سر ہند شریف، اللہ والوں کی سرزمین
سرہند کو فقیروں اور درویشوں کی دنیا میں ہمیشہ قدر و منزلت کا مقام حاصل رہا ہے۔ یہ اللہ کے وہ برگزیدہ بندے تھے، جنہوں نے سینکڑوں سال تک اس سرزمین میں نیکی اور پاکیزگی کے بیج بوئے اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کا مقدس فرض ادا کیا۔ سرہند کو طویل عرصہ تک ہندوستان میں بہت اہم مقام حاصل رہا ہے اور یہ شہر صدیوں تک علاقے میں ہزاروں لوگوں کی تقدیر سنوارنے اور بدلنے کا مرکز اور محور بنا رہا ہے۔ خاص طور پر ہندوستان میں مغلیہ حکمرانوں کے دور میں سرہند کو سیاسی اور دینی اعتبار سے قیادت و سیادت کا مرکز بنے رہنے کا شرف حاصل رہا۔ سرہند نشیب و فراز کے بے شمار ادوار سے گزرا کئی بار خانہ جنگی ہوئی کئی بار یہ میدان جنگ بنا اور ہر بار پنجاب کی ریاست پٹیالہ کا یہ تاریخی شہر تاریخ کا رخ بدلنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ یہ عجیب بات ہے کہ سرہند مسلمانوں کی تگ و تاز کا ہی محور نہیں رہا، بلکہ سکھوں کے کئی اہم معرکے بھی اسی سرزمین پر سر کئے گئے یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒ کی ابدی آرام گاہ جسے علاقے کے مسلمان روضہ شریف کے نام سے یاد کرتے ہیں سے، آدھے میل کے فاصلے پر سکھوں کا متبرک مقام گوردوارہ فتح گڑھ صاحب بھی واقع ہے۔ روضہ شریف مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کوبحال اور برقرار رکھنے کی اس عہد آفرین جدوجہد کی گواہی دیتا ہے۔ جو حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ نے مغلیہ حکمرانوں اکبر اور جہانگیر کے دور میں نہایت استقامت اور اولوالعزمی کے ساتھ انجام دی۔ اسی طرح سکھوں کا یہ متبرک مقام ہندوؤں کے اقتدار اعلیٰ کے خلاف سکھوں کے کئی معرکوں کا مظہر ہے۔
سرہند شریف مسلمانوں کے قلب و نگاہ کو نئی روح عطا کرتا ہے اس لئے کہ اس کے چپے چپے میں مسلمانوں کے ان اسلاف کے مدفن ہیں، جنہوں نے ظلمت و تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اسلام کی نورانی شمع کو فروزاں رکھا اور اس اعلیٰ وارفع نصب العین کی خاطر کسی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ سرہند میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ کا مدفن دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے اسی طرح کشش کا باعث ہے، جس طرح آگرہ میں تاج محل ایک مسلمان بادشاہ اور اس کی ملکہ کی دائمی اور ابدی محبت کا نشان بن کر عقیدت مندوں کے لئے مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔ روضہ شریف کو اس بنا پر زیادہ فوقیت حاصل ہے کہ تاج محل تو محض دو دلوں کی محبت کا ایک لازوال نشان ہے۔ جبکہ حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ نے لاکھوں دلوں کو مسخر کیا، انہیں ایمان و ایقان کی روشنی عطا کی اور اپنے کردار اور عمل سے ایسی ضوفشانی کی کہ گم کردہ راہ مسلمان اپنے حقیقی راستے پر واپس آنے لگے اور ان کے ذہنوں میں جو الجھاؤ پیدا ہو گئے تھے، حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی شب و روز کاوشوں سے وہ اس طرح سلجھ گئے کہ اسلام کے افق پر رنج و غم، مایوسی اور افسردگی کے جو بادل منڈلانے لگے تھے، وہ چھٹ گئے اور مطلع پوری طرح صاف ہو گیا۔ شیخ احمد فاروقی سرہندیؒ کا یہ کارنامہ کہ انہوں نے نہایت پُر امن طریقے سے اسلام کے احیاء کی جنگ اس قدر کامیابی سے لڑی کہ انہوں نے برصغیر ہندو پاک کے تمام مذاہب کے پیروکاروں پر یہ حقیقت و اشگاف کر دی کہ اسلام امن وعافیت کا دین ہے اور اس کا پیغام اخوت و محبت کا پیام ہے اور یہ پیام و پیغام صرف انہی کے لئے نہیں ہے جو حلقہ بگوش اسلام ہیں یہ پیغام تو تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لئے ہے کہ وہ اللہ کی طرف لوٹ آئیں اور اس کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ ؐ کے دین اسلام میں جوق در جوق داخل ہو جائیں کہ یہی دین انسانوں کو راستی کی طرف لے جاتا ہے اور اسی میں دنیا اور آخرت کی فلاح مضمر ہے۔
حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندیؒ عالمگیر پیغام محبت کو لے کر اٹھے اور سرہند کو تصوف کی دنیا میں ایک غیر فانی مقام عطا کر گئے۔ انہوں نے سرہند کے مرکز ملت سے سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو آواز دی اورا نہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کا اہتمام کیا، دین اسلام کی حقانیت پر ان کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ یہ فقیر خدا منش نہ وقت کے حکمرانوں کے سامنے جھکا نہ اس نے منبر و محراب سے اٹھنے والی علمائے سوء کی مخالفت کی کوئی پروا کی انہوں نے تصوف کی دنیا کے سیاہ کاروں کے تاروپود بھی بکھیرے اور جو لوگ دین کے پردے میں لادینیت کی جڑیں مضبوط کر رہے تھے، ان کو بھی بے نقاب کیا اور وہ برسوں کی صبر آزماء جدوجہد سے لوگوں پر یہ حقیقت واضح کر سکے کہ اسلام کا اصل چہرہ کیا ہے اور علمائے نے اس چہرے پر کیسے کیسے نقاب ڈال رکھے ہیں، سرہند ہمیشہ سے اللہ کے نیک بندوں کی مساعی جمیلہ کا مرکز رہا ہے، یہاں بدھ مذہب کے بھی اثرات رہے اور سکھوں کی مختلف تحریکیں بھی اپنے اثرات دکھاتی رہیں۔ یہ تاریخی شہر سکھوں کے ایک اہم شہر پٹیالہ سے 35کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پٹیالہ، انبالہ، چنڈی گڑھ اور لدھیانہ سے اس کا ایک جیسا فاصلہ ہے، سرہند کے بارے میں البیرونی کی روایت یہ ہے کہ یہاں ابتداء میں ثریاد انشی حکمرانوں نے اپنا اقتدار قائم کیا اور بعد میں یہ پال بادشاہت کا ایک اہم سرحدی شہر بن گیا ، ایک اور روایت کے مطابق سرہند کابل کی برہمن بادشاہت کا مشرقی سرحدی شہر بھی رہا۔ گیارھویں صدی عیسوی میں جب محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملہ کیا تو سرہند پر ہندوبادشاہوں کی حکمرانی ختم ہونے کی راہ ہموار ہوئی اور ہندو حکمرانوں کا سرہند پر راج اس وقت انجام کو پہنچا۔ جب1193ء میں محمد غوری نے پرتھوی راج چوہان کو شکست دی بعد ازاں خاندانِ غلاماں کے سلطان آرام شاہ نے سرہند پر اپنے اقتدار کا پرچم لہرایا۔ نصیر الدین قباچہ نے 1210ء میں سرہند کو فتح کیا، لیکن کچھ عرصہ بعد سلطان التمش نے یہ علاقہ دوبارہ فتح کر لیا۔ بلبن کے بھانجے شیر خاں نے سرہند میں ایک پر شکوہ قلعہ تعمیر کیا، بعد ازاں لودھی خاندان نے سرہند پر حکمرانی کی اور جب 1526ء میں پانی پت کی پہلی لڑائی لڑی گئی اور بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست سے دوچار کیا تو سرہند مغل بادشاہوں کی حکمرانی میں آگیا۔
نقشبندی سلسلہ کے صوفیاء نے ہندوستان میں تجدید و احیائے دین کی جدوجہد میں نہایت اہم کردار ادا کیا، اس جدوجہد کی ابتداء نقشبندی سلسلے کے بانی حضرت خواجہ باقی باللہؒ نے کی۔ خواجہ باقی باللہ ؒ نے حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند بخاری ؒ سے اکتساب فیض کیا تھا، جنہوں نے حقیقت میں نقشبندی سلسلے کی پہلی اینٹ رکھی تھی۔ حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند بخاری ؒ اور حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ نے سلسلہ نقشبندیہ متعارف ضرور کرایا تھا، لیکن اس سلسلہ کو نئی روح اور تازگی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندیؒ نے بخشی، جو حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے لقب سے موسوم ہوئے۔ حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کی ولادت باسعادت 5جون 1564ء کو ہوئی۔ روایات میں آیا ہے کہ ان کی ولادت کی نوید برسوں پہلے ہی دے دی گئی تھی اور حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کی ہندوستان آمد اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کی ولادت کی خوشخبری پانچ سو سال پہلے دے دی تھی اور اپنے بیٹے شیخ عبدالرزاق کو وہ خرقہ بھی عطا فرما دیا تھا، جو نسل درنسل منتقل ہو کر حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کو عطا کیا جانا تھا۔ یہ کام آخر کار1604ء میں سید سکندر قادریؒ کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سید سکندر قادری کا تعلق عظیم مسلمان صوفی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے خاندان سے تھا۔
حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ کی ولادت کے بارے میں بہت سی روایات ہیں، جن میں سے ایک روایت یہ ہے کہ جب وہ دنیا میں تشریف لائے تو تمام وہ صوفیاء جو اس وقت تک گزر چکے تھے۔ حضرت شیخ احمدؒ کی والدہ محترمہ کو مبارک باد دینے کے لئے تشریف لائے اور حضرت شیخ احمد ؒ کے والد حضرت شیخ عبدالاحد کو خواب میں حضرت بنی کریمؐ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔اور حضرت شیخ عبدالاحدنے خواب میں دیکھا کہ حضرت نبی کریمؐ کئی دوسرے انبیاء کرام کے جلو میں نوزائیدہ بچے کے کانوں میں اذان دے رہے ہیں، ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت شیخ احمد کی ولادت ہوئی تو اس کے ساتھ ہی آلات موسیقی بجنا از خود بند ہو گئے اور اسے اس بات کا اشارہ سمجھا گیا کہ موسیقی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پسندیدہ نہیں ہے۔ اس بنا پر کئی موسیقاروں نے اس شغل سے توبہ کر لی دلچسپ امر یہ ہے کہ حضرت شیخ احمد کے والد شیخ عبدالاحد اگرچہ تصوف میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے، لیکن انہیں نقشبندی سلسلے سے کوئی سروکار نہ تھا، جب 1598-99ء میں ان کے والد نے داعی اجل کو لبیک کہا تو حضرت نے فریضہ حج ادا کرنے کے لئے مکہ مکرمہ جانے کا قصد کیا اور راستے میں دہلی قیام کیا، یہیں آپ کی ملاقات حضرت خواجہ باقی باللہؒ سے ہوئی۔ آپ نے حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کے پاس قیام کا فیصلہ کیا اور حج پر جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور یہیں اپنے روحانی پیشوا کے قدموں میں رہ کر دولت ایمانی حاصل کر لی۔ حضرت باقی باللہ ؒ نے دو ماہ تک شیخ احمد ؒ کو تزکیہ کے عمل سے گزارا اور پھر انہیں سرہند چلے جانے کا حکم دیا۔ چار سال تک آپ سرہند میں ایمان و ایقان کی روشنی بکھیرتے رہے اور پھر جب آپ دوبارہ حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ نے ان کی غیر معمولی پذیرائی کی۔ یہ پذیرائی حضرت باقی باللہ ؒ کے دوسرے مریدوں میں بدگمانی کا سبب بھی بنی، جس پر آپ پھر سرہند تشریف لے آئے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ جب سرہند واپسی پر انہیں سلسلہ قادریہ کا خرقہ عطا فرمایا گیا تو کئی دوسرے سلسلوں چشتیہ اور سہروردیہ کے اکابرنے بھی خواب میں حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ان کے سلسلہ ہائے تصوف کے خرقے قبول فرمالیں، لیکن آخر میں حضرت نبی اکرم ؐ نے بشارت دے کر یہ مسئلہ سلجھایا اور حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ سلسلہ نقشبندیہ سے وابستگی کے لئے پوری طرح یک سو ہو گئے۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ 1603ء میں پھر دہلی تشریف لے گئے اور اپنے مرشد حضرت خواجہ باقی باللہؒ کی خدمت اقدس میں حاضری کی سعادت حاصل کی۔ بعدازاں حضرت مُجدد الف ثانی ؒ لاہور تشریف لے گئے، جہاں صوفیاء اور علماء نے ان کا دل کی گہرائیوں سے خیر مقدم کیا، لاہو رمیں قیام ہی کے دوران آپ کو اپنے روحانی پیشوا حضرت خواجہ باقی باللہؒ کے سانحہ ارتحال کی خبر ملی ، جس پر آپ نے لاہور کا قیام مختصر کر دیا اور پھر دہلی تشریف لے گئے، جہاں انہیں سلسلہ نقشبندیہ کی سربراہی کا اعزاز عطا کیا گیااور اس حیثیت میں آپ کی دستار بندی ہوئی۔ یہ وہ گھڑی تھی جب شیخ احمد سرہندیؒ کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور دور دور سے لوگ ان سے کسب فیض کے لئے حاضر ہونے لگے۔ انہوں نے لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے فیض یاب کیا۔ اس وقت ہندوستان میں دین اسلام کو بے شمار مسائل اور مشکلات کا سامنا تھا۔ اسلام کی تعلیمات پر ہندو دھرم کے اثرات ہویدا ہونے لگے تھے اور اسلام کے اصل چہرے کو ہندومت کی دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور یہ محسوس کیا جانے لگا کہ اہل اسلام کو اسلام کی اصل تصویر سے آشنا کیا جائے۔اکبر کا دین الٰہی بھی اپنا کام دکھانے لگا تھا حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ نے ان تمام فتنوں کے خلاف مسلمانوں کو شعور اور آگہی عطا کی۔
علماء سوء اور بھٹکے ہوئے صوفیاء نے اپنے اپنے مفادات کے تابع حضرت شیخ احمدؒ کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن حضرت شیخ احمد ؒ نے اپنے مرشد حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کے سونپے ہوئے مشن اور نصب العین کو پورا کرنے کا پختہ عزم کر لیا تھا۔ اکبر اور جہانگیر کے دربار میں دوہزاری اور پنج ہزاری خلعتیں رکھنے والے متعدد درباری ان کے خلاف کھل کر سامنے آنے لگے حضرت مجدد الف ثانی ؒ ایک طرف تبلیغ و تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے اور دوسری طرف شاہی درباروں میں ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ کئی مسلمانوں علماء جہانگیر کے کان بھرنے لگے اور حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کے خلاف زہراگلنے کا کام تیز تر ہو گیا۔ ادھر حضرت کی تبلیغ کے ثمرات سامنے آنے لگے اور کئی اعلیٰ افسر شیخ احمد سرہندی ؒ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ان کے مرید بن گئے۔ سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے متاثر ہو کر جہانگیر نے حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے حامی کئی فوجی جرنیلوں کو دور دراز علاقوں میں تبدیل کر دیا اور آپ کے ایک خاص مرید جرنیل مہابت خان کو انتقام کے طور پر کابل بھیج دیا، لیکن حضرت کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آنے پائی اور انہوں نے لوگوں کو اللہ اور رسول اللہ ؐ کی تعلیمات کی طرف بلانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جہانگیر نے حکم دیا کہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ ان کے دربار میں حاضر ہوں اور دربار کی روایت کے مطابق بادشاہ کو سجدہ تعظیمی بجا لائیں۔
حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ سجدہ صرف خدا تعالیٰ کو رواہے اور وہ اس کے سوا نہ کسی کے سامنے جھکے ہیں اور نہ جھکیں گے ، کوئی فانی شخص سجدہ کا سز اوار نہیں۔بادشاہ حضرت مجدد ا لف ثانی ؒ کے اس اعلان حق پر مشتعل ہو گیا اور اس نے غصے میں بپھر کر یہ حکم دے دیا کہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ کو گوالیار کے قلعہ میں بند کر دیا جائے۔ جہانگیر کے اس اقدام نے حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے پیروکاروں کو سخت مضطرب کر دیا، کابل سے مہابت خان نے جہانگیر کے خلاف علم بغاوت بلند کر نے کا فیصلہ کیا، لیکن حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے مہابت خان کو پیغام بھیجا کہ وہ اس فیصلہ پر عمل سے باز رہے حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے تین سال تک قلعہ گوالیار کے قید خانے میں صعوبتیں جھیلیں اور قفس میں بھی قیدیوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دیتے رہے اور بادشاہ کے مصاحبوں کو گوالیار سے بھی مکاتیب لکھتے رہے اور انہیں اسلام کی حقانیت اور صداقت کا پیغام پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ پھر وہ سعید گھڑی آئی جب جہانگیر کو حضرت مجد دالف ثانیؒ کے پیغام کی سچائی کا احساس ہو اور پھر وہ اپنی حماقتوں پر ہاتھ ملنے لگا اوراس نے حضرت سے اپنی غلطیوں پر شرمندگی اور ندامت کا اظہار کیااور وہ تما م احکامات اور روایات منسوخ کر دی گئیں جو اکبر کے دین الٰہی کا ورثہ تھیں اور جنہوں نے اسلام کے چہرہ کو دھند لادیا تھا، گمراہی کے بادل چھٹ گئے اور اسلام کا آفتاب پھر ہندوستان کے آسمان پر ضوفشاں ہو گیا۔
حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ مجدد الف ثانی ؒ کا وصال63سال کی عمر میں 26نومبر1624ء کو ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے وصال سے تبلیغ، تصوف، معاشرتی اصلاح، تزکیہ و تقویٰ کا وہ سورج غروب ہو گیا، جو حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کے بقول صوفیاء میں مانند ماہتاب تھااور جس نے ہندوستان میں تصوف کے وہ چراغ روشن کئے ، جن سے وہ آج تک منور چلا آرہا ہے۔ بعض بزرگ یہ فرماتے ہیں کہ عرب کے صحراؤں میں پیغمبر حضرت محمد ؐنے ظلمتوں کو اسلام کے نور سے کافور کرنے کا جو فرض سرانجام دیا تھا۔ ہندوستان میں ہزارہ دوم کے دوران اسے نئی زندگی اور نئی روح بخشنے کا شرف حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے حاصل کیااور تجدید و اصلاح دین کے اس کام میں مجدد الف ثانی کا کوئی ثانی نہیں، انہیں نے اپنے مکاتیب اور دینی تصانیف اور ان کے خلفاء اور مریدوں کی تحریری کاوشوں نے متحدہ ہندوستان میں جو اب پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش پر پھیلا ہوا ہے ، لاکھوں لوگوں کے قلوب و اذہان کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا اور انہیں اس پیغام کی طرف بلایا جو کہ بانی اسلام حضرت نبی اکرم ؒ نے گمراہ انسانیت کو صراط مستقیم پر لانے کے لئے لوگوں تک پہنچایا تھا۔