اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 63
کیا دیکھتا ہوں کہ نہ میں گھورے پر سوار ہوں نہ وہ میدان اور جنگل ہے اور نہ وہ رات ہے۔ میں نے رومن غلاموں کا لباس پہن کر رکھا ہے۔ کمر کے ساتھ خنجر لگا ہے اور ہاتھ باندھے دریا کے کنارے ایک شاہی کشتی میں کھڑا ہوں۔ سامنے باغ میں شمعیں فروزاں ہیں اور کشتی کے سرے پر تانبے کی رومن مشعل جل رہی ہے۔ میرے ذہن پر سے ایک دم سے گویا ایک پردہ ہٹ گیا اور میرے دماغ کے کمپیوٹر میں یادداشت کا جو تازہ مواد فیڈ کیا گیا تھا وہ کھل میرے سامنے آیا۔ میں گوتم بدھ کے زمانے سے نکل کر آن واحد میں چھ سو سال کی مسافت طے کر کے رومان عہد میں آگیا تھا جبکہ روم کی وسیع و عریض اور طاقت دور ترین سلطنت کی باگ دوڑ ایک ظالم اور عاقبت نا اندیش شہنشاہ نیرو کے ہاتھ میں تھی۔ میں درندہ صفت رومن شہنشاہ کا غلام خاص تھا اور یہاں میرا نام کیولیس تھا نیرو مجھے مصری غلام کے لقب سے پکارتا تھا۔ آدھی سے زیادہ دنیا پر اس وحشی اور بدصورت بادشاہ کی حکومت تھی۔ یہ 50ء عیسوی کے عہد کی رومن سلطنت کا دارالحکومت روما تھا اور یہ بادشاہ کے شاہی محل کا باغ تھا جس کے جلو سے دریائے تائبر گزرتا تھا۔ اس وقت نیرو نے اپنی ماں ایگرینپا کو قتل کروانے کی سازش کر رکھی تھی۔ اس لئے کہ اس کی ماں امور سلطنت میں دخل دیتی تھی جسے اس کا ظالم اور شقی القلب بیٹا نیرو پسند نہیں کرتا تھا۔ عظیم ترین سلطنت روم کا پاگل وارث نیرو اس وقت میرے سامنے کھڑا تھا۔ اور اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر بڑی محبت اور تعظیم کے ساتھ اسے کشتی میں سوار کروا رہا تھا۔
’’ مادر محترم ! تیرا غلام آپ کو آپ کے شاہی محل تک بہ حفاظت پہنچا دے گا۔ ‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 62پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگرچہ نیرو کی مادر ملکہ نے دریائی سفر پر اصرار نہیں کیا تھا لیکن نیرو نے یہ کہہ کر اسے کشتی میں سفر کرنے پا آمادہ کر لیا کہ رات کے وقت دریائی سفر محفوظ ہوتا ہے اور ویسے بھی مادر ملکہ کا محل وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا لیکن میں جانتا تھا کہ نیرو کے دل میں کیا ہے۔ اس نے ایک آدمی کو خفیہ طور پر پہلے ہی سے دریا میں چھوڑ رکھا تھا کہ جب کشتی شاہی محل سے تھوڑے فاصلے پر ہو تو وہ دریا میں سے نکل کر چشم زدن میں مادر ملکہ کا کام تمام کر دے۔ دوسری جانب مجھے یہ ہدایت تھی کہ جونہی ملکہ قتل ہوجائے میں خنجر سے اس کے قاتل کو ہلا کر ڈالوں۔ نیرو کی ماں بھی بڑی ظالم عورت تھی اور اس سے پہلے وہ تخت پر اپنے بیٹے کو کٹھ پتلی کے طور پر بٹھانے کی کوشش میں کئی انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگ چکی تھی۔ وہ کشتی میں بیٹھ گئی ۔ اسے بھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا کہ اس کا اپنا بیٹا اسے قتل کرانے کا منصوبہ بنا چکا ہے اور یہ کہ وہ موت کے سفر پر روانہ ہورہی ہے۔
میں چپو چلانے لگا۔ نیرو نے ماں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے اور ہاتھ ہلاتے ہوئے رخصت کیا جو اس کے راستے کی سب سے بڑی اور سب سے آخری رکاوٹ تھی۔ میں خاموشی سے کشتی کھے رہا تھا۔ ضیافت میں موجود مہمانوں کے قہقہوں کی آوازیں بہت پیچھے رہ گئیں کشتی دریا کے دوسرے کنارے پر ملکہ کے محل کی پتھریلی دیوار کی طرف جا رہی تھی۔ یہاں اندھیرا تھا۔ مگر ستاروں کی روشنی میں ایک دوسری بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ سازش کے مطابق جان بوجھ کر کشتی کو محل کی دیوار کے اس طرف لے آیا جہاں نیرو نے اپنے ایک خنجر بکف آدمی کو سیڑھیوں کے پاس دریا میں متعین کر رکھا تھا۔ جونہی میری کشتی ملکہ کے شاہی محل کی پہلی سیڑھی کے قریب پہنچی پانی میں سے ایک سیاہ فام انسان مگرمچھ کی طرح باہر نکلر کر کشتی میں لپکا اور اس نے ملکہ کو دبوچ کر اس کا گلا کاٹ کر رکھ دیا۔ اب سازش کے تحت مجھے وہ کام سر انجام دینا تھا جو شہنشاہ نے مجھے تفویض کر رکھا تھا۔ میں نے چپو پھینکے او کمر سے خنجر نکال کر ملکہ کے قاتل کی پیٹھ پر دوکاری وار کئے۔ وہ حیران سا ہو کر میری طرف پلٹا لیکن وہ میری غیر انسانی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ دوسرے ہی لمحے اس کی لاش بھی ملکہ کی لاش کے اوپر پڑی تھی۔ منصوبے کے مطابق میں نے شور مچا دیا کہ ایک بدبخت نے ملکہ پر قاتلانہ حملہ کر دیا تھا اور میں نے اسے بھی قتل کر دیا ہے۔ نیرو یہی چاہتا تھا اس نے مجھے انعام دیا اور دو دن تک اپنی ماں کا سوگ منایا۔
نیرو اس سے پہلے کئی لوگوں کو قتل کروا چکا تھا جس میں اس کا ایک بھائی بھی شامل تھا۔ پہلے نیرو کے اس بڑے بھائی کو روم کے تخت کا وارث بنایا گیا تھا۔ نیرو نے وہی زہر اپنے بھائی کی شراب میں ملوا دیا جو اس کی ماں نے نیرو کے سوتیلے باپ کو ہلاک کرنے کے لئے دیا تھا۔ اس وقت ضیافت میں سینکڑوں لوگ بیٹھے تھے۔ نیرو کے بھائی کی شراب میں ہی زہر میری ہی وساطت سے ملایا گیا تھا۔ شراب پیتے ہی نیرو کے بڑے بھائی پر تشبخ کا دورہ پڑگیا۔ اس کے ہاتھ پیڑ مڑگئے ۔ اس کی آنکھیں پھٹ گئیں اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے مر گیا ۔ نیرو نے کہا۔ اسے مرگی کا دورہ پڑا تھا اور وہ بڑے مزے سے شراب پیتا اور تیتر کے کبابوں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اگرچہ میں اس درندہ نما انسان اور سلطنت روم کے مطلق العنان بادشاہ کا غلام خاص تھا مگر وہ میری خفیہ طاقت سے ابھی تک واقف نہیں تھا۔ اپنی طاقت کے اظہار کا مجھے کبھی کوئی موقع نہیں ملا تھا۔ کیونکہ ابھی تک مجھ پر نیرو کی نوازشیں تھیں اور اس نے مجھے قتل کروانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ میں جانتا تھا کہ میں اس کے خونی منصوبوں کا عینی شاہد اور وگواہ ہوں اور ایک نہ ایک دن وہ مجھے بھی حرف غلط کی طرح مٹانے کی ضرور کوشش کرے گا اور وہی دن میری خفیہ طاقت کے اظہا رکا دن ہوگا۔
نیرو ایک بار روما کے گنجان آباد شہر کو آگ لگا کر راکھ کر چکا تھا اور اس کی راکھ پر اس نے نیا شہر بنوایا تھا۔ اس نے اپنے اردگرد درباری مسخروں او رخوشامدیوں کا ایک گروہ اکٹھا کر لیا تھا جو اسے دنیا کا عظٰم شہنشاہ ، عظیم موسیقار اور عظیم شاعر کہہ کر پکارتے تھے اور اس کی ظالمانہ حرکتوں کی تعریف کرتی اور انہیں دیوتاؤں کی منشا قرار دیتے تھے۔
نیرو نے سب سے پہلے اپنی بہیمانہ جبلتوں کی تسکین کے لئے ایک ایسا سرکس بنایا تھا جس میں دنیا بھر کے خوں خوار درندے اور جنگلی بھینسے اور مگرمچھ جمع تھے۔ ان درندوں سے ان قیدیوں کو لڑایا جاتا جنہیں موت کی سزا سنا دی گئی ہوتی یا پھر عیسائی مذہب کے ماننے والوں کو ان کے آگے ڈال دیا جاتا ۔ نیرو عیسائیوں کا جانی دشمن تھا۔ اس وحشی اور مکار بادشاہ نے روم کو آگ لگانے کا ذمے دار بھی عیسائیوں ہی کو ٹھہرایا تھا۔ تاکہ لوگوں میں عیسائیوں کے خلاف نفرت پیدا کی جائے۔ اس ناکردہ جرم کی سزا میں نیرو نے سینکڑوں عیسائی مبلغین کو ان کے بیوی بچوں سمیت بھوکے شیروں کے آگے ڈال دیا تھا۔ بعض عیسائیوں کو زندہ جلا دیا جاتا۔ بعضوں کی کھال اتار کر انہیں مختلف جانوروں کی کھالیں پہنا دی جاتیں اور ان پر کتے چھوڑ دیئے جاتے ۔ وہ ایک ظالم اور بدکار ماں کا بیٹا تھا۔ اس کی ماں بھی اذیت پرست تھی۔ وہ جس مرد سے محبت کرتی اسے بعد میں اپنے سامنے کسی خود ساختہ جرم کی پاداش میں قتل کروا دیتی۔ قتل کروانے سے پیشتر وہ اسے طرح طرح کی اذیتیں دیتی اور خوش ہوتی۔
بادشاہ نیرو سرکس کے ظالمانہ تماشے دیکھنے بڑے شوق سے جایا کرتا تھا۔ یہ ایک بہت بڑی تماشا گاہ تھی جو بیضوی شکل کی تھی۔ اس کے کھں در آج بھی جدید شہر روم کے نواح میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان آتے ہوئے جب میر اجمبوجیٹ ہوائی جہاز روم کے اوپر سے گزرا تھا تو مجھے اس منحوس تماشاگاہ کے کھنڈر نیچے نظر آئے تھے۔ جیٹ مسافر طیارے میں بیٹھے ہوئے کسی انسان کو یقین نہیں آ سکتا تھا کہ میں اس سے ساڑھے انیس سو برس پہلے اس تماشا گاہ میں موجود تھا ۔ اس خونی تماشاگاہ کی سیڑھیوں پر ہزاروں ، لاکھوں لوگ بیٹھے ہوتے جنہیں ا س قسم کے غیر انسانی اور ظالمانہ تماشتے دیکھنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ نیرو اپنی درندہ صفت ذہنیت کی تسکین کے لئے نت نئے کھیل تماشے ایجاد کرتا تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)