اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 62
میں کھلے میدانوں میں پہنچا تو دن کافی نکل چکا تھا ور سنہری دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے سر اٹھا کر اپنے پیچھے کیلاش پربت کی سربفلک پہاڑیوں کو دیکھا۔ برف پوش چوٹیاں ساکت کھڑی تھیں۔ شیش ناگ کا مندر اب مجھے کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ آج کل کے اتری بھارت کا شمال مشرقی علاقہ تھا۔ چیت وساکھ کا مہینہ تھا۔ کہیں کہیں کیکر اور پیپل کے درخت اگے ہوتے تھے۔ پھر ایک جنگل شروع ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک جانب سے دو تین پگ ڈنڈیاں جنگل کے اندر جاتی ہے جہاں لوگ چلے جا رہے ہیں۔ میں نے ان کے قریب پہنچ کر دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ میں مٹی کا ایک بجھا ہوا چراغ اور گیندے کے پھولوں کا ہار ہے۔ یہ دیہاتی لوگ تھے۔ میں نے قدیم سنسکرت زبان میں ایک دیہاتی سے پوچھا کہ وہ لوگ جنگل میں بجھے ہوئے چراغ اور گیندے کے ہار لے کر کہاں جا رہے ہیں۔ اس نے حیرت سے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور پالی زبان میں کہا۔
’’ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اس جنگل میں ہمارے بھگوان بدھ براجمان ہیں۔ وہ آج نروان حاصل کرنے کے بعد پہلی بار اپدیش دے رہے ہیں۔ ‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 61پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک ثانئے میں میں سمجھ گیا کہ کیلاش پربت سے میرے یہاں آتے آتے پندرہ بیس برس کا زمانہ گزر چکا ہے۔ کیونکہ جب میں ٹیکسلا سے کیلاش پربت کی طرف چلا تھا کہ اس وقت اطلاعات کے مطابق کپل وستو کے راجہ سندھو دھن کا بیٹا سدھار تو گوتم ابھی اپنے محل میں ہی تھا اور اس نے نروان کی تلاش میں ابھی اپنے محل اور بیوی بچوں کو ہمیشہ کے لئے خیرباد نہیں کہا تھا۔ اب مجھے اس غنودگی کا خیال آنے لگا جو راستے میں مجھ پر کبھی کبھی اچانک طاری ہوجاتی تھی۔ یہ وقت کے تیزی سے چھلانگ لگانے کی غنودگی تھی۔ میرے دل میں اس شہزادے جوگی کو دیکھنے کا خیال پیدا ہوا ۔ جس نے انسانوں کے وکھوں کا حل تلاش کرنے کے لئے اپنا شاہی محل اور ہال بچوں کو تیاگ دیا تھا۔ بارہ پندرہ برس تک جنگلوں میں ریاضتیں کی تھیں۔ اس وقت تک میں اس جوگی شہزادے سے واقف نہیں تھا۔ جس نے بعد میں گوتم بدھ کے نام سے تاریخ میں اپنا ایک منفرد مقام پیدا کرتا تھا۔ مجھے تو اس سے اس لئے دلچسپی پیدا ہوگئی تھی کہ یہ کیسا شہزادہ ہے کہ جس نے انسانوں کے دکھوں کی خاطر اپنا شاہی محل اور تخت و تاج چھوڑ دیا۔ جبکہ میں تاریخ میں دیکھتا آیا تھا کہ لوگوں نے تخت و تاج کے لئے اپنے سگے بھائیوں اور ماں باپ تک کو قتل کر ڈالا تھا۔ علاوہ بریں مجھے یہ معلوم کرنے کی بھی خواہش تھی کہ اس جوگی شہزادے نے انسانی دکھوں کا کیا حل تلاش کیا ہے۔
جنگل کے اندر ایک کھلی جگہ تھی جس کے درمیان میں ایک چبوترہ بنا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس چبوترے پر ایک مقدس اور پر سکون چہرے والا انسان زرد رنگ کی عباجسم کے گرد لپیٹے آسن جمائے خاموش بیٹھا ہے۔ اس کے چہرے کے گرد نور کا ہالہ ہونہ ہو لیکن ایک گہرا سکون اور نورانی امن ضرور تھا۔ ایک جانب دن کے وقت بھی مشعل جل رہی تھی۔ لوگ اس مشعل کے لو سے اپنے دیئے روشن کر کے اس جوگی شہزادے یعنی گوتم بدھ کے چبوترے کے آگے رکھتے جا رہے تھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے دن کے وقت اس جنگل میں ستارے اتر آئے ہیں اور جھلمل جھلمل کر رہے ہیں۔
لوگ امن اور خاموشی سے ایک دوسرے کے ساتھ لگ کر بیٹھے تھے۔ میں بھی ایک جانب ہو کر بیٹھ گیا۔ میری نگاہیں کپل وستو کے اس تیاگی شہزادے پر لگی تھی۔ اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھول کر اپنے سامنے جمع لوگوں کو دیکھا۔ ہر طرف ایک گہرا سناٹا چھا گیا۔ درختوں کا پتا تک نہیں ہل رہا تھا۔ ہر کوئی ہمہ تن گوش تھا۔ اور آنکھیں اس شہزادے پر لگی تھی جو لوگوں کے دکھوں کا حل تلاش کرنے کی خاطر فقیر ہوگیا تھا۔ گوتم نے اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور بڑی میتھی اور پرسکون آواز میں یوں گویا ہوا۔
’’ ہر شخص اپنے ہی تعمیر کردہ قید خانے میں قید ہے۔ تمہیں اپنے اندر سے نجات تلاش کرنی ہوگی۔ بتوں کی پرستش مت کرو۔ ان کے آگے خون کے نذرانے نہ پیش کرو۔ تمام اشیاء کی روح میٹھی ہے۔ سب انسان بھائی بھائی ہیں۔ برہمن اور چنڈال ایک ہی دروازے سے آتے ہیں۔ میں بدھ جو آنسو بہاتا اور روتا تھا جس کا دل تمام دنیا کے غموں سے ٹوٹ گیا تھا، آج ہنستا ہوں اور خوش ہوں۔ تم جو تکلیف میں ہو سن لو۔ تم اپنی ہی پیدا کردہ تکلیف میں ہو۔ ازل سے بھی پہلے ، دائمی یقین سے بھی زیادہ یقنیی ایک ربی طاقت موجود ہے جو نیکی کے لئے حرکت کرتی ہے۔ صرف اسی کا قانون مستقل ہے۔ یہی وہ خدائے طاقت ہے جس کا لمس شگفتہ گلاب پر ہے جس کی ہنر مندر کنول کی پتیوں سے ہویدا ہے۔ تاریک زمین مین اور بیچ کی خاموشی میں یہی بہار کا لباس بنتی ہے۔ ان شان دار بالوں میں اسی کی رنگت ہے اور مور کے پروں پر اسی کے موتی ہیں۔ اس کے مقامات ستاروں میں ہیں اور اس کے غلام بجلی ہوا اور بارش ہیں۔ مور کے گردن پر اسی نے نقش و نگار بنائے ہیں۔ سنہری پرندے کے خاکی انڈوں میں اسی کے خزانے پنہاں ہیں۔ مکھیوں کے چھتے کے اندر اسی کا شہد ہے۔ چیونٹی کو اس کے ارادوں کا پتہ ہے۔ سفید فاختہ کو ان سب کا علم ہے۔ عقاب کے پروں کو یہی پھیلاتی ہے اور ہر ایک کا رزق یہی طاقت مہیا کرتی ہے۔ ماں کی چھاتیوں میں یہی سفید اور میٹھا دودھ لاتی ہے اور وہ سفید قطرے بھی جن سے سانپ ڈستا ہے یہی بناتی ہے۔ متحرک سیاروں کے آہنگ کو آسمان کے خیمہ میں یہی ترتیب دیتی ہے۔ یہ ہمیشہ نت نئے راز افشاء کرتی ہے۔ موت اور زندگی اس کے کرگھے کے تانے بانے ہیں یہ بناتی ہے توڑتی ہے۔ جو بناتی ہے وہ پہلے سے بہتر ہوتا ہے یہ خدائی طاقت سب کچھ دیکھتی اور سمجھتی ہے۔ نیکی کرو، یہ قدر کرتی ہے۔ بدی کرو ، یہ برابر کا ہرجانہ وصول کرتی ہے۔ اس کا ناپ تول سچا ہے۔ وقت اس کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ یہ کل انصاف کرے گی یا کئی دنوں کے بعد ۔ قاتل کا خنجر اسی کی بدولت اپنے ہی پیٹ میں لگتا ہے، یہی وہ قانون ہے جو نیکی کی متحرک کرتا ہے۔ اس کا مرکز محبت ہی اور اس کا کمال امن و سلامتی ہے۔ انسان اپنی ہی بوئے ہوئے کو کاٹتا ہے۔ اسی خدائی طاقت کے قانون کو سامنے رکھو۔ کسی کو رنج نہ پہنچاؤ ، اپنے حواس پر قابو رکھو۔ دل کے پیالے کو نیک خواہشات سے بھرلو۔ اس ربی طاقت کا خزانہ جواہرات سے بڑھ کر قیمتی ہے۔ اس کے مٹھاس ، شہد سے میٹھی ہے۔ اس کی مسرتوں کا کوئی ٹھکانہیں ، اپنے دل کو دوسروں کی بھلائی کے خیال سے لبریز کر لو۔ ‘‘
یہ گوتم بدھ کے نظریات اور خیالات تھے اور ان ہی میں انسان کے دکھوں کا حل پوشیدہ تھا۔ مجھے یہ خیالات بڑے اچھے لگے۔ بدھ کی وفات کے بعد ہی خیالات اس کے ماننے والوں کے بنیادی عقائد کہلائے۔ گوتم بدھ کا اپدیش ختم ہوگیا۔ لوگ اٹھ کر واپس جانے لگے۔ میری نگاہیں اس ہجوم میں بھی اپنی سانپ دوست قنطور کو تلاش کر رہی تھیں مگر مجھے نہ تو اس کی خوشبو آرہی تھی اور نہ شکل دکھائی دیتی تھی۔ گوتم بدھ اپنی زرد پوش حواریوں کے ساتھ اپنی کٹیا میں واپس جا چکا تھا۔ چبوترے کے آس پاس جلتے ہوئے چراغ اسی طرح جل رہے تھے جو بجھ گئے تھے۔ عقیدت مندا نہیں دوبارہ روشن کر رہے تھے۔ میں نے رات اسی جنگل میں دوسرے زائرین کے ساتھ بسر کی۔ صبح دم سورج نکلنے سے پہلے میں جنگل میں ٹہلنے کے لئے نکل گیا۔ میں اپنے دوست قنطور کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا کہ ایک جگہ آم کے درختوں کے نیچے سے میں نے گوتم بدھ کو آتے دیکھا۔ وہ بڑی نرمی سے زمین رپ پاؤں رکھ کر چل رہا تھا۔ اس کے چار حواری اس کے پیچھے تھوڑے فاصلے پر چل رہے تھے۔ میں ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔ گوتم بدھ جب نظریں زمین پر گاڑے انتہائی سکون کے ساتھ میرے قریب سے گزرا تو میں نے کہا۔ ’’ عظیم شہزادے ! تم نے لوگوں کے دکھوں کا حل تلاش کر لیا ہے۔ کچھ میرے دل کے دکھ کا بھی علاج کرو۔ ‘‘
گوتم بدھ وہیں رک گیا اس نے نہ تو میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اور نہ زبان سے کوئی لفظ ادا کیا۔ صرف ہاتھ فضا میں بلند کر کے اشارہ کیا کہ میں اسے اپنا دکھ بیان کروں۔ میں نے کہا کہ میرا ایک دوست گم ہوگیا ہے۔ میں اسے کہاں تلاش کروں کہ وہ مجھے مل جائے۔ گوتم بدھ ایک پل کے لئے ساکت کھڑا رہا۔ پھر اس نے سکون بخش آواز میں کہا۔
’’ تم اپنے دوست کی طرف ہی جا رہے ہو۔ ‘‘
وہ بے داغ قدم اٹھاتا آگے روانہ ہوگیا۔ اس وقت میں سمجھ نہ سکا کہ تیاگی شہزادے کا اس جملے سے مقصد کیا تھا۔ کیونکہ میں تو اپنے دوست قنطور کی تلاش میں ہی نکلا تھا۔ اس میں کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ میں باغ کی سیر کرنے کے بعد واپس اس چھوٹے سے میدان میں آگیا۔ جہاں گوتم بدھ نے ایک رات پہلے اپدیش دیا تھا۔ یہاں چراغ ابھی تک روشن تھے اور لوگ ان میں تیل ڈال رہے تھے۔ سارا دن میں نے ان لوگوں میں اپنے سانپ دوست قنطور کی تلاش میں گزار دیا۔ رات ہوئی تو ایک جگہ درختوں کے نیچے بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک گھوڑ سوار میرے پاس آیا ۔ گھوڑے سے اتر کر بولا۔
’’ اس گھوڑے کی سواری کرو گے؟ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ گھوڑا کسی اجنبی سوار کو قبول کرتا ہے کہ نہیں۔ ‘‘
میرا دل تو نہیں چاہتا تھا مگر اس نودارد نے کچھ ایسی محبت سے یہ سوال کیا تھا کہ میں انکار نہ کرسکا۔ میں گھوڑے پر سوار ہوگیا اور ایڑ لگائی۔ گھوڑا کیا تھا ایک بجلی تھی۔ باگیں ڈھیلی چھوڑتے ہی ہوا ہوگیا۔ آن واحد میں جنگل ختم ہوگیا اور میں اندھیرے میدان میں اڑرا جا رہا تھا۔ میں نے گھوڑے پر سے چھلانگ لگانے کی کوشش کی مگر میرا جسم جیسے گھوڑے پر جم گیا تھا۔نیز اندھیرے ہوا نے میری آنکھیں بند کردی تھیں اور مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ گھوڑا برق رفتار سے دوڑا چلا جا رہا تھا۔ اچانک میری آنکھوں میں ایک چمک سی کوند گئی۔ میری آنکھیں اپنے آپ کھل گئیں۔