شیطانی سواری

 شیطانی سواری
 شیطانی سواری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پنجاب ایمرجنسی سروس ڈیپارٹمنٹ کی ماہانہ رپورٹ میں حادثات کی تعداد دیکھ کر دماغ چکرا سا جاتا  ہے۔ہر ماہ لگ بھگ 30,000 سے زائد حادثات میں 300 سے 400 افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔سینکڑوں اپاہج ہو کر باقی ماندہ زندگی اذیت میں گزارتے ہیں۔لاہور کا حادثات میں پہلا، فیصل آباد دوسرا اور ملتان کا تیسرا نمبر آتا ہے۔ماہانہ ان شہروں میں بالترتیب 7000، 2300 اور 2200 سے زائد حادثات ریکارڈ کئے جاتے ہیں۔سب سے زیادہ تعداد(69 فیصد) موٹر سائیکل سواروں کی ہے۔خیر سے نوجوانوں کو آپ جتنا مرضی سمجھا لیں۔بیٹا بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔مجال ہے وہ کسی کی سن لیں، آج کل کے بچے ہیڈ انجری سے اپنا سر کھلوا لیں گے،وہ ہیلمٹ نہیں پہنیں گے۔آپ اس طبقے سے پوچھیں،بیٹا موٹر سائیکل چلاتے وقت ہیلمٹ کیوں نہیں پہنتے ہو،اکثریت کا جواب ہوتا ہے، ہیلمٹ پہنتے ہی ان کا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔بڑی عجیب بات ہے،پوری دنیا میں اپنے ہاں ہی موٹرسائیکل پر ہیلمٹ پہننے سے بچوں کا دم گھٹتا ہے،کسی دوسرے ملک میں بنا ہیلمٹ موٹرسائیکل چلانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔سٹی ٹریفک پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال بغیر ہیلمٹ 04 لاکھ 47 ہزار سے زائد موٹرسائیکل سواروں کو چالان ٹکٹ جاری کئے گئے جبکہ 10 لاکھ سے زائد بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکل سواروں کو وارننگ دیتے ہوئے ایجوکیٹ کیا گیا۔سی ٹی او لاہور کے مطابق 2022ء میں 222 شہری ھیڈ انجری کے باعث اگلے جہاں سدھار گئے۔
سی ٹی او لاہور کیپٹن(ر) مستنصر فیروز شہر لاہور کو ایکسیڈنٹ فری سٹی بنانے کے لئے پُرعزم ہیں۔ لاہور سٹی ٹریفک پولیس کی طرف سے ہیلمٹ قوانین پر سختی کروانے سے ہیڈ انجری کیسز کی شرح میں واضح کمی دیکھنے میں آ رہی ہے،ویسے اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے عائد کئے جانا چاہئیں۔عوام الناس کو ٹریفک قوانین کے حوالے سے ہیلتھ ایجوکیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔


خاکسار کچھ دن پہلے بیرون ملک سے ہو کر آیا۔ہمارے ہوٹل کے سامنے سڑک پر صرف دو سفید لائنوں کے نشانات لگے تھے۔ہوٹل سے نکلنے والی ہر گاڑی دوسری طرف جانے کے لئے ان دو سفید لائنوں کو عبور کرنے کے بجائے دئیے گئے نشانات کے مطابق لمبا یوٹرن لے کر سڑک پر رواں دواں تھی۔ہر شاہراہ پر یہی دو سفید لائنیں کندہ تھی۔سبھی لوگ اپنی اپنی لین میں تیز گاڑی چلا کر سکون سے محو سفر تھے۔وہاں کے باسیوں کا شہر کی سڑکوں پر اس طرح تیز گاڑی چلانے بارے میں نے تحفظات کا اظہار کیا کہ شہر میں اتنی رفتار مناسب نہیں ہے۔میرے دوست نے کہا۔بھائی ہماری طرح یہاں کوئی غلط سمت سے نہیں آتا اور  نہ ہی اشارہ توڑنے اور سڑک کے بیچ آنے کی جرأت کرتا ہے۔ یہاں آپ دیکھ رہے ہیں، جونہی کوئی پیدل چلنے والا کار، گاڑی، بس یا کسی بھی وہیکل کے سامنے آتا ہے۔پیدل سڑک کراس کرنے والے کے لئے فوری گاڑی روک دی جاتی ہے۔یہاں ڈنڈا بردار پولیس والے کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں۔لوگوں کے خون میں یہ بات شامل ہے۔انہوں نے دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہیں۔ہمارے ہاں ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے۔اپنے ہاں قسمت کا مارا سڑک کراس کر کے تو دکھائے، حالانکہ دین اسلام میں راستے سے پتھر ہٹانے والے کے لئے جنت میں اعلیٰ مقام کا وعدہ کیا گیا ہے۔بدقسمتی سے ہمیں آج تک یہ سبق کسی نے پڑھایا ہی نہیں ہے۔اگر پڑھایا بھی ہے۔ ہم ذاتی مفاد میں اسے فراموش کر چکے ہیں۔ہمارے حواس خمسہ میں راستہ دینا سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔آپ نوٹ کر لیں،سڑک کے ہر یوٹرن پر کھوتا ریڑھی، کار، مزدا، بس کھڑی ہو گی،آپ مڑ کر دکھا دیں، آپ کو مان جاؤں گا،ابھی تین دن پہلے ایک ڈاکٹر دوست کا شکوہ و شکایت سے بھرا فون آیا۔کہنے لگا،اندرون شہر  بلال گنج داتا دربار ہسپتال لاہور میں کام کر کے گھر جانا کسی عذاب سے کم نہیں ہے،ہسپتال کے سامنے ورکشاپس والے سڑک پر گاڑیاں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں،دوسرا وہاں تھوک کے حساب سے پرنٹنگ پریس دکان والوں کے موٹر سائیکلوں اور مزدا لوڈر کے اژدہام نے بیچارے مریضوں اور آنے جانے والوں حتیٰ کہ ہسپتال سے نکلنے والی ایمبولینس کا راستہ بھی بلاک کیا ہوتا ہے۔میرے ڈاکٹر دوست کی مودبانہ عرض تھی،خدارا!اربابِ اختیار اس مسئلے کی طرف توجہ فرمائیں۔


