مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ

مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 میاں طفیل محمدؒ
   سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان  
 حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر حضور نبی کریم کو جاننے اور پہچاننے والی شخصیت اور کون ہو سکتی تھی۔ان سے لوگوں نے جب پوچھا کہ حضور نبی کریم کیسے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا: حضور چلتا پھرتا قرآن تھے۔ میں بھی مولانا مودودیؒ صاحب کے بارے میں یہی کہتا اور کہہ سکتا ہوں کہ مولانا مودودی مرحوم‘ دعوت اسلامی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔
میں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ساتھ ۵۳ سالہ رفاقت کے دوران ان کی کوئی بات اور کوئی حرکت‘ اسلام اور اسوہ رسول سے ہٹی ہوئی نہیں دیکھی۔ میراان سے ایک ہی بات پر اختلاف تھا کہ وہ پان کھاتے تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ اسلام کے منافی تو نہیں ہے‘میں اسے تمھارے لیے تو نہیں چھوڑوں گا‘ خداکے لیے جب ضرورت ہو گی تو چھوڑدوں گا۔ چنانچہ اکتو بر ۸۴۹۱ء میں جب ہمیں گرفتار کیا گیا تو جیل کے پھاٹک کے باہر انھوں نے پان تھوکا‘ پھر ۰۲ماہ جیل میں کبھی نہیں چکھا اور جب سینٹرل جیل ملتان سے ہم رہا ہوئے تو دفترجماعت اسلامی ملتان میں آتے ہی پان منگوا کر کھانا شروع کردیا۔
شہر لاہور میں‘ مارچ ۳۵۹۱ء میں‘ جب ہم لوگوں کو گرفتا ر کر کے لاہور سینٹرل جیل میں لے جایا گیا تو مو لانا مودودی صاحب‘ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب‘ ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب‘ سید نقی علی صاحب‘ چودھری محمد اکبر صاحب سیالکوٹی اور مجھے لاہور سینٹرل جیل کے دیوانی گھر وارڈمیں اور لاہور سے گرفتار شدہ دوسرے حضرات کو دوسرے وارڈوں میں رکھا گیا۔ لاہور سینٹرل جیل میں ہی قائم کردہ مار شل لا کورٹ میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب‘ سید نقی علی صاحب اور ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب پر مقدمہ چلایا گیا۔ مار شل لا کورٹ میں مولانا مودودی صاحب نے جو بیان دیا وہ انھوں نے مجھے ہی لکھوایا (dictate) تھا اور یہی بیان عدالت میں مولانا محترم نے پیش کیا۔
اس کے بعد اسی افسر نے پوچھا:”نقی علی کون ہے؟“ سید نقی علی کوبھی وہ خوب جانتا تھا کہ وہ بھی ان کی عدالت میں پیش ہوتے رہے تھے۔ بہر حال سید نقی علی صاحب نے عرض کیا:”میں ہوں نقی علی“۔ اس افسر نے کہا:”تمھیں قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میں نو سال قید بامشقت کی سزادی جاتی ہے“۔ سید نقی علی صاحب نے بھی جواب دیا:”آپ کا شکریہ“۔
اس کے بعد اس افسر نے پوچھا:”نصراللہ خان عزیز کون ہے؟“ ملک نصر اللہ خان صاحب نے جواب دیا:”میں ہوں نصر اللہ خان عزیز“۔ افسر نے کہا:”آپ کو روزنامہ تسنیم میں مو لانا مودودی صاحب کا بیان شائع کرنے کے جرم میں تین سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے“۔ ملک صاحب نے جواب دیا:”آپ کا شکریہ“۔
یہ حکم سنانے کے بعد یہ لوگ واپس چلے گئے اور وارڈ کا باہر کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ احکام سننے کے بعد ہم لوگوں پر بظاہر کوئی اثر ہی نہ ہوا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تیز بلیڈ یا تیزدھار چھری سے ہاتھ کٹ جانے سے فوراً درد محسوس ہی نہیں ہوتا‘اسی طرح مولانامودودی صاحب کی سزاے موت کا یہ حکم سننے کے بعد ہمیں کچھ محسوس ہی نہیں ہوا۔
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا:”مولانا مودودی صاحب تیار ہوجائیں‘ وہ پھانسی گھر جائیں گے“۔ اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پا جامہ تنگ پاجامے سے بدلا‘ جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتارکر سیاہ گر گابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہا یت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے۔ 
اس کے کوئی نصف گھنٹہ بعد پھر وارڈ ر آئے اور کہا:”ملک نصر اللہ خاں عزیز اور سید نقی علی صاحب بھی چلیں۔ وہ سزا یافتہ قیدیوں کے بارک میں جائیں گے“۔ چنانچہ وہ دونوں بھی مولا نا امین احسن اصلاحی صاحب‘ چودھری محمد اکبر صاحب کواور مجھ سے گلے مل کر وارڈروں کے ساتھ چلے گئے۔اس کے تھوڑی دیر بعد وارڈ ر مولانا مودودی صاحب کا جوتا‘ پاجامہ‘ قمیص اور ٹوپی لا کر ہمیں دے گئے کہ مولانا صاحب کو پھانسی گھر کے کپڑے پہنا دیے گئے ہیں۔ ان چیزوں کی اب ضرورت نہیں ہے۔ اس پر پہلی مرتبہ ہم لوگوں کو اندازہ ہوا کہ ہو کیا گیا ہے۔ 
اگلی صبح ایک وارڈر نے آکر بتایا:”مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ پھانسی گھر گئے‘ وہاں کا لباس پہنا‘ جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا اور عشاء کی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے مارنے لگے۔ حالانکہ ان کے آس پاس پھانسی گھرکے د وسر ے قیدی چیخ و پکار میں مصروف تھے“۔
ہم لوگوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے درخواست کی کہ ہمیں مولانا مودودی صاحب سے ملاقات کی اجازت دی جائے‘ چنانچہ ہمیں اس کی اجازت مل گئی تو ہم لوگ بی کلاس وارڈ میں جا کر مولانا سے ملے۔مولانا کا سارا سامان چونکہ گھر بھیج دیا گیا تھا‘ اس لیے میں اپنا ایک ململ کا کرتہ‘ لٹھے کا پاجامہ اوربستر کی ایک چادر ساتھ لے گیا اورکھدر کے کرتے پاجامے کی جگہ یہ کپڑے ان کو پہنا دیے۔ مولانا مودودی صاحب کا پورا جسم گرمی اور کھدر کے موٹے کْرتے پاجامے کی وجہ سے گرمی دانوں سے بھرا پڑا تھا۔ اسی بی کلاس وارڈ میں مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب اور مولانا خلیل احمد صاحب خلف مولانا ابو الحسنات صاحب سے بھی ملا قات ہوئی۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی یہ عمر قید عملاً ۴۱ سال قید با مشقت کی تھی۔ اگر چہ یہ مارشل لا کورٹ کے تحت دی گئی تھی اور مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا‘لیکن مارشل لا کے تحت سارے احکام اور سزاؒں کو انڈمنٹی ایکٹ کے تحت بر قرار رکھا گیا تھا‘اس لیے یہ سزائیں مارشل لا اٹھ جانے کے باوجود بھی قائم اور جاری تھیں۔
مولانا مودودی صاحب کی سزا ے موت کے خلاف رٹ کی اس کارروائی کو اللہ تعالیٰ نے میاں منظور قادر صاحب کو منکر خدا سے ایک مومن و مسلم میں تبدیل کرنے کا ذریعہ بھی بنا دیا۔ ہو ا یوں کہ اس سلسلے میں ان سے میرا رابطہ اور بے تکلفی ہوئی تو میں نے ایک روزتفہیم القرآن کا پورا سیٹ لے جا کر میاں منظور قادر صاحب کی خدمت میں پیش کیاتو انھوں نے فرمایا:”میاں صاحب‘ آپ کو تو معلوم ہو گا کہ میں تو خدا کو نہیں مانتا“۔ میں نے عرض کیا:”میاں منظورقادر صاحب‘ آپ نے ہزاروں کتابیں ہر فن میں پڑھی ہیں‘ ان کو بھی پڑھ ڈالیں۔آپ کو معلوم تو ہو کہ مولانا مودودی کیا کہتے ہیں اور کیسے آدمی ہیں؟“چنانچہ انھوں نے تفہیم القرآن کا سیٹ لے کر رکھ لیا۔
میاں منظور قادر صاحب کچھ عرصے بعد جگر کے کینسر میں مبتلا ہو گئے۔ وہ علاج کے لیے سی ایم ایچ لاہور میں داخل ہو گئے۔میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو کافی مضحمل تھے۔ مجھ سے فرمایا:
Mian Sahib, now I have made peace with my Lord.Now I am prepared to meet Him.
اور کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون!
l دوسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب لاہورشہر کے مار شل لا کے تحت ۸۲ مارچ ۳۵۹۱ ء کو گرفتار ہوئے تو ان کے ساتھ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور میرے علاوہ جماعت کے ۵۵‘۶۵ نمایاں ارکان بھی گرفتار کر لیے گئے۔ مولانا مودودی صاحب کو سزاے موت اور بعد ازاں اسے عمر قید میں تبدیل کر دیا گیااور وہ ۶۲ ماہ بعد اس بنا پر رہا ہوئے کہ جس انڈ منٹی ایکٹ کے تحت مولانا کی سزا بر قرارتھی وہی خلاف قانون پایاگیا۔
l تیسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب ۴ جنوری ۴۶۹۱ء کو جماعت اسلامی خلافِ قانون قرار دیے جانے پر گرفتار ہوئے اور ان کے ساتھ جماعت کے ۵۵‘ ۶۵ دوسرے سرکردہ ارکان جماعت بھی گرفتار ہوئے۔ پھر مولانا مودودی صاحب اور دوسرے سب نظر بند بھی ۹ ستمبر ۴۶۹۱ ء کو اس وقت رِہا ہوئے‘ جب کہ سپریم کورٹ پاکستان نے جماعت پر پابند ی کو منسوخ اور مولانا مودودی سمیت تمام نظربند ارکانِ جماعت کی رہائی کا حکم دے دیا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -رائے -