مریم سے خوف

مریم سے خوف
مریم سے خوف

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ملتان کے جلسہ میں عمران خان نے اپنی بیٹی کی عمر کی خاتون مریم نواز شریف کے بارے میں جو واہیات کلمات ادا کئے، اس سے ان کے اندر کے خوف کا پتہ چلا کہ وہ کس قدر اس خاتون لیڈر سے خوفزدہ ہیں۔ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں،لیکن افسوس ہوتا ہے جب کسی کو بیٹیوں کے تقدس کا احساس نہ ہو۔ مریم نواز شریف ایک سیاسی حقیقت ہیں جسے کوئی شخص گھٹیا بیان بازی سے نہیں جھٹلاسکتا۔ عمران خان کو جملے کسنے کی بجائے مریم نواز شریف کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنا چاہئے، لیکن لگتا ہے عمران خان کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں ہے،جب وہ وزیراعظم تھے تو مریم نواز شریف کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر جیل میں رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے،محترمہ فاطمہ جناحؒ اور بے نظیر بھٹو کی طرح مریم نواز شریف نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک نڈر اور بہادر خاتون سیاسی لیڈر ہیں۔ وہ جہاں جلسہ کرتی ہیں پورا شہر امڈ آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان خوفزدہ ہیں کہ کہیں مریم نواز شریف ان کی سیاست کا جنازہ نہ نکال دے۔ ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناحؒ اور پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے خوفزدہ ہو کر انہیں قتل کرا دیا تھا۔ جب سیاسی میدان میں مقابلہ ممکن نہ ہو تو فوجی اور سیاسی آمر ایسا ہی کرتے ہیں۔ عمران خان اکثر ڈرامہ کرتے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ تین سو کنال کے گھر میں رہنے والے اور وزیراعظم کے برابر کی سیکیورٹی رکھنے والے کی جان کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک جان کا خطرہ تو مریم نواز شریف کو ہے، کیونکہ ان کی مقبولیت میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جلا وطنی اور قید سے بھی ان کا راستہ نہیں روکا جا سکا ہے اور یہی چیز عمران خان اور مقتدرہ کو ڈراؤنے خواب کی طرح ڈراتی رہتی ہے۔ پاکستان کا سیاسی مستقبل نوجوان لیڈروں کا ہے، ان لیڈروں کے ہاتھ میں نہیں جو طبعی عمر کا زیادہ حصہ گذار چکے ہوں۔ 


عمران خان نے اپنی ساری سیاست بغض میاں نواز شریف پر استوار کی ہے سیاست میں آنے کے بعد پہلے دن سے آج تک عمران خان کی سیاست نواز شریف سے شروع ہو کر نواز شریف پر ختم ہوتی ہے، اس کے بہت گہرے نفسیاتی عوامل ہیں اور یہ حسد اس وقت سے ہے جب عمران خان کرکٹ کھیلتے تھے۔ عمران خان اور میاں نواز شریف دونوں 1980ء کی دہائی میں باغ جناح میں واقع لاہور جمخانہ میں کھیلا کرتے تھے۔ ان دنوں عمران خان پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان اور میاں نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ عمران خان بہت حسرت سے وزیر اعلی پنجاب کا سرکاری پروٹوکول اور اختیارات دیکھتے تو ان کے دل میں یہ خواہش جنم لیتی کہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بھی پروٹوکول اور اختیارات انجوائے کریں جب عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کا ارادہ کیا تو وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے انہیں سرکاری زمین اور پراجیکٹ شروع کرنے کے لئے پچاس کروڑ روپے عطیہ دیا،جو آج کے حساب سے اربوں روپے بنتے ہیں۔ انہی دنوں عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب کو درخواست دی کہ ان کے پاس ذاتی گھر نہیں ہے اس لئے انہیں پلاٹ دیا جائے۔ قومی ٹیم کا کپتان ہونے کی حیثیت سے عمران خان کی یہ درخواست منظور کر لی گئی،

اس کے بعد جب میاں نواز شریف وزیراعظم بن گئے تو ان کا پروٹوکول اور اختیارات بھی بڑھ گئے اور دوسرے ملکوں کے حکمرانوں اور بادشاہوں کا ان کے پاس آتے رہنا اور وزیراعظم پاکستان کے بیرونی دوروں نے عمران خان کی خواہش میں اور اضافہ کر دیا۔ اس دوران پاکستان کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا تو شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ زیادہ پیمانے پر شروع ہو گئی۔ورلڈ کپ اور گولڈسمتھ خاندان میں شادی کی وجہ سے عمران خان عالمی اسٹیبلشمنٹ سے رابطے استوار کرنے میں کامیاب ہو گئے تو انہوں نے پارٹی بنا کر سیاست میں قدم رکھ دیاجسے پہلے پندرہ سال کوئی پذیرائی نہیں ملی، لیکن 2011ء کے بعد سے پاکستان کی مقتدرہ نے انہیں گود لے لیا اور ہر قیمت پر وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا تو عمران خان کو اپنا پرانا خواب پورا ہونے کی امید ہوگئی، چونکہ ان کا زیادہ ووٹ بینک پنجاب کے شہری علاقوں میں تھا جو میاں نواز شریف کا ووٹ بینک تھا، اس لئے عمران خان نے اپنی پوری سیاست میاں نواز شریف کی مخالفت پر استوار کی۔ مقتدرہ نے میاں نواز شریف کو عدالت کے ذریعہ سیاست سے نکال کر عمران خان کو متنازعہ الیکشن میں وزیراعظم تو بنا دیا،لیکن جلد ہی ثابت ہوگیا کہ عمران خان کی اہلیت نہیں ہے کہ وہ ملک چلا سکیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عمران خان جانتے ہیں کہ ان کی واپسی میں ایک ہی رکاوٹ ہے اس لئے ان کی تمام توپوں کا رخ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی طرف رہتا ہے۔ عمران خان یہ بھی جانتے ہیں کہ مریم نواز شریف ان کے لئے سب سے بڑا چیلنج اور رکاوٹ ہے اس لئے وہ رات دن ان پر ذاتی حملے کرتے رہتے ہیں۔ ذاتی حملے کوئی اس وقت ہی کرتا ہے جب سیاسی طور پر مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہواور خوفزدہ ہو۔ 


عمران خان کا مقتدرہ کی مدد کے بغیر مریم نواز شریف کا سیاسی مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ پونے چار سال کی حکومت میں قوم جان چکی ہے کہ ان میں ملک چلانے کی اہلیت نہیں ہے۔ اب وہ کبھی بیرونی سازش کا جھوٹا اور کبھی اپنی جان کے خطرہ کا ڈرامہ کرتے ہیں۔اب وہ اپنے لانگ مارچ میں ریٹائرڈ فوجیوں کے اہل خانہ سے توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کی اس خواہش کا پورا ہونا اس لئے مشکل ہے کہ گھریلو خاندان نہیں آئیں گے۔ مریم نواز شریف سے خوف تو ایک طرف، سیاسی طور پر عمران خان مریم اورنگزیب کے بروقت اور مستند دلائل کا سامنا بھی نہیں کر سکتے۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ لانگ مارچ کے لئے کور کمیٹی کی میٹنگ اسلام آباد کی بجائے پشاور میں رکھی گئی ہے۔ خیر، وہ اسلام آباد کے پرلطف ماحول میں ہوں یا پشاور کی پر فیض فضاؤں میں،مریم نواز شریف کا خوف ہر وقت ان کے اعصاب پر سوار رہتا ہے جو ان کی اپنی صحت کے لئے بھی اچھی بات نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -