دوست نے کہا ”مصر چلے جاؤ وہاں کے فرعون بھی تمہارے انتظار میں لیٹے لیٹے سوکھ کر کانٹا ہو چکے اور تمہیں اپنی کہانیاں سنانے کیلئے بے چین ہیں“

 دوست نے کہا ”مصر چلے جاؤ وہاں کے فرعون بھی تمہارے انتظار میں لیٹے لیٹے سوکھ ...
 دوست نے کہا ”مصر چلے جاؤ وہاں کے فرعون بھی تمہارے انتظار میں لیٹے لیٹے سوکھ کر کانٹا ہو چکے اور تمہیں اپنی کہانیاں سنانے کیلئے بے چین ہیں“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:  محمد سعید جاوید
قسط:8
قاہرہ آمد
غالباً 1984ء کے موسم گرما کا آغاز تھا۔ دن ابھی گرم ہونے شروع نہیں ہوئے تھے۔ میں ان دنوں ریاض سعودی عرب کے شاہی ہسپتال میں ایک شاندار اور معقول معاوضے والی ملازمت پر کام کر رہا تھا، اس لئے جیب میں عموماً سعودی ریالوں کی اچھی خاصی تعداد موجود رہتی تھی تاہم کچھ دن پہلے ہی ہسپتال میں بادشاہ سلامت علاج کے سلسلے میں داخل ہوئے تھے اور اپنی شہنشاہی روایات کے مطابق وہاں سے جاتے ہوئے ہسپتال کے تمام ملازمین کو ایک ٹھیک ٹھاک  رقم بطور بونس عطا کر گئے تھے۔ میرے حصے میں بھی ایک مہینے کی تنخواہ کے برابر اضافی رقم آگئی تھی۔
جب اچانک چھپر پھاڑ کر آ جانے والے ان پیسوں کی حرارت نے کسی کروٹ چین سے نہ رہنے دیا تو اس بات پر سنجیدگی سے غور شروع ہوا کہ اس رقم کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے۔یونہی کچھ دوستوں کو اپنی مشکل بتائی تو انہوں نے حکم نما مشورہ دیا کہ میں کہیں باہر نکل لوں۔ ایک نے تو منزل مقصود بھی بتا دی اور کہا کہ”سوچتے کیا ہو مصر چلے جاؤ وہاں کے فرعون بھی تمہارے انتظار میں لیٹے لیٹے سوکھ کر کانٹا ہو چکے ہیں اور وہ تمہیں اپنی کہانیاں سنانے کے لیے بے چین ہیں“۔
میرے کچھ ماتحت اور ساتھی مصری دوستوں نے اپنے وطن کی کچھ اتنی ہی زیادہ تعریفیں کر رکھی تھیں، جتنی ہم دیارِ غیر میں بیٹھ کر اپنے وطن کی برائیاں کیا کرتے ہیں۔ ایک مصری خاتون راویہ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان دنوں وہ بھی قاہرہ میں ہی موجود ہوگی اور نہ صرف یہ کہ میرے لئے ایک اچھے ہوٹل کا انتظام کر دے گی بلکہ اس کو وہاں میری میزبانی کا شرف حاصل کرکے مسرت ہوگی۔
جب مجھے ہر طرف سے پوری طرح پر جوش کر دیا گیا تو ایک روز میں جذباتی ہو کر اٹھا اور ویزہ لگوانے مصری سفارت خانہ جا پہنچا۔ ان کو اپنی اچھی خاصی انگریزی اور کچھ معصوم سی عربی بول کر دکھائی، وہ فوراً متاثر ہوئے اور بغیر کچھ الٹا سیدھا پوچھے کھٹاک سے ویزہ کی مہر لگا کر پاسپورٹ میرے حوالے کر دیا اور مسکراتے ہوئے سفر بخیر بھی کہہ دیا۔ مصری فضائی کمپنی کے دفتر سے ٹکٹ خریدا اور ایک صبح میں قاہرہ جانے والی پرواز پر جا بیٹھا۔
جہاز میں میرے اور کوئی پانچ دس دیگر مسافروں کے علاوہ تقریباً سارے ہی مصری تارکین وطن تھے جو اب چھٹیاں گزارنے اپنے وطن واپس جا رہے تھے۔مسرت ان کے چہروں پر پھوٹی پڑ رہی تھی۔ مصری عام طور پر بلند آواز میں گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس دوران ان کی آنکھیں ناچتی رہتی ہیں اور ہاتھ نوجیں مارنے کے انداز میں مسلسل حرکت میں رہتے ہیں، اور اس عمل کے دوران ان کی انگلیاں اکثرمقابل کے چہرے سے بال برابر فرق سے گزر جاتی ہیں۔
سارے مصری اس وقت بھی ٹھیک یہی کچھ کر رہے تھے اور انہوں نے بول بول کر سارا جہاز سر پر اٹھا رکھا تھا۔ بچے بھی اپنی دھماچوکڑی مچا رہے تھے اور جو خواتین بولتے بولتے تھک جاتیں، تو وہ اپنے ساتھ لائے ہوئے چاکلیٹوں، بسکٹوں اور آلو کے قتلوں کے پیکٹ کھول کر بیٹھ جاتیں۔ دوسری صورت میں انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی ساتھی خواتین کی باتیں سننا پڑتی تھیں، جو ان کے نزدیک قدرے ناپسندیدہ اور معیوب فعل تھا، کیونکہ اس سے ان کی کمزوری عیاں ہو جاتی۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -