نے پوری کردی۔وہ شعیب کے پاس آئے اور بولے؛”شعیب انکل! ہماری غلط فہمی دور ہو گئی ہے۔“ شعیب نے ایک اور گھوری کرائی اور راسم کے کندھے پر ذرا زور سے ہاتھ رکھتے کہا؛”کوئی غلط فہمی نہیں رہنی چاہیے۔ اسلام آ باد لاہور سے دور نہیں۔“ ان کی صلح ہو گئی۔ سب گلے ملے۔ شعیب نے اسلام آباد کے اس سرکل میں کاشف کی دھاک بٹھا دی تھی۔ کیسی کیسی حماقتیں تھیں ہماری۔ 
فیصل کی ڈگری؛ 
فیصل میرا اور شعیب کا مشترکہ دوست تھا۔ دراصل وہ شعیب کا کلاس فیلو اور بچپن کا یار تھا۔بی اے میں وہ کچھ زیادہ ہی دل لگا بیٹھا تھا۔ مشکل سے پاس کیا تو ڈگری کا رولا پڑ گیا۔ متعلقہ شعبہ کا انچارج سپرنٹندنٹ چکر پہ چکر ہی لگوا رہا تھا۔ آخر ایک سکیم سوجھی۔ والد کی مرسیڈیز نکالی۔ احد نواز کو ڈرائیور بنایا۔(احد ماشاء اللہ سوا چھ فٹ کا لمبا اونچا جوان تھا اور کر کٹ کا شاندار کھلاڑی۔ سرفراز نواز کا چھوٹا بھائی۔کچھ سال پہلے مے نوشی کی زیادتی سے ولایت میں وفات پا گیا اور وہیں کی ٹھنڈی مٹی میں ابدی نیند سویا ہے۔ اللہ اس کے درجات بلند کرے۔ آمین۔ کمال دل بہار شخص تھا۔ایک بار اس نے عدالت لگا کر ایک کتے کو پھانسی کی سزا سنائی تھی کہ وہ رات کو بے وقت بھونکتا رہتا تھا۔) شعیب کو والد کی ڈبل بیرل دے کر گن مین اور خود میں نے ”لمبا چونٹوں والا کھلا سا کرتا“ پہنا اور اس سپرنٹندنٹ کے گھر جانے کا پروگرام بنایا جو نیو کیمپس کے سرکاری کواٹر میں رہتا تھا جبکہ دفتر اس کا پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس تھا۔ پلان یہ تھا کہ سر شام اُس کے گھر جائیں گے۔ شعیب بندوق ہاتھ میں تھامے اسے گھر سے بلائے گا اور کہے گاکہ نواب صاحب ملنا چاہتے ہیں۔ احد ڈرائیونگ سیٹ سے نکل کر موٹر کے باہر کھڑا ہو گا۔باقی کام میرا تھا۔  
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -