حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر45

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر45
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر45

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں حسبِ حکم جوں توں کر کے اُس چھت پر چڑھ گیا مگر میں پھر بھی اطراف میں لگے ہوئے کئی کھجور کے درختوں سے نیچا تھا۔ سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ عبداللہؓ کے بتائے ہوئے الفاظ میرے ذہن میں نہیں آ رہے تھے۔ سب لوگ مسجد کے صحن سے، جہاں چھت نہیں تھی، میری طرف دیکھ رہے تھے اور منتظر تھے۔ مگر وہ الفاظ، پہلے کیا تھا، اللہ کی توصیف، پیغمبرِ اسلامؐ کی شہادت، نماز کی دعوت سب کچھ گڈمڈ ہو گیا تھا۔ سب مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ رسالت مآبؐ تیسرے ستون کے پاس کھڑے تھے۔ اُن کی نظریں بھی مجھ پر تھیں۔ ابوبکرؓ اور عمرؓ اُن کے قریب کھڑے تھے۔ عمرؓ تو یوں لگتا تھا کہ آدھے ستون تک پہنچے ہوئے ہیں۔ اُن کے ساتھ سعد بن خثیمہؓ تھے جنہوں نے مدینے آمد پر مجھے اپنے یہاں مہمان ٹھہرایا تھا۔ پھر نبی کریمؐ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور مجھے اس انداز سے اشارہ کیا گویا مجھے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر بلند کر رہے ہوں۔ اسی لمحے مجھے اپنی آواز سنائی دی۔ پہلے بہت دور سے اور پھر آہستہ آہستہ قریب آتی ہوئی۔

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر44 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اللہ اکبر اللہ اکبر
اللہ اکبر اللہ اکبر
اشہدان لا الہ الا اللہ
اشہدان لا الہ الا اللہ
اشہدان محمدؐ رسول اللہ
اشہدان محمدؐ رسول اللہ
حیّ علی الصلوۃ
حیّ علی الصلوۃ
حی علی الفلاح
حی علی الفلاح
اللہ اکبر اللہ اکبر
لا الہ الا اللہ
تمام عالمِ اسلام میں ہر روز پانچ دفعہ یہ الفاظ فضا میں گونجتے ہیں بلکہ مختلف ملکوں میں طلوع و غروب کے اوقات کے فرق کی وجہ سے شاید ہی کوئی لمحہ ایسا ہو جب دنیا کے کسی نہ کسی حصے سے اذان کی آواز نہ بلند ہو رہی ہو۔ مگر یہ ہماری پہلی اذان تھی۔ میں اذان دے کر نیچے اُترا تو حضورؐ نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ اللہ کا رسولؐ اور ایک غلام زادہ۔ چاروں طرف لوگ اِدھر اُدھر آ جارہے تھے۔ اذان کی آواز سن کر محلے کے بہت سے بچے اکٹھے ہو گئے تھے جنہوں نے مجھے چھت پر کھڑے دیکھا اور اب میری طرف اشارے کر کر کے ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہے تھے۔ اُن کے لئے یہ ایک عجوبہ تھا۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ بہت دیر تک حضورؐ نے کچھ نہیں فرمایا۔ میں بھی ایک عجیب سرور سے سرشار تھا۔ اتنے میں میں آپﷺ کی آواز پر چونکا:
’’بلال، تم نے میری مسجد مکمل کر دی۔‘‘
ان الفاظ پر میں نے وہیں شکرانے کے دو نفل ادا کیے۔ بلالِ حبشی نے اپنی زندگی کا مقصد پا لیا تھا۔ لوگ اگر میرے بارے میں سب کچھ فراموش کر دیں، اور ویسے بھی میرے پاس یاد رکھے جانے کی کیا بات ہے مگر پھر بھی میں اسلام کے پہلے مؤذن کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کیا جاؤں گا۔
پہلی اسلامی مملکت
مدینے میں ہجرت سے پہلے کوئی مملکت نہیں تھی کہ نظم و نسق کے لئے پہلے سے بنے ہوئے قوانین اور قواعد میں تھوڑا بہت ردوبدل کر کے کام چلا لیا جاتا۔ صرف قبیلے ہی قبیلے تھے جو ایک دوسرے سے سر بہ گریباں رہتے تھے۔ باہمی حسد اور بغض و عناد اتنے گہرے تھے کہ اُن کی تمام صلاحیتیں سلب ہو کر رہ گئی تھیں۔ پھر یہاں غیر مسلم بھی آباد تھے۔ مدینہ کئی خوش حال یہودی قبائل کا گھر تھا۔ مذہبی بنیادوں پر قائم ہونے والی مملکت میں غیر مسلموں کے ساتھ بطورِ خاص کوئی مناسب معاملہ ضروری تھا۔ منافق بھی تھے، کمزور ایمان والے بھی۔ ایسے بھی جو ذرا فاصلے سے نئی صورتِ حال کا جائزہ لے رہے تھے کہ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ جو کچھ ہوا تھا وہ سب کے لئے اتنا نیا، اتنا چونکا دینے والا، اور اکثر کے لئے اتنا غیر متوقع تھا کہ وہ نئے حالات سے نبٹنے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ صرف ایک بات سب جانتے تھے کہ اب حالات حسبِ سابق ہرگز نہیں رہیں گے۔
سب سے پہلے تو نبی کریمؐ نے ایک ایک کر کے سب قبائلی سرداروں سے ملاقاتیں کی۔ انہیں مل جل کر رہنے کی افادیت کا قائل کیا۔ پھر سب کے ایما پر انہوں نے اس نئی شہری مملکت کا سربراہ اعلیٰ بننا قبول فرمایا۔ اس کے بعد اپنی فراست اور سب کی رضامندی سے ایک دستور مرتب کیا جو دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور تھا۔ میرا ایمان ہے کہ پہلی اسلامی مملکت کا یہ دستور ابد تک انسانی زندگی کی تہذیب کرتا رہے گا۔
سرکاری اُمور بڑھے اور نوزائیدہ مملکت کے مسائل نے سر اٹھایا تو رسولِ اکرمؐ نے فوج، عدلیہ، انتظامیہ، خزانہ، درس و تدریس، تجارت، خارجی امور وغیرہ کے ادارے قائم کئے اور ہر شعبے میں ایسی راہیں کشادہ فرمائیں جن میں باطنی جامعیت کے ساتھ ساتھ معاشی اور معاشرتی عدل تھا، جو ایسے متوازن تصورِ حیات کی عکاس تھیں کہ اس کے سامنے زندگی کا ہر متبادل تصور ہیچ دکھائی دیتا تھا اور جس میں رہتی دنیا تک ہر دور کے مسائل کو سلجھانے کی صلاحیت تھی۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ زندگی کا کاروبار تو اس سے پہلے بھی جیسے تیسے گھسٹ رہا تھا لیکن زندگی کو قرینے اور سلیقے سے گزارنے کی راہیں نکلیں تو کایا ہی پلٹ گئی۔
سب سے پہلے حضورؐ نے کاتبوں کی ایک بڑی تعداد جمع کی اور اُن کو مختلف شعبوں کے امور کی تفصیلات اور کوائف کی تحریر کا کام سپرد فرمایا۔ کچھ لوگ کاتب وحی تھے، کچھ آمدنی کا اندراج کرتے تھے کہ کس کس نے، کب کب، کتنی کتنی رقم یا جنس سرکاری خزانے میں جمع کرائی، مال غنیمت کتنا آیا اور کیسے کیسے خرچ ہوا۔ کچھ سرکاری خزانے سے پنشن پانے والوں کی تفصیلات کا ریکارڈ رکھتے تھے۔ ایک کاتب کی ذمے داری یہ تھی کہ وہ اُن بالغ لوگوں کی فہرستیں مرتب کرے جو جنگ کے لئے موزوں بھی ہیں اور ضرورت پڑنے پر فوراً جنگ کے لئے روانہ بھی ہو سکتے ہیں۔ کوئی باقاعدہ فوج تو تھی نہیں۔ یہ رضاکار تھے جو جنگ کی صورت میں حالات سے نبٹنے کے لئے ہمہ وقت مستعد رہتے تھے۔ انہیں سرکاری خزانے سے وظیفہ دیا جاتا تھا۔
امورِ مملکت کا بوجھ آ پڑا تو چند ہی ماہ میں ہماری تعمیر کی ہوئی مسجد ناکافی ہو گئی کیونکہ یہ صرف ہماری جائے عبادت نہیں تھی بلکہ مدینے میں قائم ہونے والی پہلی مملکت اسلامیہ کا صدر دفتر اور تمام ملت اسلامیہ کا دینی اور سیاسی مرکز و محور بھی تھی۔ چنانچہ مسجد کی توسیع کے لئے ہم ایک بار پھر کمربستہ ہو گئے۔ یہ توسیع اس لئے بھی ضروری تھی کہ قریبی محلوں میں جو جو مسلمان اپنی چھوٹی چھوٹی مساجد میں نماز ادا کرتے تھے، اللہ کے رسولؐ کی امامت میں نماز کی سعادت حاصل کرنے بہت بڑی تعداد میں ہماری مرکزی مسجد میں آنے لگے تھے۔ ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ کے رہنے کا مسئلہ تھا۔ ام المومنین حضرت سوداؓ اور حضورؐ کی صاحبزادیاں ام کلثومؓ اور فاطمہؓ ساتھ تھیں۔ ابھی تک آپ ﷺ ایوب خالدؓ کے مہمان تھے۔ چنانچہ مسجد میں توسیع ہوئی اور ساتھ ہی چار حجرے تعمیر کیے گئے۔ ایک سوداؓ کے لئے، ایک ام کلثومؓ اور فاطمہؓ کے لئے، ایک عائشہؓ کے لئے جن کی رخصت کے دن قریب آ رہے تھے اور ایک حجرہ سرکاری خزانے کے لئے جس میں سرکاری رقم اور سرکاری ملکیت کی چیزیں رکھی جاتی تھیں۔ یہ حجرہ مقفل رہتا تھا۔ حضورؐ نے حکومت کی آمدنی اور خرچ کا حساب کتاب میرے سپرد فرما دیا تھا۔ گویا مجھے دنیا کی پہلی اسلامی مملکت کا پہلا وزیر خزانہ بنا دیا گیا تھا۔ بہت بڑی سعادت تھی یہ مجھ غلام زادے کی کہ مجھے اتنی بڑی ذمے داری سونپی گئی۔ مؤذن کی حیثیت سے تو میرے ساتھ میرے محترم بزرگ ابن ام مکتومؓ بھی تھے لیکن اس نئے فرض منصبی میں میرا کوئی شریکِ کار نہیں تھا بس سرورِ عالمؐ کی رہنمائی شامل تھی جس سے میں اپنی ذمے داری سے عہدہ برآ ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو یہ کام مجھے بہت مشکل نظر آیا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا نبی کریمؐ کی توجہ سے میری پریشانیاں کم ہوتی گئیں۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر46 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں