جغرافیہ، تاریخ اور ریاست (حصہ اوّل)
اس موضوع پر لکھنے سے قبل آپ مجھ سے میری ائیر فورس کی نوکری کا ایک احوال سُن لیجئے۔ ہماری ائیر فورس پر 1956 تک رائل ائیر فورس کے گورے افسروں کی کمانڈ تھی۔ ہماری اکلوتی ریڈار کی موبائل یونٹ جو قریباً 15 Vehicles پر مشتمل تھی، ہمیں برٹش ائیر فورس کی طرف سے تحفے میں ملی تھی۔ ہم 60/70 لڑکے 3سالہ تربیت حاصل کرنے والے اولین پاکستانی ٹیکنیشنز تھے جن کو چھوٹی عمر میں برطانیہ تربیت کے لئے بھیجا گیا تھا۔ ہماری یونٹ نے تمام مغربی پاکستان کی سرحدی ڈسٹرکٹس اور بعد میں اسی یونٹ نے مشرقی پاکستان کے بارڈر اضلاع کا Arial survey کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا دونوں صوبوں کے اندررہنے والے سولین عوام سے رابطہ ہونا تھا۔ہماری اُس وقت کی PAF کے سینئر آفیسرز گورے ہی تھے۔ تمام پاکستانی ٹیکنیشنز اور آفیسرز بھی نوجوان تھے۔ آفیسرز اور ماتحت عملے میں دوستانہ ماحول ہوتا تھا۔ پاکستان آرمی کی طرح اَفسر اور ما تحت میں فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ برطانوی سماجی زندگی میں بڑے اور چھوٹے رتبے کے درمیان اِتنا فرق اَب بھی نہیں ہوتا۔ دیکھئے گورے افسر کتنے دُور اندیش اور محتاط تھے۔ ہماری یونٹ کے تمام سٹاف کا 3 روزہ Orientation کورس کروایا گیا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں کے عوام کی نفسیات سے روشناس کروانے کے لئے پاکستان آرمی کے برٹش آفیسر آئے تھے۔ کیونکہ PAF کے پاس ایسے مخصوص انسٹرکٹر نہیں تھے۔ ولائت میں 3 سال رہ کر ہم میں بے باکی بھی آگئی تھی۔ ہمیں مغربی پاکستان کے ہر صوبے کے علاقائی لوگوں کے سماجی رویوں کے بارے میں بتایا گیا۔ خواتین سے عزت اور احترام سے پیش آنے کا بتایا گیا، بلکہ ہمیں خواتین سے کم سے کم رابطے پر زور دیا گیا۔ بس سمجھ لیں کہ ہمیں تین روز میں ہر علاقے کے سلام دُعا کا طریقہ، لوگوں کے مذہبی رجحانات کا خیال اور اُن کی عورتوں کی عزت اور حساسیت کے بارے میں brief کیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ چونکہ ہم خاکی وردی والوں کا اندرونِ ملک کے عام لوگوں سے واسطہ پڑنا تھا اس لئے ہمارے لئے ہر علاقے کے لوگوں کے social behaviour کے بارے میں آگاہی ہونا ضروری تھی۔ اُن سے مقامی زبان میں بات چیت کرنے کی بھی ہدائت کی گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ گورے کے جانے کے بعد ہمارے فوجی جوانوں اورافسروں کو اتنی باریک آگاہی ابھی بھی دی جاتی ہوگی۔ مجھے اس مضمون کے لکھنے کی تحریک اپنے اس فوجی تجربے سے ہوئی کہ اگر ہم معمولی فوجیوں کو عوامی سوشل رجحانات سے روشناس کروانا ضروری تھا تو ہمارے ملک کو بنانے والے رہنماؤں کے لئے اُن عوام کی سماجی تاریخ کا جاننا کیوں ضروری نہیں تھا کہ جن عوام کی اکثریت کو 14 اِگست 1947 کی آدھی رات کو پاکستانی بنادیا گیا تھا۔
ہمارا رابطہ مختلف علاقائی عام کے لوگوں سے ہونا تھا اس لئے گورے افسروں نے ہمیں تمام پاکستانی علاقوں کی سوشل ہسٹری بھی بتا دی تاکہ کوئی بد مزگی پیدا نہ ہو۔ اس وقت ہم لڑکوں کو اتنی باریکیوں کا کوئی احساس بھی نہیں تھا، وہ تو جب ہم ذہنی بلوغت پر پہنچے اور ہم میں سے بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوئے، بڑے عہدوں پر پہنچے، مطالعے کا شوق بھی ہوا تو احساس ہوا کہ ایڈمنسٹریشن، گورننس اور سیاست کاری کے لئے تاریخ پر نظر رکھنا کیوں ضروری ہے خاص طور پر کسی بھی علاقے کے عوام کی سوشل اور Behavioural تاریخ کا جاننا تو بہت ہی ضروری ہے۔ لیکن ہسٹری جاننے سے پہلے جغرافئے کا جاننا بھی ضروری ہے کیونکہ جغرافیہ ہی ہر قسم کی تاریخ پر اثر انداز ہوتا ہے، خواہ وہ فزیکل جغرافیہ ہو یا پولیٹیکل جغرافیہ ہو، کمرشل یا کلچرل جغرافیہ ہو۔ دنیا کے تمام مذاہب کے پھیلنے یا اِن میں ردوبدل ہونے میں یا ان کے معدوم ہو جانے میں بھی جغرافیے کا عمل دخل ضرور رہا ہے۔ دنیا کے بڑے مذاہب دجلہ/ فرات، وادی نیل، وادیِ سندھ اور گنگا جمنا کی وادیوں میں یا ان کے قرب و جوار میں پیدا ہوئے اور جغرافیہ نے ہی ان کی توسیع میں مدد کی۔
اب آتے ہیں پاکستان کے موجودہ اور پاکستان سے قبل کے تمام سیاست دانوں کی تاریخ/ جغرافیہ دانی کی طرف۔ آج کل کے شہر ی تاجر اور بیوپاری قسم کے سیاستدانوں کو تو شائد پاکستان کی تاریخ جغرافیئے کا پس منظر بھی نہیں معلوم ہو گا چہ جائیکہ اُنہیں آس پاس کے ملکوں کی تاریخ، جغرافیئے سے کوئی آگاہی ہو۔ ہمارے سیاستدانوں کا تاریخ جغرافیئے کا علم سرکاری مطالعہ پاکستان سے حاصل ہوا ہو گا۔ All India Muslim League کے لیڈر بیرسٹر ضرور تھے اور بہت تعداد میں تھے، اکثر خطاب یافتہ بھی تھے، دیانتدار اور مخلص بھی ضرور تھے، مدبر بھی تھے،لیکن وہ سیاست کی ”Essential تعلیم “ جسے تاریخ اور جغرافیہ دانی کہتے ہیں، سے واقفیت نہیں رکھتے تھے آزادی کے بعد کے حالات نے یہ ثابت بھی کر دیا۔
ابھی پچھلے دنوں میں نے کئی کتابیں ایک مشہور پولیٹیکل جرنلسٹ Tim Martin کی پڑھیں خاص طور پر Why Nations Fail -2,Prisoners of Geography-1 کو پڑھ کر میرے نکتہ نظر کو زیادہ تقویت ملی کہ ایک کامیاب سیاستدان کے لئے تاریخ اورجغرافیہ سے اچھی خاصی آگاہی کیوں ضروری ہے؟۔ پاکستان ہمیں جس شکل میں ملا اور جس قسم کے پاکستان کا 23مارچ 1940 والے روز بالو اسطہ قرارداد لاہور کی شکل میں مطالبہ کیا گیا وہ ثبوت تھا کہ ہمارے تمام لیڈر محض جذباتی تھے اور صرف مذہب کی Commonality کو بٹوارے کی بنیاد سمجھتے تھے۔ انہوں نے سوچا ہی نہیں ہوگا کہ بنگال کا مسلمان مغربی پاکستانیوں سے زیادہ پکا مسلمان ہونے کے باوجود زبردست قوم پرست اور اپنی زبان سے محبت رکھتا ہے۔ بنگال کے لوگوں نے سلاطینِ دہلی کو 1462 میں مجبور کر کے بنگالی کو فارسی کے ساتھ درباری زبان بنوا لیا تھا۔ کیا ہمارے لیڈروں نے بنگالیوں کے Indigo Rebellion کے بارے میں نہیں جانا تھا کہ انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ بنگالی کسان،چاول کی جگہIndigo(نیل)کاشت کریں۔ لیکن بنگالی کسانوں نے بغاوت کر دی گورے کا حکم نہیں مانا۔ کیا ہمارے لیڈربھول گئے تھے کہ بنگال کے مسلمانوں نے 1905 میں ایسٹ بنگال ایک الگ صوبہ بنوا لیا تھا جس کو مغربی بنگال کے ہندو سرمایہ داروں نے ناکام کر دیا۔ بغاوت میں پیش پیش بنگالی مسلمان کسان تھا۔ کیا ہمارے لیڈروں کو خیال نہیں آیا تھا کہ آزاد منش، قوم پرست بنگالی مغربی پاکستان سے جغرافیائی طور پر 1200میل دُور ہوتے ہوئے وہ پاکستان کا ایک دُور افتادہ صوبہ بننا قبول نہیں کریں گے۔ جغرافیہ سے لا علمی کا ایک اور شاخسانہ۔ افغانستان کا برٹش انڈیا سے 1893 سے ڈیورنڈ لائن کا جھگڑا چل رہا تھا۔ برطانوی راج نے اس جھگڑے کا عارضی حل یہ نکالا ہوا تھا کہ پشاور وادی اور افغان بارڈر کے درمیان ایک آزاد علاقہ اس طرح بنایا کہ اس پر قانونی حکمرانی برطانیہ کے پاس رہے گی لیکن De-facto عمل دخل افغانستان کا بھی رہے گا۔ ہمارے لیڈروں کو اس مسئلے کا شائد ادراک ہی نہیں تھا ورنہ پاکستان بننے سے پہلے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ سے بھائی چارے کے ساتھ بات چیت کر کے کوئی اچھا سا حل نکال لیتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور ظاہر شاہ نے ہمیں 1953تک بطور ایک آزاد ہمسایہ ملک تسلیم ہی نہیں کیا۔بلکہ آج بھی طالبان کی حکومت ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتی۔
پاکستان 14اگست 1947میں وجود میں آ گیا لیکن سچ مانو اس طرح بنا جیسے کسی ناگہانی مہمان کے آجانے سے جلدی میں ہانڈی تیار کی جاتی ہے۔ جس میں نہ مرچ مصالحے کا تناسب رہ سکے اور نہ مناسب ذائقہ بن سکے۔ پاکستان کے جلدی میں بننے کے کئی دوسرے عوامل کے علاوہ ایک یہ بھی تھا کہ جنگ نے برطانیہ کے خزانے کو خالی کر دیا تھا۔ ہندوستان پر حکمرانی کے خرچے برداشت کرنا کٹھن ہو گیا تھا۔ سچ پوچھو تو قائد اعظم تقسیم کے لئے بہت سے داخلی، خارجی اور ذاتی عوامل کی وجہ سے تیار ہوئے تھے ورنہ وہ اور علامہ اقبال بھی ایسے بٹوارے کے لئے تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے لاکھوں انسان مذہبی جنونیت کی بنا پر مارے گئے اور کروڑوں انسان Transmigration کی وجہ سے بے گھر ہو گئے۔(جاری ہے)