حقوق کی جدوجہد ریاست سے ٹکراؤ نہیں؟
حال ہی میں آزاد کشمیر کے عوام اپنے حقوق کے لیے کامیاب جدوجہد کر کے پورے پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ایک مثال بن گئے ہیں. آزاد کشمیر میں حقوق کے لیے چلنے والی اس تحریک پر تحریک کے آغاز سے پہلے، تحریک کے دوران اور تحریک کے بعد طرح طرح کے تبصرے ہوئے ،لیکن ان تبصروں میں چند مشترک چیزیں جو سامنے آئی ہیں ان میں ایک یہ کہ ہمارے تبصرہ نگار جلد بازی میں آدھی معلومات یا اپنی مرضی کی معلومات کے مطابق تبصرے کرتے ہیں. دوسری بات یہ کہ ہمارے لکھنے والوں کے قلم کسی غیبی ہاتھ میں ہوتے ہیں. یعنی بظاہر لکھنے والا کوئی اور ہوتا ہے لیکن تحریر میں سوچ کسی اور کی ہوتی ہے. دراصل ہمارے ملک کی سیاست اور مذہب کی طرح (صحافت بھی ایک تجارت بن چکی ہے) ان تینوں طبقوں کی اکثریت مالدار ہے
اگر ہمارے دانشور، لکھاری، صحافی، سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ دنیا کی تاریخ پر غور کرتے تو ان کو علم ہو جاتا کہ آزاد کشمیر میں چند دنوں کے اندر جو کچھ ہوا یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا،دنیا کے اندر اس سے ہزار یا کئی ہزار گنا زیادہ زوردار اور پر تشدد تحاریک چلتی رہی ہیں،یہ جو یورپ کے اندر بہترین نظام کی بدولت خوشحالی ہے یہ ان کو کسی نے تھالی میں رکھ کر دی ہے نہ ان کی قسمت میں لکھی ہوئی تھی،یورپ کے پرانے زمانے کے بادشاہی اور چرچ کے نظام نے اپنے عوام کو مفلوج کر کے ان کے حقوق سلب کر رکھے تھے، بادشاہ اور ان کے کتے عیش کرتے تھے اور عوام صرف محنت کر کے بادشاہوں اور ان کے کتوں کے عیش کا انتظام کیا کرتے تھے ،یہ جو دنیا میں انسانی حقوق کا ٹھیکیدار بنا ہوا امریکہ ہے 60 کی دہائی تک اس کے دو نظام تھے ،ایک گوروں کے لیے تو دوسرا سیاہ فام عوام کے لیے، سیاہ فام کو بس کی سیٹ اسی صورت میں مل سکتی تھی جب بس میں کوئی گورا بغیر سیٹ کے نہ ہوتا تھا،جاپان اور چین جن مشکلات سے گزر کر ترقی کی معراج تک پہنچے ہیں یہ سب کتابوں اور فلموں میں پڑھا اور دیکھا جا سکتا ہے ،ترکیہ، یوگوسلاویہ اور افغانستان سمیت کتنے ہی ممالک ہیں جن کے عوام نے لاکھوں قربانیوں کے بعد جینے کا سلیقہ سیکھا اور سامراجی طاقتوں کے چنگل سے جان چھڑائی آزاد کشمیر کے لوگوں کی تحریک بھی ریاست یا پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ حقوق کی جنگ تھی، جن پاکستانی دانشوروں کا خیال ہے کہ کشمیری منگلا ڈیم کی رائلٹی بھی لے رہے ہیں اور مفت بجلی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں ان کے لیے عرض ہے کہ منگلا ڈیم 60 کی دہائی میں بنا تھا اور پھر پندرہ سال پہلے منگلا اپ ریزنگ ہوئی لیکن کشمیریوں کو پہلی بار منگلا کی گیارہ ارب روپے رائلٹی عمران خان کے دور میں شاید دو ہزار بیس میں ملی تھی، منگلا ڈیم کے بدلے آزاد کشمیر کے لوگوں کو بجلی کی فراہمی کا جو معائدہ تھا وہ پڑھیے پھر بات کیجیے، ہم مانتے ہیں کہ آزاد کشمیر کا سارا بجٹ پاکستان دیتا ہے لیکن پاکستان نے یہ سودا اپنی رضا اور خوشی سے کر رکھا ہے، آزاد کشمیر نام کا آزاد اور اس کی حکومت بھی نام کی آزاد حکومت ہے، حقیقت میں اس کا سارا