”کارونا“ کا، رونا!
شیخ سعدیؒ نے ایک حکایت میں قحط کا ذکر کیاہے، جس میں لوگ عشق کرنا بھول گئے تھے۔ گویا یہ انسان کی جبلت یا فطرت ہے۔ جہاں تک ہو سکے، وہ اس سے باز نہیں آتا۔ عشق صد افسوس کہ ایک مدت ہوتی ہے، اس کی جگہ ہوس نے لے رکھی ہے۔ ہم نگاہ کی راہ سے کسی کے دل میں اترنا بھلا چکے ہیں۔ اب تاحدِ نگاہ جنس کا کاروبار عام ہے۔ الا ماشاء اللہ، اِدھر اُدھر جدھر دیکھو جنسیت! چہارسوبے حسی اپنے بال پھیلائے رقص کناں ہے۔ حیوانیت کا راج ہے کہ اس طرح پہلے کبھی نہ تھا!
حکیم شیراز کی بات مجھے ”کارونا“ کی وحشت سے پوری دنیا کا رونا دیکھ کر یاد آئی۔ ایک نفسا نفسی کا عالم ہے اور جو تھوڑی بہت ہمدردی و اخوت رہ گئی تھی، وہ بھی ہوا ہوئی۔ ہر کوئی سہما ہوا ہے۔ موت سے پہلے موت کا منظر! انبوہِ مرگ!! ”کارونا“ ہے اول چین کے ایک شہر میں سر اٹھایا۔ بس پھر کیا تھا؟ چل سو چل! اب کے اس کے اثرات نے قریباً دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ستاروں کی گزرگاہوں کو ڈھونڈھنے والا ”انسان“ کامل اندھیرے میں کھردری دیوار سے سر ٹکرا ٹکرا کر ہلکان ہوا جاتا ہے۔ مہکتی چہکتی زندگی کی آغوش میں نسلِ آدم فی الواقع زندہ رہنا بھی بھول گئی ہے۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے خصوصی ترجمان نے کارونا پھیلانے کا الزام ان تین سو امریکی فوجیوں کے سر تھوپا جو ان کے ملک آئے تھے۔ امریکی حکومت نے اس پر شدید اظہار برہمی کیا، بلکہ حیاتیاتی ہتھیار کا داؤ الٹا ان کے سر ہی تھوپ دیا ہے۔اگر چینی موقف صحیح ہے اور بادی النظر میں اس کے غلط ہونے کا کوئی سبب نہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ اب جنگی انداز بدل چکے ہیں۔ ایٹمی ہتھیار استعمال ہونے کا کہیں ہرگز کوئی خدشہ نہیں۔ خدشہ ہو بھی تو کیوں؟ ہر قابل ذکر ملک اعلانیہ یا غیر اعلانیہ جوہری بم اپنی دسترس میں لئے پھرتا ہے۔ اگر ایک ملک، خواہ! کوئی بھی ہو، نے حماقت کی تو پوری دنیا بھک سے اُڑ جائے گی!
”کارونا“ وائرس نمودار ہوا تو گمان میں آیا کہ بلیاں، چوہے، چمگادڑ، کتے اور خنزیر تو یار لوگ برسوں سے کھاتے چلے آتے ہیں۔ اب کے ہی یہ وبا کیوں پھوٹی؟ ہو نہ ہو، یہ ایک بڑی سازش ہے۔ اگر چین کا نقطہ ء نظر صد فی صد صحیح نہیں تو صد فیصد غلط بھی نہیں۔ اس اندازِ فکر کی تائید و توثیق میں ایک سے ایک بڑھ کر بیسیوں سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ پہلے روز ہی دھیان میں یہ بات کیوں آئی؟ ”زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو“ والی حقیقت ہمیشہ ناقابل تردید ٹھہری ہے!
اس کا ایک پہلو موجودہ انسان کا اپنی ایجادات اور سائنسی کارناموں پر بہت مغرور ہونا بھی ہے۔ یہ اپنے تئیں خدا سمجھنے کے خلل میں مبتلا ہو گیا تھا۔ قدم قدم باغیانہ! قدرت نے قبل ازیں اسے چھوٹے موٹے جھٹکے دیئے، جب دماغ درست نہیں ہوا ”کارونا“ کا ہیبت ناک چہرہ اُبھرا۔ یہ وائرس دنیا برباد کرنے بالکل نہیں آیا، بلکہ بربادی کی فقط مکروہ جھلک دکھانے آوارد ہو اہے۔ امکانی طور پر اس سے حفاظت کا سامان جلد ہی ہاتھ لگا چاہتا ہے۔ متکبر انسان کی بے بسی و بے کسی تاہم دیکھنے کی چیز ہے۔ یہ ایک نہایت مختصر دورانیے کا بحران یا عذاب ہے جو اتنا نہیں کہ خدانخواستہ ہم جینا ہی چھوڑ دیں۔ ”کارونا“بس اچھلتا کودتا ایک خوف ہے، موت کا سایہ نہیں۔ اسے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی اچھالا گیا اور اچھالا جا رہا ہے۔ موت تھوڑی، خوف زیادہ! خوف حالانکہ موت سے سخت اور جان لیوا ہے۔
جرمنی کی ہمبرگ یونیورسٹی نے صرف جنوری، فروری کے دوران مختلف بیماریوں میں مرنے والوں کے اعدادوشمار گنوائے ہیں، جس میں متاثرین کارونا آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ چھ سات ارب کی آبادی میں محض پانچ چھ ہزار! ہر روز سردی و گرمی، بھوک، پیاس، عدم علاج اور دیگر وباؤں سے ہزاروں افراد لقمہ ء اجل بن جاتے ہیں۔ ان دو مہینوں میں خودکشی کرنے والون کی تعداد ہی ایک لاکھ چون ہزار کے لگ بھگ ہے۔
بلاشبہ اکرونا، طبعی و غیر طبعی سے قطع نظر موذی مرض ہے۔ اس سے بچنا اور بچانا ناگزیر ہے۔ امر واقعہ لیکن یہ ہے کہ ہم کچھ زیادہ ہی خوف میں مبتلا ہو گئے یا کر دیئے گئے ہیں۔ خواہ! کچھ بھی ہو، ایک نکتہ پیش نظر و قابل توجہ ہے کہ آخر مہلک جراثیم اور نئی وضع کی بیماریاں غیر مسلم دنیا سے ہی کیوں برآمد ہوتی ہیں؟حشر سے پہلے ایک حشر! بے احتیاطی سے گھبرا کے نہیں،احتیاط کے ساتھ مسکرا کے جیو!