کینال ویو UBL اور میَں (قسط اوّل)

کینال ویو UBL اور میَں (قسط اوّل)
کینال ویو UBL اور میَں (قسط اوّل)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 کینال ویو ہاوسنگ سوسائٹی کی تعمیر لاہور کی مشہور نہر کے کنارے 49 سال قبل شروع ہوئی تھی۔ اس ہاؤسنگ سوسائٹی کا اِنتظامی Structure   کواپریٹو بنیاد پر کیوں بنا؟۔ اس کا تعلق مجھ سے اور یونائیٹڈ بینک سے کیا ہے؟۔ اس بارے میں شائد کینال ویو میں رہائشی افراد کو بھی کم معلوم ہوگا۔ بلکہ اتنی پُرانی آبادی کی تاریخ جاننے والے بھی کم ہی حیات ہونگے۔ جن محکموں نے اس سوسائٹی کو اِمداد ِ باہمی کی شکل دینے میں مدد دی وہ اَفسران بھی شائد وفات پا چکے ہونگے۔ صرف ایک افسر ابھی حیات ہیں، 90 سال سے زیادہ عمر ہے اور بسترِ علالت پر ہیں۔ LDA کے وہ افسران جنہوں نے اس سوسائٹی کے اَبتدائی سالوں میں مدد فرمائی وہ تمام بھی اللہ کو پیارے ہو چکے۔ صرف سعید مہدی صاحب حیات ہیں، جو اُن دنوں LDA کے ڈائریکٹر اسٹیٹ مینجمنٹ ہوتے تھے اور میرے دوست تھے،جب میَں سول سروس کی ملازمت چھوڑ کر حبیب بینک میں آیا تھا۔ سعید مہدی کی تمام فیملی، والد صاحب اور بھائیوں سے قریبی تعلقات اُس وقت بنے جب سعید مہدی کا چھوٹا بھائی علی رضا حبیب بینک میں میرا نوجوان ساتھی تھا۔ سعید مہدی کی ہی وجہ سے میری دوستی شیخ محمد اکرم  سے ہوئی جو LDAکے پہلے DGتھے اور وہی کینال ویو سوسائٹی کے دوسرے صدر بھی بنے۔ UBLکے اُس وقت کے Founderصدر جناب آغا حسن عابدی تھے۔ آغا صاحب نے بینکوں میں مسابقے کی بنیاد ڈالی۔

دوسرے بینکوں کے کار آمد ملازمین کو ہر قیمت پر اپنے اِدارے میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔ خود اِنٹرویو کرتے اور اگر مطمعین ہو جاتے تو تنخواہ اور مراعات کی کوئی حد نہیں ہوتی تھی۔ میرے ساتھ بھی یہ ہی ہوا۔ حبیب بینک کی پانچ سالہ ملازمت چھوڑ کر میں UBL میَں بطور Zonal Development منیجر لاہور ریجن تعینات ہوگیا۔ بہت اچھی تنخواہ اور ڈھیر ساری مراعات کے ساتھ۔ مارچ 1974 میں بینک قومیائے نہیں گئے تھے کہ حنیف رامے صاحب پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ مقرر ہوئے۔ سیاست میں آنے سے پہلے رامے صاحب کا ایک نیم ادبی اور نیم نظریاتی ماہنامہ”نصرت“ کے نام سے چھپتا تھا۔ رامے صاحب کو میں حبیب بینک کے اشتہار دے دیا کرتا تھا۔ 500 روپے میں رسالے کا تمام صفحہ۔ اِشتہار کا 500 روپے معاوضہ اُس زمانے میں زیادہ تھا۔ اُن دِنوں میں بھی تھوڑا سا نظریاتی تھا۔ پیپلز پارٹی کے کئی بانی اکابرین میرے ملنے والے تھے۔ ڈاکٹر مبشر سے تو احترام والی دوستی تھی۔ مولانا کوثر نیازی کا رسالہ ”شہاب“ نکلتا تھا  سیاست میں آنے سے پہلے۔ اُن کو بھی میَں 2-3 ماہ بعد حبیب بینک کا اِشتہار دے دیتا تھا۔ حسین نقی کا پنجابی زبان میں رسالہ نکلتا تھا۔ حسین نقی صاحب ابھی بھی حیات ہیں۔ اُنہوں نے کبھی اپنے منہ سے اِشتہار نہیں مانگا۔ بڑے خوددار اور نظریاتی اِنسان ہیں۔ میرے ایک مرحوم دوست کے ذریعے اُن سے واقفیت ہوئی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ اُن کا رسالہ زیادہ تعداد میں شائع نہیں ہوتا لیکن میں اپنے جنرل منیجر جناب برلاس صاحب کی اجازت سے حسین نقی صاحب کے رسالے کو 500  روپے کا اِشتہار ہر ماہ دیتا رہا تھا۔


 1974ء میں جب رامے صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو اُنہوں نے پاکستان کے تمام بڑے بینکوں کے ریجنل سربراہوں کو ایک بزنس لنچ پر بلایا۔ پنجاب ڈویلپمنٹ بورڈ کے چیرمین I. A. Imtiazi صاحب تھے۔ بہت سینئر بہت قابل اور رامے صاحب کے نظریاتی ہمدرد بھی۔ پاکستان کی اِبتدائی سوِل سروس سے تعلق رکھتے تھے۔ اس میٹنگ میں جو بڑے بینک تھے اُن میں نیشنل بینک، حبیب بینک، یو بی ایل،ایم سی بی اور اسٹیٹ بینک شامل تھے۔ رامے صاحب نے میٹنگ میں صدارتی کلمات کہے اور پھر اِمتیازی صاحب نے بینکوں کے ریجنل سربراہوں سے خطاب کیا۔ قِصہ مختصر بینکوں کو درخواست کی کہ بڑے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے علاوہ چھوٹے طبقے کے لئے بھی بینک اپنی خدمات کے دروازے کھولیں۔ یو بی ایل کی طرف سے سلطان محمد خان  (مرحوم) جو ریجنل ہیڈ تھے مجھے بھی اپنے ساتھ میٹنگ میں لے گئے۔ نیشنل بینک نے فوراً پیشکش کردی کہ وہ چھوٹے کسانوں کو زرعی Inputs کے لئے قرضے دیں گے۔ بڑی تالیاں بجیں۔ حبیب بینک نے چھوٹے تاجروں کو مالی سہولت دینے کا اعلان کر دیا۔ اور بھی زیادہ تالیاں بجیں۔ سلطان صاحب ابھی کچھ کہنا چاہتے تھے کہ رامے صاحب نے خوشگوار حیرت سے مجھے مخاطب ہو کر کہا کہ منظور صاحب آپ ہمارے ہم خیالوں میں سے ہیں، میَں تو آپ کو بڑے عرصے سے جانتا ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ سلطان صاحب تو ابھی تک شش و پنچ میں تھے کہ میَں نے ”شیخی“میں آکر اعلان کر دیا کہ UBL مکانات بنانے کے لئے متوسط اور غریب طبقے کو سرمایہ مہیا کرے گا یعنی قرض دے گا۔ سچ بات ہے کہ میَں نے کہہ تو دیا تھا اور تالیاں بھی خوب بج گئی تھیں لیکن میَں سلطان صاحب کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات دیکھ کر گھبرا گیا۔ سلطان صاحب نہائت گورے چٹے اور شریف النفس روہیل کھنڈ کے پٹھان تھے۔

میٹنگ کے بعد کھانا کھانے کے لئے سب مہمان سیکریٹریٹ کے دوسرے ہال میں جانے لگے تو سلطان صاحب بغیر کھانا کھائے میٹنگ سے فارغ ہوتے ہی مجھے پیچھے چھوڑ کر اپنے دفتر نیلاگنبد روانہ ہو گئے۔ کوئی میرے رُتبے کا ساتھی یہ حرکت کرتا تو میَں اسے بدتمیزی سمجھتا لیکن سلطان صاحب کی اس حرکت نے مجھے خوفزدہ کر دیا۔ خیر میَں نے اپنے آپ کو ہوش و حواس میں رکھا اور کسی دوسرے بینک کے اُفسر کی کار میں لفٹ لے کر اپنے دفتر جہاں سلطان صاحب کا بھی دفتر تھا، پہنچ گیا۔ مجھے سلطان صاحب کے اتنے غیر معمولی غصے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ میَں پریشان تو تھا ہی، دفتر پہنچتے ہی سلطان صاحب کے P.S نے مجھے اِطلاع دی کہ میرا بلاوہ آیا ہے۔ سلطان صاحب عموماً دھیمے مزاج کے انسان تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بھڑک اُٹھے اور بولے تم نے میٹنگ میں کیا بکواس کر دی۔ تمھیں معلوم نہیں ہے کہ اسٹیٹ بینک رئیل اسٹیٹ کی financing کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر UBLکی طرف سے تمہاری بکواس Minuteہو گئی تو آپ اپنی دوسری نوکری کا بندوبست کر لیں۔ میَں آپ کے غیر قانونی دعوے کا دفاع نہیں کروں گا۔ یہ کہہ کہ اُنہوں نے اپنے رویئے سے مجھے Get out کہہ دیا۔ میَں نے ایک بار سوچا کہ Minutesلکھے جانے سے پہلے میں رامے صاحب کو اپنی بپتا سناؤں۔ شرم مانع آئی۔ میَں لاہور کے اسٹیٹ بینک کے چیف منیجر زیدی صاحب سے مشاورت کے لئے چلا گیا۔ اُن سے میری یاد اللہ تھی۔ عموماً کمرشل بینک اسٹیٹ بینک کے چیف منیجر کی اگاڑی اور پچھاڑی سے ڈرتے ہیں، کیونکہ ہر بینک قوانین کے مطابق اپنے تمام فرائض انجام نہیں دے سکتا، ہر بینک کسی نہ کسی قسم کی قانوں شکنی کر دیتا ہے  اس لئے اسٹیٹ بینک کا احترام کیا جاتا ہے۔ زیدی صاحب سے میرے اچھے تعلقات تھے۔ اُنہیں علمی باتیں کرنے کا شوق تھا۔ لکھنو سے تعلق رکھتے تھے۔ مجھ سے باتیں کر کے اُن کا علمی اور ادبی ”چس“ پورا ہو جاتا تھا۔ زیدی صاحب بھی رامے صاحب کی میٹنگ میں تھے۔ میری ”بکواس“اُنہوں نے بھی سُنی تھی لیکن وہاں لنچ پر اُنہوں نے مجھے میری حماقت کا بتایا نہیں تھا۔ اَب جب اُنہوں نے اپنے دفتر میں میرے چہرے پرفکر مندی کے آثار دیکھے تو خود ہی بول پڑے۔ کیا ہوا سلطان صاحب نے آپ کی خبر لی ہو گی۔ میَں نے فوراً ہی زیدی صاحب کو سلطان صاحب والایک طرفہ مکالمہ سُنا دیا۔ زیدی صاحب پان بہت کھاتے تھے، پان کی پیک تھو ک کر اُنہوں نے مجھ سے سوال پوچھا کہ UBL کے ملازمین کو ہاؤس بلڈنگ کی سہولت میّسر ہے۔ میَں نے فوراً بتا دیا کہ 60 بنیادی تخواہوں کے برابر قرض مل سکتا ہے۔  اُستاد پھر اُستاد ہوتے ہیں۔ زیدی صاحب نے مشورہ دیا کہ جس طرح کراچی میں کواپریٹو ہاؤسنگ سوسائیٹز ہیں اِسی طرح تم UBL کے ملازمین کے لئے ہاؤسنگ کوآپر یٹو بناؤ اور جن ملازمین کو ممبر بناؤ اُن کے ہاؤسنگ قرض کی رقم سے سوسائٹی کے لئے اچھی لوکیشن پر اراضی خریدو۔ اس طریقے سے اسٹیٹ بینک کی پابندی کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ترکیب سُن کر دِل میں جو ہول اُٹھ رہے تھے نوکر ی سے برخواست ہونے کے، وہ کم تو ہوئے لیکن سلطان صاحب کو ایسی ترکیب پر راضی کرنے کے لئے مجھ میں تو ہمت نہیں تھی۔ (جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -