ڈوبلڈ ٹرمپ امریکہ کے47 ویں صدر بن گئے
واشنگٹن میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے47ویں صدر کے طور پر حلف اٹھانے کی باز گشت وفاقی دارالحکومت میں بھی سنائی دی۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ڈونلڈٹرمپ کے صدر بننے پر مبارکباد دی اور ان کے لئے نیک خواہشات اور تمناؤں کا اظہار کیا۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کی نظریں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر لگی ہوئی ہیں جو کہ ایک طویل کٹھن سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ تاثر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ امریکہ کے دنیا میں واحد سپرپاور کے طورپربرقرار رہنے میں ایک کلیدی کردار ادا کریں گے۔اب لگتا ہے کہ امریکہ جو سپرپاورکے طور پر دنیا میں شایدایک ٹانگ پر کھڑا تھک چکا تھا اور لگتا تھا کہ تھکا ہوا، ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین کے مقابل شاید زیادہ دیر کھڑا نہ رہ سکے، اسے ایک ایسی قیادت کی ضرورت تھی جو تیزتر عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں امریکہ کے واحد سپرپاور کے طور پر مسلسل کمزور ہونے کے تاثر کو جھٹکتے ہوئے روایتی پالیسیوں کے بجائے زمانے سے بالکل ہٹ کر ایسی نئی داخلی و خارجی حکمت عملی اپنائے کہ امریکہ اور امریکیوں میں ایک نئی روح پھونک دے۔ بظاہر تاثر یہی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنگوں کے امریکی شوق اور روایت کو ترک کرکے دنیا سے روابط کے لئے معاشی و اقتصادی امکانات کو تلاش کرکے تجارت اور کاروبار کے نئے عالمی معیار کو روشناس کرائیں گے۔ ابھی تک جو اشارے ملے ہیں ان سے یہی لگتا ہے کہ امریکہ اب عالمی اداروں اور معاہدوں کی پاسداری اس انداز میں نہ کرے جس طرح ماضی میں کرتا چلا آ رہا ہے۔ بالخصوص جن عظیم اداروں کی امریکہ نے آبیاری کی،بالخصوص اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشنوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے عالمی فریم ورک میں امریکہ اب اپنی فنڈنگ کے حوالے سے اپنے مخصوص اہداف کو مدنظر رکھے گا۔ امریکہ اپنے مفادات کے لئے اس ضمن میں کوئی بھی غیر متوقع اقدام کر سکتا ہے۔ اسی طرح امریکہ کو اگر پیڑو ڈالر کے اپنے گٹھ جوڑ کے سامنے کوئی رکاوٹ حائل نظر آئی تو کسی بھی انتہائی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ اب دنیا میں فری ٹریڈ کے بجائے سٹرٹیجک ٹریڈ کے ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اب تک سامنے آنے والے فیصلوں اور بیانات کا احاطہ کیا جائے تو یہ بات قطعی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے حوالے سے کوئی لحاظ روا نہیں رکھے گا اور فوری طور پر ادلے کا بدلہ والی پالیسی اپنائے گا اور دنیا کے ساتھ امریکہ اپنے روابط اور تعلقات میں اب”ن فری بنچ“کی پالیسی اپنائے گا یہی وجہ ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی عالمی طاقت اور پہلی طاقت کی دوڑ میں شامل ہونے والا ملک چین بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ناراضی مول لینے کے لئے تیار نہیں اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر رکھنے کے لئے ہر ممکن مثبت تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے صدر نے اپنے نائب صدر کو ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف وفاداری کی تقریب میں بھیجا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان گزشتہ 77سال سے امریکہ کا صف اول کا حلیف رہا ہے اگرچہ اس میں نشیب و فراز بھی آتے رہے لیکن عالمی سطح پر خطے میں آنے والی تبدیلیوں اور اہم واقعات کی بناء پر بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے کے حلیف بنے رہے لیکن امریکہ کی افغانستان سے شکست کے بعد بے دخلی اور پاکستان اور چین کے سی پیک کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات غیر معمولی طور پر سردمہری کا شکار نظر آتے ہیں لیکن چین کے دنیا کی پہلی قوت بننے کی دوڑ سے پاکستان امریکہ کے لئے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ بالخصوص حالیہ دنوں میں روس اور اس کی حامی وسطی ایشیائی ریاستوں کی پاکستان سے تعلقات کی گرم جوشی سے بھی امریکہ لاتعلق نہیں رہ سکتا۔خطے میں افغانستان میں ایک نئی بساط بچھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس لئے امریکہ میں ہونے والی اہم ترین سیاسی تبدیلی پاکستان کے لئے بھی اہم ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان کے پڑوس میں امریکہ کے خلاف بننے والے ایک بڑے محاذ کے تناظر میں پاک امریکہ تعلقات کے نئے عہد وپیمان خارج از امکان نہیں ہیں۔ اگرچہ سابق امریکی صدر بارک اوباما اور جوبائیڈن نے جنوبی ایشیا میں اپنے تمام انڈے ہندوستان کی ٹوکری میں رکھے ہوئے تھے اب پاکستانی سفارتکاری امریکہ کو اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کی طرف مائل کر سکتی ہے۔ اب دیکھنا ہے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شبنم کیا ترپ کا پتہ چلاتے ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کے لئے ایک بڑا چیلنج امریکی نژاد پاکستانیوں کا ہے۔ وہ انہیں کس طرح رام کرکے امریکی سیاست میں ان کے ذریعے پاکستان کے لئے کوئی فائدہ مندلابنگ کر پاتے ہیں کہ نہیں! وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی امریکی صدر کی حلف وفاداری کی تقریب میں شرکت کی تاہم سفارتی حلقے معترض ہیں کہ وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے اس اہم موقع پر پاکستان کی ترجمانی نہیں کی؟امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاسی پناہ اور پیدائشی شہریت کے خاتمہ کی تجویز کو رد کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو بے دخل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ نئے امریکی صدر کے آنے سے روایتی جنگوں کے خاتمے کے امکانات کے ساتھ دنیا میں ایک نئی معاشی جنگ کے آغاز کے خدوخال نظر آنے لگے ہیں۔ا س نئی ممکنہ معاشی جنگ کے نئے ورلڈ آرڈر میں پاکستان کے لئے چیلنجز بھی ہوں گے اور مواقع بھی پیدا ہوں! دلچسپ امر یہ ہے کہ جس وقت ٹرمپ امریکی صدر کے لئے حلف اٹھا رہے تھے تو ایران کے آرمی چیف پاکستان کی دورے پر تھے۔ انہوں نے صدر آصف علی زرداری اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے اہم تذویراتی ملاقاتیں کیں کیونکہ شنید ہے کہ ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی میں اہم کردار تو ادا کیا ہے لیکن یہ امر خارج از امکان نہیں کہ اب امریکہ ایران کے گرد شدید شکنجہ کسے گا بالخصوص اقتصادی و معاشی دباؤ بڑھانے کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں ایک طرف حکومتی اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات میں تعطل آیا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی نے ایک کمیشن بنانے کی پیشگی شرط رکھ دی ہے جبکہ حکومت نے پی ٹی آئی کے مطالبات کے جواب دینے کے لئے مہلت طلب کی ہے جبکہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور پی ٹی آئی کے مابین ایک غیر رسمی ملاقات پر بھی قیافہ آرائی جاری ہے۔
٭٭٭
عالمی سطح پر نئے تعلقات اور تبدیلیوں کے امکانات