میرا رونا نہیں رونا ہے یہ سارے گلستاں کا

میرا رونا نہیں رونا ہے یہ سارے گلستاں کا
میرا رونا نہیں رونا ہے یہ سارے گلستاں کا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


”میرا رونا نہیں رونا ہے یہ سارے گلستاں کا“…… عمران خان کی تحریک انصاف پاکستان پر حکمران ہے۔ عمران خان کرکٹ کے بہترین کھلاڑی اور کامیاب کپتان تھے۔ ان کی ٹیم کے باقی کھلاڑی ان کے معتمد اور ان پر بھرپور اعتماد کرنے والے اور کافی عرصہ سے ٹیم کی حیثیت سے کھیل رہے تھے۔ عمران خان کپتان کو ایک ایک ساتھی کھلاڑی کی صلاحیتوں کا پورا پورا ادراک تھا۔ کہ کس کھلاڑی کو کس مقام اور کس درجہ پر لانا ہے۔ بولنگ،بیٹنگ یا فیلڈنگ غرضیکہ کھیل کی سب باریکیاں اور نزاکتیں عمران خان اور ٹیم کے ہر کھلاڑی کو معلوم تھیں۔ ٹیم ورک ہی اچھے کھیل اور متاثر کن کارکردگی کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح ساری ٹیم کی کاوشیں رنگ لائیں اور عمران خان کی ٹیم ورلڈ کپ جیت کر ملک اور قوم کے لئے اعزاز حاصل کر پائی۔ اس پر عمران خان اور ٹیم کے ساتھ ساتھ ساری دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہوا۔ اور اب سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ بے دین سیاست ابلیسی اور چنگیزیت ہے۔ دونوں جہانوں کا زیاں ہے۔
عمران خان ملکی سیاست میں آنے کے لئے عرصہ سے پر تول رہے تھے۔ عمران خان کی بطور کپتان شہرت بھی تھی۔ عام پبلک نے عمران خان کی سیاسی باتوں، وعدوں اور عزائم کی طرف توجہ مبذول کی۔ عمران خان نے مختلف فہم و فکر و نظریات کے حامل سیاسی کھلاڑی اکٹھے کر لئے۔جن کا اب تماشا لگا ہوا ہے۔
عمران خان کا تصور یہ تھا کہ ملک کا نظم و نسق چلانا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہو گا۔کچھ بھی ہو جائے، عمران خان نے پانچ سال پورے کرنے ہیں، کوئی روئے یا پیٹے۔ قائد اعظمؒ کے پاکستان کو ہوس اقتدار کے لئے دو لخت کر کے قوم کے دل زخمی کئے گئے تھے۔  جنرل ایوب خان صدر کنونشن مسلم لیگ کے ساتھ بھٹو صاحب جنرل سیکرٹری تھے۔  DCاور SPکو پارٹی کا صدر اور سیکرٹری بنانا چاہتے تھے۔ یہ پارٹی جو غریب عوام کو سبز باغ دکھا کر گمراہ کر کے ووٹ حاصل کر چکی تھی۔اور جیتنے کے بعد غریب مزدور، کسان، ہاری، دیہاڑی دار، مزارعین اور عام ورکرز دھتکار دیئے گئے۔ ان غریبوں کو ستانے والے اشرافیہ طبقات بھٹو اور پیپلزپارٹی کے منظور نظر ٹھہرے۔ اس پارٹی کے مدمقابل باری لینے والی دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ جو اول روز سے یعنی قائد اعظم بانی پاکستان کے ساتھ بھی دلی طور پر مخلص نہ تھی، قائد اعظم انھیں کھوٹے سکے کہتے تھے۔ مرکز اور صوبوں کی روز روز کی لڑائیاں، بدعنوانیاں، متروکہ جائیدادوں پر قبضے بدنامی اور عوام کی مایوسی کا باعث بنتے رہے۔ قائد اعظم نے زندگی بھر اپنی تقریر میں یا تحریر میں مولانا سید ابو الاعلی مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف کوئی ایک لفظ یا کلمہ نہیں کہا،  بلکہ قائد اعظم کی زندگی میں مولانا مودودی نے ریڈیو پاکستان لاہور پر اسلام کے مختلف موضوعات پر پانچ تقاریر کیں۔ جو شائع شدہ موجود ہیں۔ علامہ محمد اقبال بھی مولانا مودودی کے اسلامی فکر اور جداگانہ قومیت پر مولانا کی تحریروں کے قدردان تھے۔ میاں محمد شفیع (م ش)سے پڑھوا کر سنتے تھے۔ اور مولانا مودودی کو حیدرآباد دکن انڈیا سے پنجاب میں منتقل ہونے پر آمادہ کیا۔ مولانا مودودی ضلع گورداسپور میں پٹھان کوٹ چوہدری نیاز علی مرحوم کی زمین پر جو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نیازمند تھے، آ گئے۔ مولانا مودودی نے تفہیم القرآن کے علاوہ الجہاد فی الاسلام،رسائل و مسائل،  سنت کی آئینی حیثیت اور ہزاروں صفحات پر مشتمل وسیع لٹریچر، تفہیمات کی 8 جلدیں، تنقیہاٹ، سود،پردہ،خطبات اور دوسری تصنیفات کے ذریعے نوجوانوں اور طلبہ اور طالبات کو گمراہی سے محفوظ کیا۔اسلامی جمیعت طلبہ بنائی۔
قائد اعظم، نواب بہادر یار جنگ جو مسلم لیگ کے قائدین میں شمار ہوتے تھے، اعلی پائے کے مقرر، منتظم اور سیاسی شعور رکھنے والے مدبر سیاستدان تھے، کی صلاحیتوں کے معترف اور ان پر مستقبل کی امید رکھتے تھے۔ مسلم لیگ کے بعض لیڈر اس امر پر پریشان تھے، کہ بانی پاکستان  نواب بہادر یار جنگ کوسب لیڈروں پر فوقیت دیتے تھے۔ 1944 میں یہی بات ان کی غیر طبعی موت کا سبب بنی۔ (حوالہ مشاہدات میاں طفیل محمد)
قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات ہوئی۔ 13 دن بعد 4 اکتوبر 1948ء کو مولانا امین احسن اصلاحی، اور میاں طفیل محمد وغیرہ کو گرفتار کرکے لیاقت علی خان نے جیل میں ڈال دیا۔ جیل میں ملتان کی گرمیوں میں بھی مولانا مودودی جس سیل میں بند تھے، اس کی چھت ٹین کی تھی۔ کبھی مطالبات نہ کئے۔نہ کوئی رعایت مانگی۔ انتخابات میں دھاندلی، جھرلو اور دھونس کا رواج بھی مسلم لیگی قیادتوں نے ڈالا۔ مرکز سے لے کر صوبے اور اضلاع تک مسلم لیگی ایک دوسرے سے مخلص نہ تھے۔ بد عنوانی اور محلاتی سازشیں روز افزوں تھیں۔ اسلامی دستور سے انحراف کھلم کھلا تھا۔اور ملک کو سیکولر بنانے کے لئے مسلم لیگی کوشاں تھے۔ مسلم لیگی نئی نئی پارٹیاں بنانے میں مہارت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر خان کی سربراہی میں ری پبلیکن پارٹی بنائی، کنونشن مسلم لیگ بنائی۔ درجنوں مختلف ناموں کی پارٹیوں نے مسلم لیگ کے بطن سے جنم لیا۔ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی بیوروکریسی سے مل کر باری باری حکمرانی اور لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کا دھندہ کرتے رہے۔ اشرافیہ ملک اور بیرون ملک جائیدادوں پر جائیدادیں بناتی رہی۔ قوم ان دونوں پارٹیوں سے تنگ آ چکی تھی۔ اسی لئے عمران خان کو آزمانے نکل کھڑی ہوئی۔ عمران خان نے مختلف پارٹیوں یعنی مختلف کلبوں سے کھلاڑی بطور وزیر، مشیر اپنی پارٹی میں جمع کر لئے۔ جن کی کوئی کل ہی سیدھی نہیں۔ صرف جماعت اسلامی  ہی بچی ہوئی ہے جس کا کوئی کھلاڑی عمران خان کے کلب میں نہیں۔ وزراء  بھانت بھانت کی بولیاں بولتے اور مکرتے ہیں۔ پی ڈی ایم  چوں چوں کا مربہ کیا گل کھلائے گا۔ قوم مایوسیوں میں بھٹکتی پھرے گی۔
وہی محفوظ رکھے گا مرے گھر کو بلاوں سے
جو طوفاں میں شجر سے گھونسلہ گرنے نہیں دیتا 

مزید :

رائے -کالم -