عبدالقادر گیلانی کو جیت مبارک لیکن

عبدالقادر گیلانی کو جیت مبارک لیکن
عبدالقادر گیلانی کو جیت مبارک لیکن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app





19جون 2012ءکوسابق وزرِاعظم یوسف رضاگیلانی کے سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قراردئیے جانے کے بعد حلقہ این اے 151ملتان کی سیٹ پرالیکشن اس وقت بہت اہمیت اختیارکرگئے جب پیپلزپارٹی اس سیٹ پر یوسف رضاگیلانی کے صاحب زادے عبدالقادرگیلانی کو سامنے لے آئی جن کے مقابلے میں شوکت بوسن تھے جوبظاہرایک آزادامیدوارتھے لیکن درحقیقت اُن کو پس پردہ مسلم لیگ ن ،جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی لیڈرشپ کی خاموش حمایت حاصل تھی اس طرح قوم کو اس الیکشن میں خاصے زوردارمقابلے کی توقع تھی اور پھر ایسا ہی ہوا جب عبدالقادرگیلانی 64340ووٹ لے کرکامیاب ٹھہرے لیکن اُن کے حریف شوکت بوسن کے حاصل کردہ 60761ووٹ جہاں اس دلچسپ مقابلے کی عکاسی کررہے ہیں وہیں یہ صورت حال پیپلزپارٹی کی جیت کے باوجود اس کے مسقبل کے لئے ایک دھچکے سے کم نہیں کہ ایک ایسا حلقہ جو گیلانیوں کا گڑھ ہے وہاں پر ایک آزاد امیدوار کے ہاتھوں صرف 3500ووٹوں سے جیت پریقیناََ پیپلزپارٹی کو تشویش ہونی چاہئے ۔

یادرہے اس سیٹ پر 2008ءمیں یوسف رضاگیلانی اپنے مخالف امیدوار سکندرحیات بوسن کے مقابلے میں 31000کی برتری سے منتخب ہوئے تھے اور اب ساڑھے چارسال کے بعد یہ برتری کم ہوکر صرف 3500رہ گئی ہے حالانکہ اس عرصے میں یوسف رضاگیلانی صاحب نے اپنے اس حلقے میں ترقیاتی کاموں پر بے پناہ فنڈزخرچ کئے یہی وہ نکتہ ہے جس سے جہاں ایک طرف پیپلز پارٹی کے ووٹر کے مزاج کا علم ہورہاہے وہیں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن کی تقسیم کا فائدہ پیپلزپارٹی نے خوب اٹھایا ہے ورنہ جس طرح تحریک انصاف ،مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کی ہمدردیاں شوکت حیات بوسن کے ساتھ تھیں اگر یہ لیڈرشپ کھل کر بوسن صاحب کا ساتھ دیتی اور وہاں باقاعدہ جلسوں میں شرکت کرتی تو یقیناََ یہاں پیپلزپارٹی کوخوفناک سرپرائزملتا۔
بہرحال ان تمام حقائق کے باوجود اس بات سے کوئی انکارنہیں کرسکتا کہ جیت چاہے ایک ووٹ سے ہو جیت ہی ہوتی ہے جس پر چھوٹے گیلانی صاحب بجاطورپرمبارک باد کے مستحق ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک قابل فکربات اس الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی کے کچھ رہنماو¿ں کی جانب سے عدالت عظمیٰ کی جانب سے یوسف رضاگیلانی کونااہل قراردئیے جانے کے فیصلے کو بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایاجانا ہے جو ایک غلط روش اور سپریم کورٹ کونیچادکھانے کی کوشش ہے ۔یہ رہنماعبدالقادر گیلانی کی جیت کے بعد واضح طور یہ تاثردیتے نظرآتے ہیں کہ جیسے انہوں نے یہ جیت شوکت بوسن کے مقابلے میں نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے مقابلے میں حاصل کی ہو۔خود عبدالقادر گیلانی صاحب نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنی ایک تقریر کے دوران جوش خطابت میں یہ کہہ دیاکہ انہوں نے آج ایک بال پر چار وکٹیں گرائی ہیں۔ یہاں مسلم لیگ ن،جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ساتھ چوتھی وکٹ سے اُن کی مراد سپریم کورٹ ہوسکتی ہے۔ یہاں میں پیپلزپارٹی کے دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بے شک پیپلز پارٹی ملک کی ایک بڑی پارٹی ہے لیکن سپریم کورٹ اپنے تمام فیصلے آئین و قانون کو مدنظررکھ کر کرتی ہے جن کااحترام کیاجانا اور اُن کو بخوشی تسلیم کرنا ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے ورنہ اگرعدالت عظمیٰ کو اسی طرح مسلسل degrade کرنے اوراس کی ساکھ متاثر کرنےکی کوشش کی جاتی رہی تو اس کے ملک پر تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ 

مزید :

کالم -