خاکسار نے اپنے ڈاکٹر دوست سے کہا۔انتظامیہ والے بھی کیا کریں،ایک دن وہ آپریشن کلین اپ کریں گے،اگلے ہی دن راستہ روک کر لوگوں کی زندگی اجیرن کرنے یہ سر پھرے پھر آ جائیں گے، بات تو سمجھنے اور احساس کی ہے۔بدنصیبی یہ ہے۔ ہماری تربیت ہی اسی طرح ہوئی ہے،جو مرضی ہو جائے،راستہ نہیں دینا،راستہ روکنا ہے، اس کا عملی مظاہرہ شہر کی تمام شاہراہوں، گلی محلوں میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔شہر کے چوک، چورا ہوں پر میں نے جلدی جانا ہے، میں نے پہلے نکلنا ہے کی تگ و دو سے ٹریفک بلاک کر کے ایک دوسرے کا منہ دیکھنا اور بعض اوقات گالم و گلوچ کرتے گتھم گتھا ہونا، اپنے زوال پذیر معاشرے کا لازمی جزو بن چکا ہے۔شہر کی انہی سڑکوں کے عین وسط میں سو، سوا سو کی رفتار سے بیوی، بچوں سمیت بنا ہیلمٹ موٹرسائیکل بھگانا صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔اوپر سے بنا ہیلمٹ موٹرسائیکل سواروں کا موبائل فون کان سے لگا کر سننا، موبائل فون پر موٹرسائیکل چلاتے ٹائپنگ کرنا، سیلفیاں لینا، اپنے مزاج میں شامل ہو چکا ہے۔صد افسوس!اس شیطانی سواری موٹر سائیکل نے ہیڈ انجری سے سینکڑوں گھر اجاڑ دیئے، ہزاروں اپاہج ہو گئے،کسی کو کوئی فکر نہیں ہے،شاید بھلے کا زمانہ گزر گیا ہے۔ستم ظریفی کی انتہا! ان جذباتی بچوں، بڑوں کو سمجھانے والوں کو گالیوں کا ہار پیش کیا جاتا ہے اور رہی سہی کسر 30 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ وہیکلز کے شہر لاہور میں سڑکوں پر بنا فلٹر، بنا لائسنس دندناتے ہزاروں سانڈ نما لوڈروں اور چنگ چی نے پوری کر دی ہے۔تین پہیوں والے ان مکڑوں کے سیلاب نے ماحول کا بیڑا غرق کر دیا ہے،اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے نتائج میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ رہائشیوں کے پھیپھڑے بھی لوہے کے بنانے پڑیں گے۔
ہم کریں بھی تو کیا؟


ہم اپنی اس عادت سے نجانے کب جان چھڑا پائیں گے؟ یار آج کا دن گزر جائے، کل کی کل دیکھی جائے گی،اگلے سو سال کی پلاننگ کون کرے؟اس بدبخت ڈنگ ٹپاؤ پالیسی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔وقت آن چکا ہے اور نہیں تو ہم اس شیطانی سواری موٹر سائیکل چلانے والوں کو ہی تمیز سکھا دیں۔یقین کیجئے۔تمام شہروں کے70فیصد حادثات کی شرح میں واضح کمی بشمول ہسپتالوں کے ڈاکٹروں، طبی عملہ اور ادویات و آلات کے سالانہ بجٹ میں کمی لانا ممکن ہو جائے گی۔
خدا کرے!نیک نیتی سے ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔آمین

مزید :

رائے -کالم -