نظام پاکستان کے ہاتھ میں ہے ،کشمیر سے نکلنے والے تمام دریاؤں کا استعمال حکومت پاکستان کرتی ہے ،نیلم جہلم پاور پراجیکٹ میں جن دریاؤں کا رخ تبدیل کیا گیا ہے. وہ سب کشمیر کے دریا ہیں، اگر آپ کو یہ اعتراض ہے کہ پاکستان کے لوگ آزاد کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے اور کشمیری پاکستان میں خرید سکتے ہیں تو یہ سب اس معائدے کے مطابق ہے جو پاکستان نے خود کر رکھا ہے ،یہی سب بھارت کے ساتھ بھی تھا. جسے بھارت نے پانچ اگست دو ہزار انیس میں ایک آئینی ترمیم سے ختم کیا تھا بہرحال بات دوسری جانب نکل گئی اصل موضوع یہ ہے کہ کیا حقوق مانگنا ریاست سے ٹکراؤ ہوتا ہے؟ کشمیر کے عوام نے بغیر کسی بڑی سیاسی جماعت یا لیڈر شپ کے کھڑے ہو کر یہ ثابت کیا بلکہ سارے پاکستانیوں کے لیے ایک مثال پیش کی کہ اس طرح حقوقِ لیے جا سکتے ہیں، اگر کشمیری غلط تھے، حق پر نہیں تھے، یا اس تحریک کو ملک دشمنوں کی حمایت حاصل تھی تو پھر حکومت نے اتنی جلدی گھٹنے کیوں ٹیک دئیے اور ان کے مطالبات کو تسلیم کیوں کیا؟ اور اگر کشمیری حق پر تھے تو پھر حکومت نے حالات کو اس حد تک کیوں جانے دیا جہاں انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور کئی املاک تباہ ہوئیں؟ کشمیر کے لوگوں نے یہ جو متحدہ ایکشن کمیٹی بنائی تھی یہ تو ایک سال پہلے بنی اور کئی بار حکومت سے اپیل کی گئی کہ ہمارے جائز حقوق ہمیں دئیے جائیں اور آگے سے پاکستان کی طرف سے مسلط کیے گئے وزیراعظم دھمکیاں دیتے رہے، بلکہ احتجاج کے لیے دی گئی گیارہ مئی کی تاریخ تک حکومت دھمکیاں دیتی رہی اور ڈنڈے کے زور پر عوام کو دبانے کی کوشش کی جاتی رہی اور اگر یہ لوگ حق پر نہ ہوتے اور انتشار پسند ہوتے تو پھر آدھے مطالبات تسلیم ہونے پر تحریک ختم کیوں کرتے؟ واضح رہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سارے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے ،لیکن ان امن پسند اور محب وطن لوگوں نے چند بڑے مطالبات تسلیم ہونے پر ہڑتال ختم کر کے یہ ثابت کیا کہ ہم ملک میں انتشار نہیں چاہتے، رہی بات کہ پاکستان میں لوگوں کو بجلی کیوں مہنگی مل رہی ہے یا ان کو حقوق کیوں نہیں مل رہے، وہ اس لیے کہ آپ کشمیریوں کی مانند دلیر نہیں یا آپ کو اپنے حقوق کا ادراک ہی نہیں ہے،آپ جماعتی سیاست، علاقائی تعصب اور مذہبی تفرقوں میں بٹے ہوئے لوگ یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہیں کہ یورپ کے پرانے بادشاہوں کی طرح آپ کے اوپر بھی ایک بالائی طبقہ ہے جو آپ کاخون چوس کر اپنی اولادوں اور اپنے جانوروں کو پال رہا ہے، سرے محل، سوئس بینک، پانامہ لیکس، پنڈورا لیکس اور اب دوبئی لیکس کے بعد بھی آپ کچھ نہیں سمجھے تو پھر کشمیریوں کو اپنا دشمن مت سمجھو، کشمیری بھی پاکستانی ہیں،آپ کے سامنے آپ کے ملک میں ایک لاکھ سرکاری گاڑیاں فضول میں چل رہی ہیں جو آپ کے بجٹ کا ایک حصہ لے جاتی ہیں، اشرافیہ کی تنخواہیں، مراعات اور ان کے لیے گئے قرضے آپ کے بجٹ کا ستر فیصد ہڑپ کر جاتے ہیں اور آپ پھر انہی کے نعرے مارتے یا بجاتے ہو،اگر اپنے حقوق کی خاطر کھڑے ہونے کو کوئی ریاست سے ٹکراؤ کہتا ہے تو پھر ایسا ٹکراؤ فرض ہے۔