لاہور براستہ لندن ساؤتھ افریقہ 

      لاہور براستہ لندن ساؤتھ افریقہ 
      لاہور براستہ لندن ساؤتھ افریقہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  برطانیہ ایک عرصے بعد آنا ہوا ہے۔ پی ایچ ڈی کی تکمیل کے دوران بیرون ملک سفر پر ازخود پابندی لگا رکھی تھی۔ اس دوران مختلف ممالک سے رابطہ کرنے والے احباب کو بھی اپنے اس سنگ میل کی تکمیل تک مہلت کا کہتا رہا جس پر بعض کی ناراضگی بھی مول لینا پڑی اور کچھ دعاؤں سے بھی نوازتے رہے۔ برطانیہ کے دیگر ایرپورٹس پر تو آنا ہوتا رہا لیکن ہیتھرو جو لندن کا سب سے مصروف ہوائی اڈہ ہے اسے پہلی بار استعمال کیا۔ جیسے ہی فلائٹ سے باہر نکلے تو اطراف سے انسانوں کا ہجوم تھا جن میں سے کچھ اپنی کنیکٹنگ فلائٹس کے لیے اور زیادہ تر امیگریشن کاؤنٹر کی طرف جانے والے راستوں کی طرف رواں دواں تھے۔ قریب پہنچ کر امریکی اور برطانوی پاسپورٹ والوں کی لائن الگ کر دی گئی اور باقی ہجوم دیگر کاؤنٹرزکی طرف جمع ہو نا شروع ہو گیا۔ دوسری طرف بہت سے کاؤنٹرز مسافروں کی امیگریشن کا عمل مکمل کر نے میں مصروف تھے۔ لگ رہا تھا کہ یہاں کم از کم دو گھنٹے تو لگ سکتے ہیں لیکن یہ عمل اتنی تیزی سے مکمل ہوا کہ میں ابھی طویل لائن میں لگا سر جھکائے ائر پورٹ کا وائی فائی ہی کنیکٹ کر رہا تھا کہ اسی دوران امیگریشن کے لیے میری باری آ چکی تھی۔ چند سیکنڈ میں میری آمد کا مقصد اور یہاں موجود میزبان کے متعلق سوال کر کے مجھے فری کر دیا گیا۔ یہاں مجھے ایک دن قیام کرنا تھا اور ایک دوست جن سے عرصے بعد ملاقات ہو رہی تھی باہر میرے منتظر تھے۔ لندن کی سڑکوں پر رش اور خاص طور پر شام کے اوقات میں بے پناہ اضافے کے سبب لوگ پورے شہر میں ٹرین کے سفر کو ہی فوقیت دیتے ہیں جو آرام دہ بھی ہے اور باسہولت بھی۔ ائر پورٹ کے اندر سے ہی چند منٹ کی واک کے بعد ٹیوب سٹیشن پہنچ گئے جو ہمیں لے کر روانہ ہو گئی۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہو رہا تھا کہ وقت سمٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ پورے برطانیہ میں ٹرین کا نظام اتنا جاندار اور مربوط ہے کہ لوگ اس کے مکمل عادی ہیں۔ تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ٹرین نے فاصلہ بھی سمیٹ دیا اور سڑکوں پر رش کی زحمت سے بھی بچ گئے۔ رات ڈنر میں کریلے گوشت سامنے آتے ہی لاہور یاد آ گیا۔ اگلی صبح واپس ہیتھرو پہنچے تو غلطی سے انڈر گراؤنڈ ٹیوب کی ٹکٹ پر باہر سے داخل ہوتے ہوئے کارڈ سکین نہ ہوسکا۔ سیکورٹی پر موجود شخص نے بتایا کہ آپ کا یہ کارڈ اس سیکورٹی سے گزرنے کے لیے نہیں ہے اس کے لیے آپ کو انڈر گراؤنڈ پلیٹ فارم سے آنا تھا اور ساتھ اس نے شائستگی سے بتایا کہ اگلی بار آئیں تو اس کا خیال رکھیں اور اپنا سیکورٹی کارڈ لگا کر ہمیں گزار دیا۔ یہاں سے نکلتے ہوئے دوست سے ذکر رہا تھا کہ ہمارے ہاں یہ سہولت میسر نہیں کہ سیکورٹی پر موجود اہلکار نے کہہ دیا کہ آپ نہیں جا سکتے تو پھر نہیں جا سکتے چاہے اس سے آپ کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے۔ انھیں جو آرڈر مل گیا وہ اسی کے پابند ہیں کہ نہ ان کی تربیت کی جاتی ہے اور نہ ان ہی ان کو آرڈر دینے والوں کی اور یوں ہر کہیں آسانیاں نہیں مشکلات منہ کھولے دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان سے اپنی سیٹ بک کرتے ہوئے ٹریول ایجنٹ سے پی آئی اے کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کا یو کے آپریشن بحال نہیں ہو پایا۔ برطانیہ سے کثیر تعداد میں پاکستانی آتے جاتے ہیں اور یہ قیمتی سرمایہ غیر ملکی ہوائی کمپنیاں کما رہی ہیں جس پر ارباب اختیار کی توجہ ہی نہیں۔ حکومتی ترجیحات میں جانے کیوں ایسے کام اہمیت حاصل نہیں کر پاتے جن کا تعلق ملکی مفاد سے ہوتا ہے۔ ہر برف ذاتی مفادات اور اقتدار کی دوڑ لگی ہے اور سب اسی کے تعاقب میں ہیں۔ سعودی ائر لائن کی فلائٹ سے ریاض آنا پڑا جہاں 9 گھنٹے کے انتظار کے بعد اگلی فلائٹ تھی۔ریاض ائر پورٹ پر اتنے طویل انتظار کے لیے نہ تو آرام دہ ویٹنگ ایریا تھا اور موبائل لیپ ٹاپ کی چارجنگ کے لیے آدھے سے زیادہ سوئچ بھی کام نہیں کر رہے تھے جو باعث حیرت تھا۔ یہاں پر بہت سے ملکوں کے لوگ اپنی اپنی کنیکٹنگ فلائٹس کے انتظار میں تھے۔ ان مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی فراغت کے وقت میں مشغولیت سے ہی قوموں کے مجموعی مزاج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔چائنیز اور انگلش لوگ لیپ ٹاپ لیے اپنی بزنس ویب سائٹس پر کسٹمرز کی ای میلز کا جواب دینے یا بکس ریڈنگ میں مصروف دکھائی دیئے اور پاکستانیوں کی اکثریت موبائل پر سیلفیاں لیتے، گیمز کھیلتے، سوشل میڈیا براؤزنگ ٹک ٹاک کلپ دیکھتے نظر آئے اور کچھ دوستوں اور گھروالوں کے ساتھ ویڈیو کال میں مصروف دکھائی دئیے۔ لاہور سے روانہ ہوا تو ائر پورٹ پر ایف آئی اے کی بیگ کھلوانے کی عادت ابھی تک اپ ڈیٹ نہیں ہو پائی۔ گھر میں ایک ترتیب سے رکھی چیزوں کو ایک منٹ میں الٹ پلٹ دیا جاتا ہے۔ بیگ کے نچلے حصے میں سوراخ کر کے چیک کرنے کی روایت بھی جوں کی توں ہے جس سے موڈ اور بیگ دونوں بیک وقت خراب ہو جاتے ہیں۔ یہاں پوچھے جانے والے سوالات بھی ایسے ہوتے ہیں جو ویزہ دینے والے ملک کی ایمبیسی بھی نہیں پوچھتی۔ ایف آئی اے کے ائرپورٹ کاؤنٹرز بھرپور اصلاح اور جدید سہولیات کے متقاضی ہیں جس سے ہر پاکستانی ملک سے باہر جاتے ہوئے ذہنی کوفت کا بھی شکار نہ ہواور اس کا سامان بھی خود کار نظام کے تحت چیک ہو جائے۔ کہیں بہت ضرورت بھی ہو تو اس کا انداز بہت شائستہ ہونا چاہیے۔ پطرس بخاری نے سائیکل کے پہیے گھومنے کے ساتھ ساتھ جھومنے کا بھی ذکر کیا تھا جو یہاں ائرپورٹ کی ٹرالی لیتے ہوئے یاد آ جاتا ہے کہ اسے بھی دائیں جانب لیجانے کے لیے زور بائیں طرف لگانا پڑتا ہے۔ کالم ہیتھرو ائر پورٹ سے روانہ کر رہا ہوں اور یہاں سے براستہ قاہرہ جوہانسبرگ ساؤتھ افریقہ کی طرف عازم سفر ہوں۔ دعاؤں میں یاد رکھیے۔

مزید :

رائے -کالم -