ابلیس کی پیروی کیوں؟ (1)
( 1) سورة الانفطار نمبر82 کی آیات نمبر6 کے الفاظ عنوان ِ مضمون ہیں۔ ترجمہ ان کا اِس طرح سے ہے: ”اے انسان! کِس چیز نے تجھے دھوکے میں رکھا ہے رب کریم کے بارے میں“؟ جس نے تجھے پیدا کیا۔ تیرے اعضاءدرست کئے، پھر تیرے عناصر کو معتدل بنایا۔ اس سورہ میں وقوع قیامت کا ہولناک منظر پیش کرنے کے بعد بتا دیا کہ اس روز فریب کے سارے پردے چاک ہو جائیں گے، ہر شخص کو خودبخود اپنے کارناموں کے بارے میں پتا چل جائے گا کہ وہ دُنیا میں کیا کرتا رہا؟ اے انسان! تیرا پروردگار جو بڑا کریم ہے، اُس نے تجھے اپنے لطف و کرم سے پالا، حالانکہ تم اس کی ناشکری کرتے رہے، تمہیں بھول ہے کہ روزِ محشر تمہارا احتساب نہیں ہو گا۔ تم دُنیا میں جو کچھ بھی کرتے رہے ہو وہ میرے معتبر فرشتے لکھتے رہے ہیں۔ اس مستند ریکارڈ کے مطابق فیصلے ہوں گے، تم کس فریب میں رہے۔ شریف لوگ تو یوں نہیں کیا کرتے، کیا تیرے نزدیک احسان کا بدلہ سر کشی اور بغاوت ہے؟ تم کسی کے ساتھ نیکی کرو اور وہ بدی کرے تو کیا تم اسے پسند کرو گے؟
(2) پوری سورہ¿ آیات نمبر1تا19کا ترجمہ اپنے اعمال کا جائزہ لینے کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ ( 1) جب آسمان پھٹ جائے گا(2) اور جب ستارے بکھر جائیں گے(3) اور جب سمندر بہنے لگیں گے (4) اور جب قبریں زیرو زبر کر دی جائیں گی(5) اس وقت جان لے گا ہر شخص جو اعمال اُس نے آگے بھیجے تھے اور جو اثرات وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا(6) اے انسان! کِس چیز نے تجھے دھوکے میں رکھا اپنے رب کریم کے بارے میں (7) جس نے تجھے پیدا کیا، پھر تیرے اعضاءکو درست کیا، پھر تیرے عناصر کو معتدل کیا(8) الغرض جس شکل میں چاہا، تجھے ترتیب دے دیا(9) یہ سچ ہے بلکہ تم جھٹلاتے ہو روزِ جزا کو (10) حالانکہ تم پر نگران فرشتے مقرر ہیں(11) جو معزز ہیں، حرف بہ حرف لکھنے والے ہیں (12) جانتے ہیں جو تم کرتے ہو(13) بے شک نیک لوگ عیش و آرام میں ہوں گے(14) اور یقینا بدکار جہنم میں ہوں گے(15) داخل ہوں گے اس میں قیامت کے روز(16) اور وہ اس سے غائب نہ ہو سکیں گے(17) اور آپ کو کیا علم روز جزا کیا ہے(18) پھر آپ کو کیا علم کہ روزِ جزا کیا ہے؟(19) یہ وہ دن ہو گا، جس روز کسی کے لئے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا اور سارا حکم اُس روز اللہ ہی کا ہو گا۔
مذکورہ سورہ کا ترجمہ اور مختصر سی وضاحت کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے، حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر اور غیر اقوام پر گہری نظر رکھنے والے نہایت زیرک، ذہین و فطین مضامین، تجزیہ اور کالم نگار حضرات کو چاہئے کہ عوام الناس، حکمرانوں، صاحبان اختیار و اقتدار، عدلیہ، عسکریہ اور مقننہ کی توجہ کلیتاً قرآن و سنت کے احکامات کی طرف مبذول کرائیں اور اپنے اپنے فن کو بکمال تمام اثر،ان گم گشتہ راہ نوردوں پر ڈالیں تاکہ یہ غیروں کی محتاجی چھوڑ کر احکامات الٰہیہ اور ارشادات نبویہﷺ کی دِل و جان سے پیروی کریں تاکہ ایک بار پھر سے غیر اقوام پر مسلمانوں کے دبدبے اور رُعب و جلال کی وہی فضا قائم ہو سکے جو حضور اکرمﷺ اور خلفائے راشدین ؓ کے دور میں تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات حالات کی سنگینی سے حضور اکرمﷺ خود بھی سخت آزردہ خاطر ہو جاتے تھے جیسا کہ سورہ¿ المائدہ نمبر5،آیت نمبر 41 میں فرمایا گیا ہے: ”یہود کی خباثتوں سے حضور اکرمﷺ کا دل آزردہ ہوتا تھا۔ آپ اُن کو قدم قدم پر اسلام کی حقانیت کے ثبوت مہیا فرماتے، لیکن وہ برابر کفر سے چمٹے رہنے پر مصر رہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دیتے کہ آپ افسردہ نہ ہوں۔ یہ ہر گزنہ آپ کو کوئی گزند پہنچا سکتے اور نہ اسلام کی ترقی روک سکتے ہیں“۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما کر یونہی بے یارو مدد گار نہیں چھوڑ دیا، بلکہ اس کے لئے آسمانی کتابیں اور قرآن کریم بصورت ایک مکمل ضابطہ ¿ حیات بذریعہ اپنے رسولوں، نبیوں اور پیغمبروں کے نازل فرمایا، جنہوں نے اس کے مطابق چلنے کے لئے ایک عملی نمونہ پیش کیا۔ جیسا کہ سورہ¿ بنی اسرائیل نمبر17 آیت نمبر16 کا ترجمہ بتاتا ہے.... اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ ہلاک کر دیں کسی بستی کو اس کے گناہوں کے باعث تو پہلے ہم نبیوں کے ذریعے وہاں کے رئیسوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں، مگر وہ الٹا نافرمانی کرنے لگتے ہیں اس میں۔ پس جب ہو جاتا ہے ان پر عذاب کا فرمان، پھر ہم اُس بستی کو جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیتے ہیں“۔
(3) حضور اکرمﷺ کی13سالہ مدنی اور 40 سالہ مکی زندگی نہایت پریشان کن اور تکلیف دہ تھی۔ اسلام دشمن عناصر سے نمٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورة الانفال نمبر 8 مدینہ منورہ میں نازل فرمائی۔ انفال ”نفع کی جمع ہے، جس کے معنی زیادہ کے ہیں“۔ یہ اس مال و اسباب کو کہا جاتا ہے، جو کافروں کے ساتھ جنگ میں ہاتھ لگے، جسے غنیمت بھی کہا جاتا ہے۔ اِسی سورہ¿ مبارکہ کے حوالے سے، جو قیامت تک بلا ردو بدل واجب استعمال ہے اور مسلمانوں پر جہاد فرض کیا گیا ہے، حالات حاضرہ کے تناظر میں چند ضروری متعلقہ آیات مکرمہ کا ترجمہ قارئین کی نذر کیا جاتا ہے:
سورة الانفال نمبر8 آیت نمبر39....”اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ کوئی فساد باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ کا ہی ہو جائے، پھر اگر وہ باز رہیں تو اللہ ان کے کام دیکھ رہا ہے“۔ آیت نمبر46” اور اللہ اور اُس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں جھگڑو نہیں، کہ پھر بزدلی کرو گے اور تمہاری بندھی ہوئی ہوا(رُعب و دبدبہ)اُکھڑ جائے گی اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔ آیت نمبر60 اور اُن کے لئے تیار رکھو، جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاﺅ، جو اللہ کے دشمن اور تمہارے دشمن ہیں“۔ لگے ہاتھ ایک حدیث بھی پڑھتے جائیں۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:” تین باتیں اصول اسلام میں داخل ہیں: ایک یہ کہ جو شخص لا الہ الا اللہ کا قائل ہو اور کسی بدعملی کی وجہ سے اس کو خارج از اسلام قرار نہ دیا جائے۔ دوسری چیز جہاد ہے، وہ اس وقت سے جاری ہے، جب سے مجھے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا اور اس آخری زمانے تک جاری رہے گا، جبکہ اس اُمت کا آخری طبقہ دجال سے جنگ کرے گا۔ (مسلمانوں کے حکمران خواہ ظالم ہوں یا منصف آج جہاد بہرحال جاری رہے گا)۔ کسی ظالم حکومت کا ظلم اور عادل حکمران کا عدل اس کو ختم نہیں کرے گا اور اصول اسلام سے تیسری چیز تقدیر پر ایمان لانا ہے....(ابو داﺅد)۔
یاد رہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ شیطان کی دشمنی کا کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے کہ پہلے یہ انسان کو بڑے سبز باغ دکھاتا ہے، اُکساتا ہے، مائل بجرم کراتا ہے۔ جب انسان اس کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتا ہے، تو اپنی اس کامیابی پر بڑا خوش ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں انسانوں کے ساتھ اس کی نہایت خطرناک دشمنی کے متعدد واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن کریم میں کئی جگہ ابلیس اور کئی جگہ شیطان اور شیاطین کا ذکر ہے۔ لغت کے اعتبار سے اس فرق کو اس طرح واضح کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی ابتدائی خلاف ورزی ” ابلیس“ نے کی، جس کے معنی ہیر اس کا مادہ” بلس“ ہے، جس کے معنی ہیں بے خبری، رحمت حق سے کامل مایوسی اور اندوہ گینی، قرآن کریم میں ابلیس اسے کہا گیا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی سرتابی کی اور قیامت تک کے لئے انسانوں کے اغوا کی مہلت لے لی۔ اسے دُنیا میں شر اور فتنہ و فساد کا سر چشمہ سمجھا جاتا ہے۔ شیطان ”Satan“ عبرانی=عدو۔ قرآن مجید میں یہ لفظ شیاطین، جن کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور انس کے لئے بھی۔ اس سے مراد بظاہر وہ وجود ہے، جسے حق کی مخالفت میں مسلسل گرم جوشی، پیہم ہنگامہ آرائی اور متواتر جدوجہد پر اصرار ہے، خواہ یہ سب کچھ علانیہ ہو یا خفیہ۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں گناہ کی موجد ایک ہستی!
شروع میں یہ ایک فرشتہ تھا، اس نے خدا سے بغاوت کی، بہشت سے نکالا گیا اور ابدی گناہ میں گرفتار ہوا۔ یہ جہنم کا صدر نشین ہے اور چھوٹے شیاطین اس کے کارکن ہیں۔ گناہ کی ابتدا شیطان ہی سے منسوب ہے۔ یہ انسانی ضمیر کو برباد کرنے والا اور گناہ کی رغبت دلانے والا ہے۔ یہ بہت سی داستانوں کا موضوع بھی ہے۔ ادبیات میں گوئٹے کی میفسٹو فلیز اور ملٹن کی پیراڈائزلاسٹ میں لیوسفر کے کردار اِسی کے مظہر ہیں۔ لفظ شیطان شطن سے بنا ہے۔ شطن کے معنی ہیں دُور ہو جانا، چونکہ یہ اللہ کی ہر رحمت سے دُور ہے، اس لئے اس کو شیطان کہا جاتا ہے، ہر آدمی کا ایک شیطان ہوتا ہے، جو انسان کو اللہ تعالیٰ کا گمراہ بناتا ہے اور اسے بُرائی کی طرف مبذول کراتا ہے۔ یہ مرد یا عورت یا کسی بھی شکل میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ اولاد آدم کے ساتھ، بالخصوص اُمت ِ مسلمہ کے ساتھ تو اسے انتہائی عداوت اور بیر ہے۔ (جاری ہے) ٭
قرآن کریم میں سورة الاعراف نمبر7، آیات 11تا18 اور سورہ¿ ص، نمبر38کی آیات(71تا87) اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا بڑا گستاخانہ اور بے باکانہ طرز گفتگو ملاحظہ فرمایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ موقعہ ہے جب اس نے اُمت ِ مسلمہ کو اغوا کرنے کی اجازت لے لی تھی۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا کہ شیطان اپنی ذریات کو طلوع آفتاب کے وقت طلب کرتا ہے۔ خود سمندر پر تخت بچھاتا ہے اور دُنیا جہان کے ہر کونے میں دنگا فساد پھیلانے کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ بالخصوص انسانی گھریلو زندگی کو تباہ و برباد کرنے میں زیادہ زور دیتا ہے۔ شام کو بوقت غروب آفتاب ہر گروہ سے رپورٹ طلب کرتا ہے۔ سب گروہوں سے دن بھر کی کارروائی سنتا ہے اور ناراض ہوتا ہے کہ تم میں سے کسی نے بھی کوئی بڑی کارروائی نہیں کی، حتیٰ کہ ایک گروہ آ کر بتاتا ہے کہ اُس نے ایک گھر میں خاندانی تنازعات کا آغاز کر دیا ہے ۔ یہ سن کر شیطان بہت خوش ہوتا ہے اور باقیوں کو کہتا ہے کہ یہ ہے وہ کام جس سے مجھے خوشی ہوتی ہے اور اس گروہ کو بغل میں لے کر شاباش دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسے فتنے چاہئیں، جن میں اجتماعی دشمنی پیدا ہو، تم نے تو کوئی ایسا کمال نہیں دکھایا“۔
(5) تلبیس ابلیس کے موضوع پر امام ابن الجوزی ؒ نے اپنی کتاب.... تلبیس ابلیس، امام غزالی ؒ نے اپنی کتاب منہاج العابدین میں شیطانی مکرو فریب کے ایسے راز افشا کئے ہیں، جنہیں ہر مسلمان، بالخصوصِ والیان ِ ملک اور صاحبان ِ اختیار و اقتدار کو ضرور جاننا چاہئے۔ اِس کتاب میں آپ خود فرماتے ہیں: ”بزرگان دین نے جن کا درگاہ ایزدی میں بلند مقام ہے، فضول اعتراضات کی پروانہ کرتے ہوئے اور تمام اُمت پر نظر کرم فرماتے ہوئے اس موضوع پر کئی کتابیں تصنیف فرمائیں۔ مَیں بھی اس ذات اقدس کی طرف متوجہ ہوا، جس کے قبضہ ¿ قدرت میں تمام عالم خلق و امر کی چیزیں ہیں کہ ایک ایسی کتاب تصنیف کرنے کی توفیق دے، جس پر سب متفق ہوں اور جس کے پڑھنے سے تمام کوفائدہ پہنچے، تو اس رحیم و کریم ذات نے میری التجا قبول فرمائی۔ اُس نے اپنے فضل و کرم سے عبادت کے عجیب و غریب اسرار و رموز پر مطلع فرمایا اور مجھے اس کتاب کی عجیب ترتیب و تدوین کا الہام فرمایا۔ ایسی ترتیب مَیں کسی اور کتاب کی تصنیف میں قائم نہیں رکھ سکا۔ یہ وہ تصنیف ہے، جس کی مَیں خود تعریف کرتا ہوں۔ اِس کتاب میں اپنے ہی ایک سوال ،شیطان کے مکر و فریب کس طرح معلوم ہو سکتے ہیں کے جواب میں ”وضاحت کی گئی ہے“۔
(6)۔ امام غزالی ؒ کی اس کتاب کے علاوہ ایک پنڈت کی مشہور و معروف کتاب ”انوار سہیلی ہے“، جس میں انہوں نے راج کماروں کے لئے ہدایات دی ہیں۔ علاوہ ازیں 2 مزید کتب کے مطالعے کا اتفاق ہوا، وہ ہیں علامہ کمال الدین دینوری کی شہرہ آفاق دو کتب ،کتاب الحیوان حصہ اول کے814صفحات اور دوسری کتاب کے 824صفحات ہیں، جس میں چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک کے تمام حیوانات، چرند و پرند کے مفصل حالات کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شیطان انسان کو کن طریقوں سے گمراہ کرتا ہے؟ یہ عجیب بات بتائی گئی ہے کہ دُنیا بھر کے پرندوں میں سے کوّا (غراب) ایسا پرندہ ہے، جو صبح سب سے پہلے بیدار ہوتا ہے۔ اگر85سالہ زندگی نے مزید وفا کی اور اخبار والوں نے اِس مضمون کو قابل ِ اشاعت جانا تو مذکورہ سب کتابوں کی تلخیص ان شا اللہ تعالیٰ قارئین کرام کی نذر ضرور کروں گا، تاہم چلتے چلتے روزِ محشر شیطان اپنی بداعمالیوں سے صاف مکر جائے گا۔ سورہ¿ ابراہیم نمبر14آیت نمبر22کا ترجمہ ملاحظہ فرما لیں:”اور شیطان کہے گا (میدان ِ حشر) میں جب سب کی قسمت کا فیصلہ ہو چکے گا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ تم سے کیا تھا، وہ وعدہ سچا تھا اور مَیں نے (شیطان) بھی تم سے وعدہ کیا تھا۔ پس مَیں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور نہیں تھا تم پر میرا زور کچھ، مگر یہ کہ مَیں نے تم کو کفر کی دعوت دی اور تم نے فوراً قبول کر لی، میری دعوت۔ سو تم مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ آج مَیں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہوں۔ مَیں انکار کرتا ہوں اس امر سے کہ تم نے مجھے شریک بنایا۔ اس سے پہلے بے شک ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
روزِ محشر بدکاروں سے شیطان مخاطب ہو گا کہ مَیں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ قیامت نہیں آئے گی، کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا، مَیں تمہارا ساتھی اور مددگار ہوں گا۔ حلال و حرام کی پروانہ کرو، جس طرح دولت کما سکتے ہو، کماﺅ اور داد عیش دو۔ سو اللہ تعالیٰ نے تو سارے وعدے پورے کر دیئے اور میرے وعدے جھوٹے تھے۔ مَیں نے خلاف ورزی کی۔ یہ جواب سن کر بدکار سیخ پا ہوں گے، تو شیطان کہے گا۔ مجھ پر کیوں ناراض ہوتے ہو۔ مَیں نے کب مجبور کیا تھا کہ میری پیروی کرو۔ مَیں تو تمہارا ازلی دشمن تھا۔ تم اتنے بے وقوف اور احمق نکلے کہ اندھا دھند میرے پیچھے بھاگے۔ اب مجھے کیوں کوستے ہو؟ اپنی کم عقلی ، بدبختی اور حماقت پر ماتم کرو۔ سب تمہارا اپنا قصور ہے۔ مَیں ہر گز تمہارے گناہوں کا ذمہ دار نہیں۔ تم دُنیا میں مجھے خدا کا شریک ٹھہراتے تھے۔ مَیں اس کا انکار کرتا ہوں اور صاف صاف بتائے دیتا ہوں کہ اللہ کا ہر گز شریک نہیں تھا، اس لئے ہم اس دن کے عذاب سے بچنے کے لئے اب بھی اصلاح کر لیں اور قرآن و سنت پر پوری طرح سے عمل پیرا ہو جائیں۔ (باقی آئندہ)