جاپانی قوم اور عسکریت (6)
3نومبر 1941ء کو پرل ہاربر پر حملے کے پلان کی منظوری دی گئی۔ یاماموتو نے ناگوما کی ٹاسک فورس کو پرل ہاربر کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔ چونکہ اس حملے کا ایک ایک لمحہ تاریخ میں ریکارڈ شدہ ہے اس لئے ہم اس پر زیادہ ”زور بیان“ صرف نہیں کریں گے۔ صرف اتنا بتائیں گے کہ ناگوما کی ٹاسک فورس چوری چھپے پہلے شمال کی طرف گئی اور پھر وہاں سے جنوب کی طرف پرل ہاربر پر حملہ آور ہوئی۔
7دسمبر 1941ء کا دن تھا جب یاماموتو کے بیڑے نے پرل ہاربر پر حملہ کیا اور امریکہ نے جاپان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ کہتے ہیں اس دن وزیراعظم چرچل خوشی سے پاگل ہو کر دیوانوں کی طرح ناچنے لگا تھا اور کہتا جاتا تھا ”اب جرمنی کی شکست نوشتہ ء دیوار ہے۔ اتحادی فتوحات کو اب کوئی نہیں روک سکتا“۔
پرل ہاربر کے بعد جاپانی فتوحات کا سیل رواں پھیلتا چلا گیا۔ پرل ہاربر سے بحرہند تک اور جزائر ماری آنا سے بحیرۂ جاوا تک یاماموتو کے کمبائنڈ فلیٹ کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔ جاپانی حکومت کی بحری حکمت عملی یہ تھی کہ جاپانی فلیٹ کو جاپانی سرزمین کے آس پاس لنگر انداز رکھا جائے اور دشمن کی آمد کا انتظار کیا جائے۔ یاماموتو اس سے متفق نہ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ دفاعی حکمت عملی ہے اور کوئی بھی جنگ دفاعی سٹرٹیجی سے عارضی طور پر روکی تو جا سکتی ہے،جیتی نہیں جا سکتی۔اس لئے اس کا استدلال تھا کہ امریکی فلیٹ کو پہلے بحرالکاہل میں شکست دی جائے اور جزیرہ مڈوے (Midway) پر قبضہ کیا جائے۔ جب مڈوے پر قبضہ کیا جا رہا ہوگا تو امریکہ کی طیارہ بردار ٹاسک فورس پرل ہاربر سے نکل کر ادھر کا رخ کرے گی۔ یہی وقت ہوگا کہ ایک فیصلہ کن لڑائی میں امریکی طیارہ برداروں کو برباد کر دیا جائے۔ جب ایسا ہو جائے گا تو جاپانی بحریہ بلا روک ٹوک اور بے دھڑک بحرالکاہل کے وسیع و عریض پانیوں میں آپریٹ کرسکے گی اور جہاں جس جزیرے اور جس ملک پر چاہے گی اپنے زمینی ٹروپس اتار سکے گی۔
تاہم یاماموتو کی اس سٹرٹیجی کے بارے میں جاپانی بحریہ کا جنرل سٹاف کوئی فیصلہ نہ کر سکا تاآنکہ 18اپریل 1942ء کا وہ دن آ گیا جب امریکی جنرل ڈولٹل (Doolittle) کے بی 25 طیاروں نے اپنے طیارہ بردار ہورنٹ (Hornet) سے اڑ کر ٹوکیو اور جاپان کے دوسرے بڑے شہروں پر بمباری کر دی۔(ان امریکی بمباروں کی تعداد 16تھی) تب جاپانی جنرل سٹاف کو ہوش آیا کہ یاماموتو ٹھیک ہی کہتا تھا۔ اس امریکی فضائی حملے سے یاماموتو اتنا بددل ہوا کہ سارا دن اپنے کیبن میں بند رہا اور کسی سے کوئی بات چیت نہ کی۔ بحریہ کے جنرل سٹاف کو آخر کار مڈوے آپریشن کی منظوری دینی پڑی۔
مڈوے کی لڑائی
پرل ہاربر پر جاپانی حملہ اگرچہ کامیاب ہو گیا تھا، لیکن وہاں جاپانی فورسز قبضہ نہیں کر سکی تھیں۔ جزائر ہوائی کی اس بندرگاہ میں ابھی کافی امریکی جہاز لنگر انداز تھے اور جب تک ان کو برباد نہ کر دیا جاتا، تب تک امریکی بحریہ کی کمر نہیں توڑی جا سکتی تھی۔ یاماموتو کا اصرار تھا کہ اگر مڈوے پر حملہ کر دیا جائے تو پرل ہاربر میں لنگر انداز امریکی فلیٹ کو کھلے سمندر میں آنا پڑے گا۔
جب جاپانی بحریہ کا جنرل سٹاف، مڈوے کی لڑائی کی آپریشنل پلاننگ کر رہا تھا تو یاماموتو کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ امریکہ، جاپانی بحریہ کا مواصلاتی کوڈ توڑ چکا ہے اور جاپان کے سارے پلان اب امریکی بحریہ پر کھلی کتاب کی طرح عیاں ہیں۔ امریکہ کو معلوم تھا کہ جاپان، جون 1942ء کے پہلے ہفتے میں مڈو ے پر ایک بڑا بحری حملہ کرے گا، چنانچہ امریکی بحریہ اس کے لئے تیار ہو گئی…… جاپان ناگہانیت (Surprise) سے محروم ہو چکا تھا۔
مڈوے کی بحری لڑائی دوسری جنگ عظیم کی فیصلہ کن اور اہم ترین لڑائیوں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے، اس لئے ہم تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ اس لڑائی کا حال قارئین کے سامنے رکھنا چاہیں گے۔ بحرالکاہل دنیا کا سب سے بڑا سمندر ہے اور اس میں چھوٹے بڑے ہزاروں جزیرے پائے جاتے ہیں جن کی اکثریت آج بھی امریکیوں کے کنٹرول اور قبضے میں ہے۔ جزیرہ مڈوے (Midway)بھی ان میں سے ایک ہے۔ یہ جزیرہ، ہوائی (Hawaii) سے ایک ہزار میل مغرب میں واقع ہے۔
پرل ہاربر پر حملے کے بعد جب 1942ء کا آغاز ہوا تو جاپانی فضائی اور زمینی افواج یکے بعد دیگرے کئی ممالک اور بحرالکاہل کے کئی جزیروں پر قابض ہو گئیں۔ یاماموتو نے مئی 1942ء میں مڈوے پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرنے کا پلان بنایا۔ اواخر مئی 1942ء میں اس نے ایک جاپانی بحری ٹاسک فورس دشمن کی توجہ پلٹنے کی غرض سے شمال میں جزائر ایلی اوشن (Aleution) کی طرف بھیجی جبکہ مڈوے پر حملہ کرنے کے لئے ایک بڑی ٹاسک فورس جزائرایلی اوشن کے عین جنوب کی طرف روانہ کر دی۔ اس کی قیادت وہی ایڈمرل ناگومو کررہا تھا جس نے پرل ہاربر پر حملے کی قیادت کی تھی۔ یہ فورس 88جنگی جہازوں پر مشتمل تھی جن میں جاپان کے چار بڑے طیارہ بردار بھی شامل تھے۔ جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا گیا، امریکیوں کو اس حملے کی خبر مل چکی تھی اور امریکی ایڈمرل چسٹرنمٹز نے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری کی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی دوٹاسک فورسز کو تیار رکھا ہوا تھا۔ ایک کا نام نمبر16ٹاسک فورس تھا جو ایڈمرل سپرانس (Spruance) کے زیر کمان تھی اور دوسری کا نام نمبر18ٹاسک فورس تھا جو ایڈمرل فلیچر (Fletcher) کی کمان میں تھی۔ امریکہ کے تین بڑے طیارہ بردار اس فورس میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ جزیرہ مڈوے پر امریکہ کے بہت سے طیارے بھی رکھے رہتے تھے جنہوں نے اس ٹاسک فورس میں شامل ہو کر اس آپریشن میں حصہ لینا تھا۔
جاپانی بحری بیڑے میں جو بڑے بڑے چار طیارہ بردار تھے ان کے نام کاگا (Kaga) آکاگی (Akagi) ہیریو (Hiryu) اور سوریو (Soryu) تھے جبکہ امریکی طیارہ برداروں میں انٹرپرائز، یارک ٹاؤن اور ہورنٹ شامل تھے۔
3جون 1942ء کو جاپانی فلیٹ ابھی مڈوے سے 500میل دور مغرب میں تھا کہ امریکی ایڈمرل نمٹز نے مڈوے پر مقیم طیاروں کو حکم دیا کہ وہ جاپانی ٹاسک فورس پر حملہ کر دیں۔ لیکن یہ حملہ ناکام ہوا اور جاپانی فورس کو کچھ نقصان نہ پہنچا۔ اگلے روز 4جون 1942ء کو 108جاپانی طیاروں نے مڈوے پر حملہ کیا اور جزیرے کی عسکری تنصیبات کو خاصا نقصان پہنچایا۔ اس کے مستقر پر جو 25طیارے رکھے ہوئے تھے، ان میں سے 15کو تباہ کر دیا گیا۔ اب امریکیوں کی باری تھی۔ 10امریکی تارپیڈو بمباروں نے جاپانی فلیٹ پر پہلا حملہ کیا۔ یہ حملہ بھی ناکام ہوا اور جاپانی طیارہ شکن توپوں نے دشمن کے دس میں سے سات طیارے مار گرائے۔ اس کے بعد امریکی فورس نے دوسرا حملہ کیا۔ اس حملے میں بھی جن 27غوطہ خور بمباروں نے حملہ کیا تھا، ان میں سے 8کو مار گرایا گیا جبکہ کسی جاپانی بحری جنگی جہاز کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ آخری اور تیسرا امریکی حملہ جو مڈوے کے فضائی مستقر سے جاپانی فلیٹ پر کیا گیا اس میں پندرہ بی 17طیاروں نے حصہ لیا۔ لیکن جاپان کے کسی ایک طیارہ بردار کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچا۔ اس کے بعد ایک بار پھر تینوں امریکی طیارہ برداروں پر سے تارپیڈو بمباروں کو حملے میں بھیجا گیا لیکن جاپان کی ٹاسک فورس نے 41میں سے 35امریکی طیاروں کو مار گرایا۔
پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جب یہ لڑائی ہنوز جاری تھی اور جاپانی طیارہ شکن توپیں امریکی بمباروں کو مار گرا رہی تھیں تو یارک ٹاؤن اور انٹرپرائزسے 54غوطہ لگا کر حملہ کرنے والے بمباروں نے آخر کار وہ کامیابی حاصل کرلی جس نے اس لڑائی کو تاریخ کی ایک یادگار لڑائی بنا دیا۔ البتہ تیسرے امریکی طیارہ بردار ہورنٹ (Hornet) سے جو طیارے اڑائے گئے تھے وہ اپنا ہدف تلاش نہ کر سکے۔ جاپان کے چار میں سے تین طیارہ برداروں (آکاگی، کاگا اور سوریو) کے عرشوں پر سے ابھی ہوائی جہاز ٹیک آف کرنے کو تیار ہی ہو رہے تھے کہ امریکی بمباروں کا غول نمودار ہوا۔ یہ امریکی حملہ اتنا شدید تھا کہ تینوں جاپانی طیارہ بردار صرف پانچ منٹ کے اندر اندر غرقاب ہو گئے۔ ان پانچ منٹوں نے گویا پوری جنگ کا نقشہ تبدیل کر دیا…… جاپان کا چوتھا طیارہ بردار ہیریو بھی 4جون 1942ء کی شام کو ایک اور امریکی حملے میں غرق کر دیا گیا۔ تاہم اس طیارہ بردار سے اس کی غرقابی سے کچھ ہی پہلے جاپانی طیاروں نے اڑ کر امریکی طیارہ بردار یارک ٹاؤن کو ناکارہ بنا دیا۔(جاری ہے)