آئینی یا غیر آئینی؟
پاکستان میں اس وقت ایک ”بحران جاری“ ہے۔ 76سال سے ایک لفظ جو سب سے زیادہ سنا ہے وہ ”بحران“ ہے۔”جمہوریت پسند“سیاستدانوں کی حکومتیں ہوں یا باوردی جرنیلوں کا ”دورِ حکمرانی“ہو بحران کا لفظ ہماری تاریخ سے نکلا ہی نہیں۔ لیکن جو آج کا بحران ہے وہ پرانے سب بحرانوں سے منفرد ہے۔یہ ”آئینی بحران“ہے آئینی بحران سے مراد یہ نہیں کہ ہمارا آئین بحران میں ہے، یہاں جو بھی فیصلہ ہوتا ہے وہ آئینی فیصلہ کہلاتا ہے، لیکن اس آئینی فیصلے پر عمل نہیں ہوتا تو جب آئینی فیصلے پر عملدرآمد نہیں تو پھر آئین کہاں ہے؟ اس کے باوجود بھی آج ایک آئینی بحران ہے اور یہ آئینی بحران ”آئینی عدالت“کے قیام کے لئے ہے،بھول گئے کہ جسے غیر آئینی عدالت قرار دے رہے ہیں اس کو نئے پاکستان یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی بچے پاکستان،یعنی ”نئے پاکستان“ کی سب سے بڑی عدالت مانا گیا۔نئے پاکستان کی پارلیمان نے ”متفقہ ائین پاکستان“ تحریر کیا تو اس پر ذوالفقار علی بھٹو، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا مفتی محمود، جناب ولی خان، جناب غوث بخش بزنجو اور دیگر بڑے بڑے لیڈروں نے دستخط کیے۔ اس متفقہ آئین میں سپریم کورٹ،پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو ریاست کے تین ستون قرار پائے۔ بے شک پارلیمنٹ نے ہی قانون بنایا آئین بنایا، لیکن اس کے بعد اس آئین کے تحفظ اور اس آئین کے اندر کی گئی ”چھیڑ چھاڑ“ کو درست یا غلط قرار دینے کی ذمہ داری سپریم کورٹ کو سونپی گئی،لیکن ”ہم تو ہم ہیں“، ہم نے اس آئین سے ”چھیڑ چھاڑ“ شروع کر دی۔ آئین کے خالق کا رتبہ پانے والے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پانچویں اور چھٹی ترمیم فرمائی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعقوب صاحب کو مدتِ ملازمت میں توسیع دی جس کے نتیجے میں پاکستان بھر کے جج ان سے ناراض ہو گئے اور ان ججوں میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مولوی مشتاق بھی تھے،جن کے ہاتھوں بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا دلوائی گئی۔یہ کہانی یہاں نہیں رکی۔پھانسی چڑھنے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس کہانی کا ”اگلا باب“لکھا انہوں نے جونیئر جج سید سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنا دیا اور اس کے بعد وہی کھیل کھیلا گیا جو کھیلا جاتا ہے، پہلے بے نظیر رخصت ہوئیں اور پھر نواز شریف صاحب جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے سجاد علی شاہ کو ”فارغ“ کرنے کا سوچا، کیونکہ سجاد علی شاہ صاحب وزیراعظم نواز شریف کو ”ٹف ٹائم“ دے رہے تھے اور پھر پشاور ہائی کورٹ، کوئٹہ”بنچ“اور کیا نہیں ہوا۔ یہ سب اب تاریخ بن چکی ہے،جو اس وقت زندہ تھے ہوش و حواس میں تھے ان کو آج بھی سب یاد ہو گا اور جنہیں نہیں یاد وہ تاریخ کا مطالعہ کر لیں۔ اس لڑائی میں سپریم کورٹ پر ”حملہ“ بھی ہوا۔ ”بلوائی“عدالت میں گھس گئے اور جسٹس سجاد علی شاہ کو پہلے عدالت سے بھاگنا پڑا اور پھر گھر جانا پڑا، مگر ہم نے پھر بھی سبق نہیں سیکھا۔چیف جسٹس چوہدری افتخار کو چیف جسٹس کی بجائے جناب عبدالحمید ڈوگر کو چیف جسٹس بنا دیا گیا جس کی قیمت پھر پیپلز پارٹی نے ادا کی۔
جناب نواز شریف چیف جسٹس کی بحالی کے نعرے کے ساتھ لاہور سے اسلام آباد کے لئے نکلے، مگر ان کے گوجرانولہ پہنچنے پر ہی ایک ”چھڑی کا اشارہ“ہوا اور اس اشارے کے نتیجے میں چوہدری افتخار ”اپنی سیٹ“ پر واپس آ گئے۔ چوہدری افتخار نے پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ وہی کیا جس کی ان حالات میں توقع کی جا رہی تھی، اس کے بعد طے ہوا کہ سینیارٹی کے اصول کی پابندی کی جائے گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تک اس اصول کی پابندی کی گئی۔ کوئی کوئی ایک سال چیف جسٹس رہا تو کوئی دو سال۔ ایک چیف جسٹس تو پورا ایک مہینہ بھی چیف جسٹس نہیں رہے، لیکن اب اچانک ہمارے سیاست دانوں کو ایک خواب آگیا کہ ”اپنی“ آئینی عدالت بنائی جائے۔ اس دن سے میں اور ہر باشعور پاکستانی سوچ رہا ہے کہ کیا ہماری سپریم کورٹ آئینی عدالت نہیں، کیا یہاں ہونے والے سارے فیصلے ”غیر آئینی“ ہیں۔ اگر ایسا ہے تو سفید ماربل کی بنی یہ پر شکوہ عمارت یہاں کھڑی کیوں ہے۔ جب یہ آئینی ہی نہیں ہے قانونی نہیں ہے تو اس کا وجود کیوں ہے؟ بہرحال ایک نئی آئینی حکومت کی کہانی شروع ہوئی اور اس کے لئے بلاول بھٹو نے فرمایا ہے کہ یہ بے نظیر بھٹو اور قائداعظمؒ کی خواہش تھی۔ چلیں بلاول بھٹو سے تو بے نظیر بھٹو نے ان کے بچپن میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ یہ بھی مانتا ہوں کہ بے نظیر بھٹو نے بلاول کو بچپن سے یہی سبق دے کر بڑا کیا کہ جب تم اس قابل ہو جا ؤکہ پارٹی سنبھالو، اسمبلی میں پہنچو تو ”اصلی آئینی عدالت“بنانا، کیونکہ تمہاری ماں ایسا نہیں کر سکی۔ لیکن اس معاملے میں قائداعظمؒ کا نام کیوں بدنام کر رہے ہیں۔ جناب چودھری اعتزاز احسن کا فرمانا ہے کہ قائداعظمؒ نے جس آئینی عدالت کی بات کی تھی وہ 1930ء کا زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان میں انگریز بہادر کی حکومت تھی ہر ریاست کی اپنی ہائی کورٹ تھی، جن کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لئے ”برطانوی سپریم کورٹ“میں جانا پڑتا تھا۔لہٰذا قائداعظمؒ نے یہ مطالبہ کیا کہ ہندوستان کی ایک فیڈرل کورٹ بنائی جائے، یعنی ”آئینی کورٹ“بنائی جائے جہاں پہ متحدہ ہندوستان کی تمام ریاستوں کے ہائیکورٹوں کے مقدمات کے فیصلوں کو چیلنج کیا جا سکے ان کے فیصلوں کے خلاف وہاں رٹ کی جا سکے۔ تو قائداعظمؒ کا ”آئینی مطالبہ“تو ایک ایسی عدالت کے قیام کا تھا جو موجود نہیں تھی۔ پاکستان میں ایوان صدر،وزیراعظم ہاؤس، قومی اسمبلی، سینٹ کے ساتھ ایستادہ اس سفید سنگ مرمر کی عمارت، یعنی سپریم کورٹ پر یہ عدم اعتماد اچانک کیوں ہو گیا شاید ”کچھ لوگوں“ کی شکل پسند نہیں ہے۔ شکل ناپسند ہونا اچھی بات نہیں اصل چیز تو جج کو انصاف پسند ہونا چاہئے۔ انصاف پسند جج اپنے فیصلوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر کوئی فیصلہ ”آپ“کے خلاف آگیا ہے تو ”برداشت“کریں۔ اگر ناپسند ہے تو اپیل کریں، مگر اپنے ”مزے“ کے لئے درخت مت کاٹیں۔ کل جب اس درخت سے ختم ہونے والا سایہ نہ رہا اور آپ کو ”تپتی دھوپ“ میں ”جلنا“پڑا تو لگ پتہ جائے گا۔