سلمان غنی کا صحافتی سفر
جنرل پرویز مشرف پاکستان کے حکمران تھے۔ ایک سیاسی سیٹ اپ بنانے کی کوشش ہو رہی تھی۔سیاسی راہنماؤں پر زور ڈالا جا رہا تھا کہ وہ جنرل صاحب کی پسندیدہ پارٹی کا حصہ بنیں۔ایک دن میاں یٰسین وٹو کے صاحبزادے جاوید وٹو میرے پاس تشریف لائے انہوں نے کہا کہ میاں صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں اور کچھ مشورے بھی کرنے ہیں۔ جاوید وٹو میرے بھائیوں جیسے دوست تھے اس لئے میاں یٰسین وٹومجھ سے غیر معمولی شفقت کرتے تھے۔ وہ میرے دست شناسی کے شوق سے بھی آگاہ تھے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کے پرنٹ بھی دیئے تھے اور کبھی کبھار اس حوالے سے گپ شپ بھی ہوتی تھی۔ ایک دن مغرب کے بعدان کی فریدکورٹ ہاؤس والی رہائش گاہ پر گئے۔ چھت پر چارپائیاں لگی ہوئی تھیں۔میاں صاحب روایتی تپاک سے ملے۔چائے آ گئی
میاں یٰسین وٹو نے بتایا کہ ان پر جنرل صاحب کی پسندیدہ سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کے لئے بے پناہ دباؤ ہے۔انہوں نے جیلیں بھگتی ہیں مگر اب عمر کا ایسا حصہ ہے جس میں یہ ایڈونچر مشکل نظر آتا ہے۔ اس وقت میاں نوازشریف جدہ جا چکے تھے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا اب تو آپ کے قائد محترم ہی پاکستان سے چلے گئے ہیں تو اس میں آپ کو کیا رکاوٹ ہے؟ اس پر انہوں نے کہا ”گھوڑا میدان میں صرف سوار کی عزت کے لئے نہیں دوڑتا۔ اسے اپنی عزت بھی عزیز ہوتی ہے۔“
اوکاڑا ایک عجیب ضلع ہے۔ ایک حیرت انگیز خطہ زمین۔ یہ احمد خاں کھرل کا علاقہ ہے جس نے اس وقت انگریزوں کے خلاف آواز اٹھائی جب سلطنت برطانیہ سورج کو اپنی مملکت میں غروب ہوتے دیکھنا برداشت نہیں کرتی تھی۔ رحیم یار خان کے ایک وفاقی وزیر نے یہاں آ کر کہا تھا کہ میں اوکاڑاکے عوام کو دیکھنے کے لئے آیا ہوں، جو جسے منتخب کرتے ہیں وہ وزیر بن جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاست اوکاڑاسے چلتی ہے۔ بھٹو اسے پنجاب کا لاڑکانہ قرار دیتے رہے ہیں۔ آپ کو اوکاڑامیں جیسی سیاسی بصیرت ملتی ہے، ویسی آپ کو کہیں نظر نہیں آتی۔ یہاں لوگ سب کچھ بہترین کرنا جانتے ہیں۔سیاست میں یہ صف اول میں نظر آتے ہیں توزراعت میں جدیدترین ہیں۔ سب سے زیادہ آلو ہی اوکاڑامیں پیدا نہیں ہوتے بلکہ ایشیا کا سب سے بڑا آلو پیدا کرنے والا کاشتکاراوکاڑاسے ہے۔ وفا اور محبت کرنے میں تو کمال کر دیتے ہیں۔میں نے اوکاڑامیں پانچ سال سرکاری ملازمت کی۔میں اوکاڑاسے مدتوں پہلے نکل آیا ہوں مگر اوکاڑامیرے اندر سے نہیں نکلا۔ اب بھی بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اوکاڑامیرے اندر آباد ہے۔دوران ملازمت جب کوئی شخص مجھے آ کر یہ کہتا تھا کہ میں اوکاڑاسے آیا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی تھی کہ اسے یقین ہوتا تھا کہ اوکاڑاسے میرا تعلق اسے یہ حق دیتا ہے کہ وہ مجھے اپنے کام کے لئے کہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اوکاڑامیں وقت گزارنے کا موقعہ ملا۔اسی شہر بے مثال میں میری سلمان غنی صاحب سے ملاقات ہوئی اور پھر ہماری دوستی ہو گئی۔ اور اب تو اس کی مدت ساڑھے تین عشرے سے بڑھ گئی ہے۔ سلمان غنی صاحب تب ایک سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ غیرمعمولی سیاسی شعور رکھتے تھے۔ ان کے والد ڈاکٹر عبدالغنی جماعت اسلامی اوکاڑا کے امیر تھے۔شہر میں ان کا غیرمعمولی احترام تھا۔ سلمان غنی صاحب کی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں توان کی زندگی میں اوکاڑا کا وینس چوک بہت اہم نظر آتا ہے۔ اوکاڑا کے وینس چوک کی جہازی سائز کی چارپائی اوکاڑا کی سیاست اور صحافت کا مرکز تھی۔ یہاں رات گئے مجلس جاری رہتی تھی۔یہاں عام طوپر ایسی خبریں زیربحث آتی تھیں جو چند ہفتوں بعد اسلام آباد اور لاہور کی عملی سیاست کے واقعات بنتی تھیں۔ اوکاڑا کے وینس چوک کے سپ ُرکنگ سائز کے منجے نے سلمان غنی صاحب کو صحافت کے شوق میں مبتلا کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اس کے بعد نوائے وقت سے منسلک ہو گئے اور انہوں نے اپنے صحافتی کمالات کے مظاہرے کئے۔ خبر کے ساتھ ان کے عشق نے انہیں نوائے وقت کا چیف رپورٹر بنا دیا۔ ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے ذریعے انہوں نے حکومت اور اپوزیشن کا احترام حاصل کیا۔ چوہدری عارف کبھی کبھی ان کے جوہر ٹاؤن کے دس مرلہ گھر کی تعمیر کی داستان بیان کرتے ہیں جس میں حرام کی ایک اینٹ بھی نہیں لگی۔ انہوں نے اپنی اولاد کو لقمہ حلال کھلانے کے لئے بے پناہ محنت کی اور ان کے بیٹوں سے مل کر رزق حلال کے فلسفے کی برکت کی سمجھ آتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رپورٹنگ ان کی صحافتی ذمہ داری رہی اور انہوں نے اسے خوب نبھایا۔ میاں نوازشریف بھی ان کے اس صحافیانہ کردار کی خاص طور پر تعریف کرتے ہیں۔ جس کا مظاہرہ انہوں نے اس وقت کیا تھا جب کلثوم نوازشریف احتجاج کے لئے نکلی تھیں تو ان کی کار کو سرکاری اہلکاروں نے اٹھا کر عالمی میڈیا کی خبر بنا دیا تھا۔ مگر پاکستان میں اس کی جرات مندانہ رپورٹنگ کرنا صرف سلمان غنی کا کام تھا۔
کہتے ہیں کہ جو لڑکی اپنی عمر درست بتاتی ہو اس سے محبت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ کسی کو کچھ بھی بتا سکتی ہے۔ سلمان غنی صاحب کوخبر کا اتنا کریز ہے کہ لڑکیاں بھی صرف انہیں ہی خبر بتانے کا رسک لیتی ہیں۔ کیونکہ سلمان غنی صاحب اتنے دبنگ ہیں کہ غلط کام نہیں کر سکتے۔ حکمرانوں سے ان کے قریبی تعلقات رہے مگر کسی کو انہیں کرپٹ کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ کیونکہ سب کو یقین تھا کہ حکمرانوں کی عزت بھی ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے اور سلمان غنی صاحب کو ایسی کوئی آفر ان کی عزت کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ سچی بات ہے کہ اس معاملے میں وہ ہمارے استاد وارث میر مرحوم کی طرح ہیں جنہیں ایک وائس چانسلر نے کہا تھا کہ میر صاحب آپ میں چغلی کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، تو کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔ آپ بات اپنے گھر کے لان میں کر رہے ہوتے ہیں اور سنائی وہ وائس چانسلر ہاؤس میں دے رہی ہوتی ہے۔ سلمان صاحب خبر دیتے ہیں اور پوری دیانت دارری سے دیتے ہیں۔ وہ اب ٹی وی پر تجزیئے کرتے ہیں مگر ان کے تجزیوں میں بھی خبریں ہوتی ہیں۔ اوکاڑا کا وینس چوک ان کے صحافتی لاشعور کا حصہ بن چکا ہے۔
پنجاب میں ایک گورنر بھی ہوتا ہے۔ گورنر عام طور پر اچھی اچھی باتیں کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ مگر پنجاب کے موجودہ گورنر بلیغ الرحمن اچھے کام کرنے سے بھی پرہیز نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے حسن کارکردگی پر سلمان غنی صاحب کو رپورٹر ایوارڈ دیا تو کچھ حیرانی سی ہوئی۔ کیونکہ اس سے پہلے سلمان غنی صاحب بہت سے سرکاری عہدے قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ مگر جناب بلیغ الرحمن نے نجانے انہیں کیسے قائل کر لیا کہ یہ ایوارڈ صرف اور صرف عزت کے لئے ہے اور کوئی عزت دے تو اسے قبول کر لینا چاہیے۔ سلمان غنی صاحب کے حسن کارکردگی کے ایوارڈ کے بعد خبر آئی ہے کہ وفاقی حکومت انہیں صدارتی ایوا رڈ بھی دے رہی ہے۔ ہم اس پر انہیں مبارکباد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان کا صحافتی سفر اسی دبنگ انداز میں جاری رہے گا جس پر ہم ان پر فخر کرتے ہیں۔