’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 7
عنصر کو یونان سے واپس آئے آج دوسرا روز تھا۔ اماں نے ناشتہ تیار کر لیا تھا اس لیے وہ اُسے جگانے کیلئے آواز پہ آواز لگا رہی تھیں۔
”عنصر! عنصرپتر اُٹھ جا۔ ناشتا تیار ہے۔“ مگر اس پر خُمار طاری تھا۔
اچانک باہری دروازہ کھلنے اور ابا کے کھانسنے کی آواز سن کر عنصر پھرتی سے اٹھا اور غسل خانے میں جا گھسا۔ اسے ابا سے شروع سے ہی ڈر لگتا تھا مگر ڈر سے بھی زیادہ وہ اُن سے محبت کرتا تھا۔ عنصر کے ابا ماسٹر حمید گاﺅں کے واحد سرکاری سکول میں ٹیچر تھے۔ سارا گاﺅں ان کی محنت اور ایمانداری کے گن گاتا۔ وہ ہمیشہ نصیحت آمیز لہجے میں بات کرتے اس لیے ان کی پورے گاﺅں میں عزت تھی۔ عنصر کی پوری کوشش تھی کہ وہ جلد سے جلد ہاتھ منہ دھو کر دسترخوان پر پہنچ جائے کیونکہ ماسٹرحمید نے ناشتا کر کے سکول چلے جانا تھا اور بعد میں اس کے پاس فراغت ہی فراغت تھی۔ اس لیے وہ کوشش کر رہا تھا کہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارے۔
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 6 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
”السلام علیکم ابا!“
ماسٹر حمید کے کمرے میں قدم رکھتے ہی عنصر نے انہیں سلام کیا۔
”وعلیکم السلام میرے بیٹے۔“
اُن کے چہرے پہ ویسی ہی دلآویز مسکراہٹ سجی تھی جیسی وہ دس برس پہلے چھوڑ کے گیا تھا۔ ایک عنصر سے کیا وہ ہر ایک سے ایسے ہی ملتے تھے۔ اماں نے اتنی دیر میں دستر خوان کو قسم قسم کے کھانوں سے سجا دیا تھا۔ دیسی گھی کے پراٹھے‘ سرسوں کا ساگ‘ مکھن کا پیالہ‘ گڑ والے چاول اور چاٹی کی لسی۔ ان چیزوں کو دیکھنے کو تو عنصر ترس گیا تھا۔ سب نے مزے سے ناشتا کیا۔ ناشتے کے دوران ہلکی پھلکی باتوں کا دور بھی چلتا رہا۔ ماسٹر حمید عنصر سے یونانی معاشرے بارے معلومات لیتے رہے۔ انہوں نے نامور یونانی مفکرین سقراط‘ ارسطو اور افلاطون کی سوانح حیات کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا اس لیے وہ اُن کے بارے میں خاصی معلومات رکھتے تھے۔ وہ عنصر کو ان مفکرین کے حالات زندگی اور اُن کی فکر بارے بتاتے رہے جو اس کے لیے کافی حیران کن تھا کیونکہ یونان کے قیام کے دوران اس نے ان کے بارے کچھ زیادہ نہیں سنا تھا۔
”بیٹے ! سقراط ایتھنز میں ہی رہتے تھے جہاں تمہارا قیام رہا ہے۔“
ماسٹر حمید بولے۔
”وہ اس تاریخی اور قدیم ترین شہر میں پانچویں صدی قبل از مسیح میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے تمام عمر سچائی ڈھونڈنے میں گزار دی۔“
”کیسی سچائی ابا؟“
عنصر نے اشتیاق سے پوچھا۔
”سچائی جو ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔ دنیا کے تلخ واقعات کے پیچھے چھپی حقیقتیں بیٹا!“ ماسٹر حمید نے گہرا سانس لیا۔
”وہ مختلف حقیقتوں کی سچائیاں تلاش کرتے۔ کئی بار اپنی ہی ذات میں مستغرق ہو جاتے اور اپنی ذات پر غوروفکر کرتے۔ زندگی کی سچائیوں کو سمجھنے کیلئے وہ لوگوں سے ملتے، ان سے گفتگو کرتے۔ ہر عمر اور طبقے کے افراد سے سوال کرتے۔ وہ لوگوں سے پوچھتے اُن کے نزدیک خوشی کیا ہے ؟ ایک آدمی حقیقی معنوں میں اچھی زندگی کیسے گزار سکتا ہے ؟ کوئی بھی شہری اپنے وطن کی صحیح خدمت کیسے کر سکتا ہے ؟ وہ ہمیشہ ہر موضوع پر، چاہے سیاست ہو یا مذہب، گفتگو کیلئے تیار رہتے۔“ ماسٹر حمید نے کچھ دیر توقف کیا۔
عنصر نہایت انہماک سے ماسٹر حمید کی باتیں سن رہا تھا۔
”بیٹا ! سقراط ایک ذہین‘ شریف اور عملی زندگی گزارنے والے انسان تھے۔ انہوں نے ساری زندگی مختلف چیزوں کو سمجھنے میں گزار دی۔ انہیں ہر چیز کے پیچھے چھپی سچائی جاننے کی جستجو رہتی تھی۔ اُن کی ذہانت اور کردار سے لوگ متاثر ہونا شروع ہو گئے۔ وہ سچی بات کو بلاجھجک اور بلاخوف بیان کر دیتے چاہے وہ کسی اہم شخصیت کے بارے ہی کیوں نہ ہوتی۔ اسی وجہ سے ان کے دُشمنوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔کچھ لوگ ان کی شہرت دیکھ کر ان کے بدخواہ ہو گئے۔ سقراط ان کی پروا نہ کرتے اور نہ ہی وہ کبھی مشکلات کو خاطر میں لاتے۔“
ماسٹر حمید نے پھر توقف کیا۔
”حیرت ہے۔ لوگوں کو تو ان کا قدر دان ہونا چاہیے تھا ابا۔“
عنصر فوراً بولا۔
”بیٹا! ہمیشہ یاد رکھو جب بھی کوئی انسان کچھ اچھا کام کرنے جاتا ہے تو اسے مخالفت کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے مگردرست راہ پر چلنے والا مستقل مزاج انسان اس کی پروا نہیں کرتا۔ وہ اپنے کام میں مگن رہتا ہے اور اپنی منزل حاصل کر کے رہتا ہے۔ سقراط بھی ایسے ہی عظیم انسان تھے۔ انہوں نے اپنے مخالفین کی پروا نہیں کی اور لوگوں کو سچائی کی تعلیمات دیتے رہے۔ “
”ایتھنز کے شہری خصوصاً نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ان کی تعلیمات سے متاثر ہونا شروع ہو گئی۔ اسی بات کو دیکھ کر ان کے مخالفین یکجا ہو گئے۔ انہوں نے سقراط پر کیس دائر کر دیا کہ یہ شخص نوجوانوں کو غلط تعلیمات دیکر گمراہ کر رہا ہے۔ اُن پر الزام لگایا گیا کہ ان کی تعلیمات کے نتیجے میں نوجوانوں کا خداﺅں پر اعتقاد کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک سنگین الزام تھا نتیجتاً ان پر مقدمہ قائم ہو گیا۔“
ماسٹر حمید خاموش ہو گئے۔
”خداﺅں پر اعتقاد؟ ابا کیا ان کے ایک سے زیادہ خدا تھے؟“
عنصر نے حیرانی سے پوچھا۔
”بیٹا ! وہاں کے لوگوں نے بہت سے خودساختہ خدا بنا رکھے تھے۔ ان کے ہاں ہر چیز کا الگ الگ خدا تھا اور خداﺅں کے انکار کی سزا صرف موت تھی۔ بہرحال سقراط 70 برس کے بوڑھے ہو چکے تھے۔ وہ ججوں کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے اُوپر لگنے والے الزامات کا دانشمندانہ جواب دیتے ہوئے کہا انہوں نے لوگوں کو خداﺅں کیخلاف نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے اپنی زندگی خدا کی اطاعت کے مطابق گزاری ہے۔ اُنہوں نے کسی کو گمراہ کیا نہ غلط تعلیمات دی ہیں۔“
ججوں نے سقراط کا جواب نہایت غور سے سنا۔ آخرکار انہوں نے فیصلہ سنایا کہ اگر وہ لوگوں کو تعلیم و تدریس دینا چھوڑ دیں تو وہ اسے رہا کر دینگے مگر اُس عظیم انسان نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ وہ سمجھتے تھے یہ ان کا فرض ہے کہ وہ سچائی کی تلاش جاری رکھیں اور لوگوں کو اِس کی تعلیم دیں۔ انہوں نے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر تم مجھے مار ڈالو گے تو حقیقت میں تم مجھے اتنا نقصان نہیں پہنچا پاﺅ گے جتنا کہ خود کو۔ اُن پر خدا کی اطاعت فرض ہے نہ کہ ِان لوگوں کی۔
ماسٹر حمید کی آنکھوں میں سقراط کے لیے عقیدت کے جذبات جھلکنے لگے۔
”پھر کیا ہوا ابا؟ کیا انہوں نے سقراط کو چھوڑ دیا؟“
عنصر نے تجسس سے پوچھا۔
”ججوں نے سقراط کو موت کی سزا سنا دی۔“
ماسٹر حمید کی مرتعش آواز ابھری۔
”اُن کیلئے زہر کا پیالہ لایا گیا۔ انہوں نے خوشدلی سے پیالہ پکڑا۔ خدا سے دعا مانگی اور موت کو گلے لگا لیا۔ وہ نہایت مطمئن اور خوش تھے۔ سانسوں کا سلسلہ ٹوٹنے تک وہ اپنے پاس موجود لوگوں سے باتیں کرتے رہے اور پھر ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئے۔“
ماسٹرحمید نے بات ختم کی تو عنصر کے چہرے پر افسردگی چھا گئی۔اِس سے پہلے کہ اُن کے درمیان مزید بات چیت ہوتی ڈور بیل کی زوردار آواز نے مداخلت کر دی۔ ماسٹر حمید نے گھڑی پر نگاہ ڈالی تو پونے آٹھ بج رہے تھے۔ انہیں آٹھ بجے تک سکول جانا تھا اس لیے وہ سلام کر کے رخصت ہو گئے۔(جاری ہے)
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 8 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں