اعتماد کی طاقت اور اہمیت!!

      اعتماد کی طاقت اور اہمیت!!
      اعتماد کی طاقت اور اہمیت!!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اعتماد ایک ایسی طاقت ہے،جو فرد، افراد اور معاشروں کو اس قدر مضبوط کر دیتی ہے، کہ وہ ان دیکھے رب کے ہر حکم کو بجا لانے اور اسے اپنا معبود بنانے پر تیار ہو جاتے ہیں، پھر ایسے افراد اور معاشرے آپسی معمولات اور معاملات میں بھی ایک دوسرے پر اعتبار اور یقین کرتے ہیں، اِس دنیا میں اربوں اور کھربوں ڈالر کے سودے بھی اعتبار پر ہی ہوتے ہیں۔ مالدار لوگ اپنے کروڑوں اور اربوں بینکوں میں رکھتے ہیں۔ یہ سب اعتماد ہوتا ہے۔ جب کسی ملک یا معاشرے کے لوگوں کا ایک دوسرے پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے تو پھر وہ ملک یا معاشرہ افراتفری اور بے یقینی کا شکار ہو کر ڈوبنے لگتا ہے۔یہ اعتماد کیسے قائم ہوتا ہے اور اس کو تعمیر کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ سب سے پہلے انسانوں کے جوڑے کو  اپنی اسی کمزوری کی وجہ سے جنت سے نکلنا پڑا تھا۔ کیونکہ ان کے خالق نے انہیں صرف ایک چیز سے منع فرما کر پوری جنت ان کے حوالے کی مگر شیطان نے ان کے دِلوں میں وسوسہ ڈالا کہ اس درخت کے ساتھ پتا نہیں کیا کچھ ہے، اس سیارہ زمین پر اعتماد کی بنیاد انبیاء  علیہ السلام نے رکھی تھی، جنہوں نے اللہ کے رب کائنات ہونے کا یقین دلایا اور ایسی نشانیاں دکھائیں کہ انسان کا اپنے رب پر ایمان قائم ہو جائے۔

آج کی دنیا کو دیکھیں تو جن جن ممالک اور معاشروں میں اعتماد کی فضاء ہے وہاں زندگی آسان ہے اور ان ممالک میں خوشحالی ہے۔ آج کی دنیا کے اندر حکمرانوں اور راہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے افراد میں اعتماد کی فضا قائم کریں۔  جب افراد کو اپنے حکمرانوں پر اعتبار ہوتا ہے تو پھر افراد کے اندر بھی خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ لالچ کم ہوتا ہے اور جب ریاست اپنے افراد کی بنیادی سہولیات کی ذمہ داری لے لیتی ہے تو پھر افراد ہیرا پھیری اور دھوکہ دہی کے مرتکب نہیں ہوتے   ذرا رکیے، فرض کریں کہ ریاست ذمہ داری نہیں لے رہی اور ہمارے حکمران بھی بددیانتی اور بدعنوانی میں ملوث ہیں، تو پھر کیا ہم سب کو بھی بے ایمان اور بددیانت ہو جانا چاہئے؟ کیا ہمارے ملک میں یہی کچھ نہیں ہو رہا ہے؟ ہمارے معاشرے میں کوئی کسی پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے اکثر مرد اپنی بیویوں پر بھی اعتماد نہیں کرتے اور انہیں دوسرے مردوں سے چھپا چھپا کر رکھتے ہیں، اپنی بیویوں کو اکیلے میں کہیں باہر نہیں جانے دیتے ہیں۔ ہماری اکثر خواتین اعلی تعلیم حاصل کر لیتی ہیں، مگر اس کا فائدہ خود اُٹھا سکتی ہیں نہ اپنے خاندان اور ملک کو اپنی تعلیم سے مستفید کر سکتی ہیں، کیونکہ انہیں گھر سے نکلنے کی اجازت ہوتی ہے نہ کہیں کام کرنے کی، آپ کو ایک بات بتاؤں؟ جو لوگ دوسروں پر اعتماد نہیں کرتے دراصل وہ خود بے اعتمادی کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اگر انسان کو اپنے اوپر اعتماد ہو،انسان خود ایماندار ہو تو اسے دوسروں پر اعتماد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ خود کو ایک اچھا مرد اور بہت اچھا خاوند سمجھتے ہیں تو پھر آپ کو اپنی بیوی پر پورا اعتماد ہونا چاہئے،اسی طرح جب آپ دوسروں کے ساتھ لین دین کرتے ہیں تو آپ کو اپنے اوپر اعتماد کرنا چاہئے۔ آپ خود ایماندار اور عقلمند ہیں تو کوئی آپ کو آسانی سے دھوکہ نہیں دے سکتا ہے اور اگر کوئی دھوکہ دیتا ہے تو آپ اس کا جواب دینے کی ہمت رکھتے ہیں تو حساب برابر کر لیں گے۔ حاصل گفتگو یہ کہ اعتماد دوسروں پر نہیں خود پر ہوتا ہے۔

ہمارے شہر بھمبر میں ایک نوجوان سڑک کے کنارے پر کینووں اور فروٹر کا ڈھیر لگا کر سارا دن بیچتا ہے اور شام کو بچے ہوئے کینووں کے اوپر پلاسٹک ڈال کر اس کے اطراف میں اینٹیں رکھ کر گھر چلا جاتا ہے، کیونکہ اسے اعتماد ہے کہ رات کو کوئی میرے کینو چوری نہیں کرے گا۔ اگلی صبح واپس آتا ہے اور پلاسٹک اُٹھا کر پھر کینو بیچنے لگتا ہے۔ ہم اکثر ناروے جیسے ملک کی تعریفیں کرتے ہیں کہ وہاں لوگ اپنے مال سڑکوں پر رکھ کر چلے جاتے ہیں ساتھ قیمت لکھ کر پیسوں کا ڈبہ یا اپنا اکاونٹ نمبر لکھ دیتے ہیں۔ گاہک ایمانداری سے چیز اٹھاتا ہے اور ادائیگی کر جاتا ہے، لیکن اب میں ناروے کے قریب قریب کا یہ منظر بھمبر میں دیکھ رہا ہوں۔ یہ ہوتا ہے اعتماد، میرے شہر میں اعتماد کی ایک اور مثال پیش کرتا ہوں۔ میں اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محبوب صاحب ایک اتوار کو ماڈل ٹاؤن بھمبر کے اندر واک کر رہے تھے تو ہمیں ایک بندہ سائیکل پر گزرتے ملا جسے ڈاکٹر صاحب جانتے تھے۔ وہ سلام دعا کر کے چلا گیا میں نے اسے پہلے اور بعد میں بھی کئی بار سائیکل پر پھرتے دیکھا، پھر ایک دن وہ میرے پاس آ کر رکا اور مجھے بہت محبت سے ملتے ہوئے بتایا کہ اسے اب میری پہچان ہوئی ویسے وہ بہت پہلے سے مجھے جانتا تھا۔ اُس نے اپنا تعارف بہت پُراعتماد طریقے سے کرواتے ہوئے اپنا نام اور اپنی ذات لوہار بتائی اور کہا کہ  فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے ایک قریبی رشتہ دار ٹھیکیدار کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ مجھے اس کے اندر بلَا کا اعتماد نظر آیا، کیونکہ میں نے کئی بڑی بڑی گاڑیوں والوں اور اونچی ذات کہلانے والوں میں اعتماد کی شدید کمی محسوس کی ہے اور ایک سائیکل والے میں اس قدر اعتماد دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی اور میں نے خود ان صاحب سے چند منٹ کی ملاقات میں بہت کچھ سیکھ لیا۔ یہ دو مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے۔ کہ ہم سب کو احساس کمتری اور بے اعتمادی کے ماحول سے نکلنا ہو گا۔ ہمیں دوسروں کی گاڑیوں، لباسوں اور جائیدادوں سے مرعوب ہونا چاہئے نہ خود پر امارت کی جھوٹی چادر لپیٹنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں خود پر اور پھر دوسروں پر اعتماد کرنا چاہئے تاکہ ہمارے معاشرے میں اعتماد کی فضاء بحال ہو سکے۔ ہمیں کسی بھی حال میں جھوٹ، دھوکہ دہی اور وعدہ خلافی سے گریز کرنا چاہئے۔ ہمیں وقتی معمولی فائدے کے لئے ایسا کوئی کام یا حرکت نہیں کرنی چاہئے، جس سے سینکڑوں لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے۔

ہمارے ملک میں پچھلی چند دہائیوں سے ایسے حالات پیدا کئے گئے، جس سے پورے معاشرے کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ عوام کو اپنے راہنماؤں پر اعتماد ہے نہ راہنماؤں کو عوام پر، اسی طرح ریاستی اداروں پر سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو چکا ہے، اس اعتماد کو واپس لانے کے لئے حکمرانوں اور اداروں میں بیٹھے لوگوں کو اپنے رویوں، اپنی کارکردگی اور اپنے فیصلوں میں بہتری لانا ہوگی اور عوام تک درست معلومات پہنچانے کے لئے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔

مزید :

رائے -کالم -