ناخواندگی کے سیاسی اور سماجی اثرات

ناخواندگی کے سیاسی اور سماجی اثرات
ناخواندگی کے سیاسی اور سماجی اثرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنفین :خلیل احمد لاہور، صائمہ خالد لاہور

 تعلیم کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کےسماجی اورسیاسی استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ تعلیمی نظام ملک کے طے کردہ اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیم لوگوں میں ذمہ داری کے احساسات پیدا کرتی ہے ۔یہ ان میں شعور پیدا کرتی ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے حقوق پہچانیں اور مفید شہری بنیں۔ 


 پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جسے سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام بھی اپنے عروج پر ہے۔ اسی وجہ سے تعلیمی نظام بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہورہا ہے۔تعلیمی پالیساں، نصاب  اور تعلیمی ادارے بھی ان اثرات کی زد میں ہیں۔ فنڈز کی عدم دستیابی کم زور تعلیمی شعبے کو مزید کم زور کر رہی ہے۔ 
 پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی 2021-2022کی تعلیمی شماریات رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 2 کروڑ 62 لاکھ بچے  سکول سے باہر ہیں۔ پنجاب میں 1 کروڑ 17 لاکھ، خیبر پختونخوا میں 36 لاکھ، بلوچستان میں 31 لاکھ اور وفاقی دارالحکومت میں 80 ہزار بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ 


 اس تعداد کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کچھ اہم اور دلچسپ حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگریہ تعداد فی صدی میں دیکھی جائے تو  سکول جانے والے بچے کی کل تعداد کا یہ 39 فی صد بنتا ہے۔ صوبوں کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو فی صدی تعداد بلوچستان کی سب سے زیادہ بنتی ہے جو کہ 65 فی صد ہے۔ سب سے کم تعداد خیبر پختونخوا کی ہے جو کہ 30 فی صد ہے۔ 2016-2017میں  سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 44 فی صد تھی جب کہ  2021-2022 میں یہ تعداد کم ہو کر 39 فی صد ہوگئی ہے۔فی صد کے ہیر پھیر سے نکل کر دیکھا جائے تو یہ تعداد 42 لاکھ تک بڑھ چکی ہے جسے رپورٹ میں آبادی بڑھنے سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ 
 سکول کے تدریجی درجوں کو مد نظر رکھا جائے تو پرائمری سطح پر 36 فی صد بچے، مڈل کی سطح پر 30 فی صد بچے ، ہائی سکول کی سطح پر 44 فی صد بچے اور ہائر سکینڈری سکول کی سطح پر 60 فی صد بچے  سکول سے باہر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق  سکول سے باہر رہنے کی وجہ بچوں کے معاشی حالات ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ  سکول سے باہر رہنے والے بچوں کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے پانچ سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے۔ 


 کسی بھی ملک میں ناخواندگی کا غربت، جرائم  اور صحت جیسے مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ یہ ملک کی مجموعی معاشی اور سیاسی ترقی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ ناخواندہ معاشروں کی اکثریت جدید ترقی اور اس کی رفتار سے بے خبر رہتی ہے۔ ایسے معاشروں میں جہالت کی کارفرمائی ہوتی ہے بے سروپا رسومات کی پابندی کی جاتی ہے۔ ایلیٹ طبقہ ان کا سیاسی استحصال کرتا ہے اور معاشرے میں کوئی بھی پائیدار تبدیلی ممکن نہیں ہو پاتی۔ پوری قوم دائروں کے سفر پر گامزن رہتی ہے۔ ان کا سماجی اور سیاسی شعور جامد رہتا ہے ۔ تازہ خیالات کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ 


 دنیااس وقت خواندگی کے بنیادی تصور(لکھنے، پڑھنےوغیرہ کی مہارت) سے آگے ڈیجیٹل خواندگی کی طرف بڑھ چکی ہے جہاں معلومات اور ابلاغی ٹیکنالوجی کی مدد سے تخلیقی عمل پر زور دیا جا رہا ہے۔ ایسی دنیا میں آپ تصور کریں کہ ملک خداداد میں اڑھائی کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں ، جو خواندگی کے بنیادی تصور کے دائرے میں بھی نہیں آتے یعنی جنھیں پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔ آپ اندازہ کریں کہ اتنی بڑی ناخواندہ تعداد کے حامل ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہی بچے کچھ سالوں کے بعد بطور شہری کہاں کھڑیں ہوں گے؟ ان کے ہاتھوں کس طرح کے سماج کی تارو پود بنی جائے گی؟ پاکستان جیسے جمہوری ملک میں یہ سیاسی عمل میں حصہ لیتے ہوئے امکانات کی کون سی دنیائیں تعمیر کریں گے؟ یہ سوچ کر ہی ہول اٹھنے لگتے ہیں۔ 


 پاکستان میں ناخواندگی کی متعدد وجوہات ہیں۔ چند وجوہات درج ذیل ہیں:
(الف) پاکستان میں ناخواندگی کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کے کمزور مالی حالات ہیں۔ پاکستان میں پچاس فی صد سے زائد افراد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک بڑی آبادی بہت کم کماتی ہے۔بچے اسکول جانے کی بجائے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیےمزدوری کے کام میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ 
(ب)  پاکستان کے بہت سے دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات دستیاب نہیں۔ بچوں کو  سکول جانے کے لیے دور دراز مقامات پر پیدل جانا پڑتا ہے۔ چنانچہ بہت سے والدین  کو  تعلیم کا حصول ایک مشکل امر لگتا ہےاور یوں وہ اپنے بچوں کو  سکولوں میں نہیں بھیجتے۔ 


(ج)  حکومت کی طرف سے تعلیمی بجٹ اونٹ کے منھ میں زیرے کے مترادف ہے۔ یہ بجٹ سکول سے باہر بچوں کو تو سکولوں میں کیا کردار ادا کرے ، یہ موجودہ تعلیمی سہولیات کو پورا کرنے میں ناکافی ہے۔ کئی جگہ برائے نام سکول موجود ہیں ۔ ان برائے نام  سکولوں میں سٹاف ہے ، نہ تعلیمی عمارات کا وجود اور نہ ہی بنیادی تعلیمی سہولیات کی دستیابی۔ ایسے  سکولوں میں تعلیم و تعلم کا معنی خیز بندوبست نہیں۔ ایسے سکول بچوں کو تو اسکولوں کی طرف کیا متوجہ کریں بلکہ ان کا عدم اور وجود برابر ہیں۔ 
(د)  معاشرے میں ناخواندگی کی خوف ناک صورت حال اور اس کے مضر اثرات سے متعلق آگاہی کی انتہائی کمی ہے۔ اجتماعی اور قومی سطح پر ناخواندگی سے متعلق نتیجہ خیز بات چیت اور غوروفکر کرنے کا کوئی اہتمام نہیں۔ قوم کی طرف سے ارباب و حل و عقد پر ناخواندگی ختم کرنے کا دبائو ہے نہ معاشرے ہی کی طرف سے اس ضمن میں اقدامات کیے جا رہے ہیں۔  


 ہمارے خیال میں ناخواندگی کی صورت حال ایمرجنسی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اڑھائی کروڑ ناخواندہ بچے----- یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ ان بچوں کو  سکولوں میں لانا اس وقت پوری قوم کی ترجیح اول ہونی چاہیے۔ اس کے لیے تمام توانیاں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ فوری اور طویل المدتی اقدامات اٹھانے چاہییں۔ فی الفور ذیل کے اقدامات وقت کی پکار ہیں:
(الف)  سکول سے باہر بچوں کے لیے ایک "جامع پالیسی" بنائی جائے اور اس پر سو فی صد عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ 
(ب) "جامع پالیسی " کا سلوگن "No child left behind"   ہو۔ 
(ج)  شرح خواندگی کو بڑھانے کے لیے غیر رسمی تعلیم اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ غیر تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ غیر رسمی تعلیم سے منسلک اداروں کو فعال بنایا جائے اور ان کی استعداد کو بہتر بنایا جائے۔ 


(د)  دور دراز دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے۔ ان علاقوں میں Private Public Partnership  کی مدد سے غیر رسمی تعلیم کو فروغ دیا جائے ۔
(ہ)  چائلڈ لیبر سے منسلک بچوں کو سکولوں میں داخل کرایا جائے اور غریب طلبہ کے معقول وظائف کا بندوبست کیا جائے ۔ 
(و)  سکول سے باہر بچوں کو  سکولوں میں لانے کے لیے بالعموم مین سٹریم میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر موثر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ صرف حکومت نہیں پورے معاشرے کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ ہر فرد کو اس اہم ترین کام کا ادراک کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔  

.

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔


 

مزید :

بلاگ -