بارود خانہ
حالات، واقعات اور ٹیکنالوجی کی خطرناک ترقی نے خطہ پاکستان کی موجودہ لوکیشن کو تمام دنیا کے لئے سخت اضطراب کا باعث بنا دیا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے ”نوے نکور“ وزیرِ خارجہ اور اِن کی ماتحت خاتون نائب وزیرِ خارجہ اور ان کے مشیر طارق فاطمی کو اس explosive صورت حال کا ادراک ہے بھی یا وہ بھی خدانخواستہ کسی ممکنہ دھچکے کے سہولت کار نہ بن چکے ہوں۔ پاکستان کے اِطراف میں جو ممالک واقع ہیں وہ بھارت، چین، افغانستان اور ایران ہیں۔ پاکستان کی اِبتداء سے ہم نے اپنا دشمن خود ایجاد کر لیا تھا اور وہ تھا ہندوستان۔ ہماری فوج کی طاقت اُس کے ڈھکے چھپے اِختیارات اور اہمیت کا جوازہندوستان سے ہماری دشمنی ہی رہی ہے، ہماری ایٹمی طاقت بننے کی خواہش کی تکمیل کا جواز بھی ہندوستان کا خوف ہی تھا۔ہمارے ایٹم بم کا استعمال یورپ، امریکہ یا چین کے خلاف تو نہیں ہونا تھا۔ یہی دشمنی ہمارے مارشلاؤں کا بھی جواز بنتی رہی۔ ہمارے hibrid نظامِ حکومت کا جواز بھی یہی ہے۔ افغانستان ہمارا دوست نہ تھا اور نہ اب ہے خواہ طالبان کی de-facto حکومت جو مرضی کہتی رہے۔
ایران جو ہمارے دل کا جانی تھا۔ جس نے پاکستان کو آزاد ملک تسلیم کرنے میں پہل کی تھی۔ اس دوست ملک سے ہم دور ہوتے چلے گئے عربوں کی خداداد دولت کی بنا پر ہمارے لاکھوں ہنر مندوں کو عرب ممالک میں روزگار ملا۔آج کا چائنا ہر ملک سے کاروباری دوستی رکھتا ہے جس میں اُس کا اپنا فائدہ مقدم ہوتا ہے۔کلچرلی نہ یہ خود میل جول رکھتا ہے، نہ کسی اور کلچر کو اپنے اندر گھسنے دیتا ہے۔ CPEC اشد تجارتی ضرورت چائنا کی تھی اسے تجارت کے لئے سستا اور محفوظ متبادل راستہ CPEC کے ذریعے درکار تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس منصوبے کے بڑے حصے کی لاگت چین اٹھاتا، CPEC کی وجہ سے امریکہ کی ناراضگی کا بھی ہم نے کوئی مداوا نہیں کیا۔ ہم 10 سال تک امریکہ کی گندم PL-480 کے تحت کھاتے رہے ہیں، اس کے زیر اثر ہندوستان اور روس سے جنگیں بھی لڑتے رہے ہیں،امریکی اسلحہ کی برتری کی وجہ سے ہندوستان ہم پر حاوی نہیں ہو سکا۔ امریکہ کی یونیورسٹیوں کے سند یافتہ پروفیسر ز ہمارے نوجوانوں کو پڑھاتے رہے ہیں۔ پاکستان کی پڑھی لکھی مڈل اور امیر کلاس کے ہر گھر سے کم از کم ایک فرد امریکی شہریت کا حامل ہے۔ یہی نوجوان پاکستانی امریکی شہری بن کر اپنے ٹبر کے ٹبر امریکہ بلا کر settle کر تے ہیں، لاکھوں اَن پڑھ غیر قانونی پاکستانیوں کو بھی امریکہ نے بالاخر اپنے سسٹم میں کھپا لیاہے۔اب تو امریکی ٹیکنالوجی ہمارے ہر شعبے کا حصہ بن چکی ہے اور یوں کسی نہ کسی طرح سے ہمارا ہر اِدارہ امریکہ سے جڑا ہوا ہے۔
اِن حالات میں امریکی اثر و رسوخ کو ignore کرنا حماقت تھی۔ عمران خان خارجہ پالیسوں کی باریکیوں سے بالکل نابلد تھا اور شائد ابھی بھی ہو۔ اُس کا جملہ "Absolutely Not" بڑبولے پن کا نتیجہ تھا اور یہ ہی جملہ مشکلات کا باعث بنا۔ حالانکہ عمران خان نے کبھی بھی امریکہ سے دشمنی مول لینے کا نہیں کہا۔ لیکن وہ پاکستان کے اس فرسودہ نظام کو ہر صورت بدلنا چاہتا ہے۔ یہی فرسودہ نظام پاکستان میں امریکی مفادات کا محافظ بھی ہے۔ پاکستان کے 4 مارشل لاز، مشرقی پاکستان کی علیحدگی، پاکستان میں امریکہ کی اشیر باد سے ایک طاقتور سرمایہ دار طبقے کا پیدا ہونا، فوج کے ذریعے پاکستان کی حکومتوں میں دخیل ہونا، یہاں تک کہ ہماری خارجہ پالیسی پر امریکی منظوری کی چھاپ لگنا، اِن سب کے بارے میں ہر پڑھا لکھا پاکستانی جانتا ہے۔ 21ویں صدی کے 62% پاکستانی 32 سال سے کم عمر کے ہیں۔ یہ نسل ہمارے جیسے عمر رسیدہ پاکستانیوں کی مصلحتوں اور اطاعت گذاری کی عادی سوچ سے ناآشنا ہے۔ پچھلے 30-40 سالوں میں ہماری آبادی میں شہری طبقے میں 38% اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ 2008 میں شہری طبقہ 28% پر مشتمل تھا۔ یہی طبقہ آزادی اور اِنسانی حقوق سے تھوڑی بہت آگاہی رکھتا ہے۔ پاکستان کی مڈل کلاس کو بھی ووٹ کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے۔ 2008 میں پاکستان کی مڈل کلاس 46% ہو گئی تھی۔
یہ فیکٹر کسی بھی ملک کی سیاسی شعور کی بلوغت کی علامت ہوتا ہے۔ بین الاقوامی مہنگائی اور پاکستان میں حکومتی بد انتظامی کی وجہ سے مڈل کلاس وقتی طو پر سکڑ کر 37% رہ گئی ہے۔ موروثی سیاست کے خلاف بے پناہ نفرت بھی اس Demographic تبدیلی کی وجہ سے ہے۔ ہمارے دوستوں کو اب سوچنا پڑے گا کہ وہ پاکستان پر کتنا دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ آج کے مخصوص حالات میں پاکستان کے چاروں اطراف کوئی بھی ہمارا ایک طرفہ دوست نہیں ہے۔ عمران خان کا غیر محتاط جملہ تو صرف بہانا بن گیاورنہ امریکی ایجنسیوں نے پاکستان کی گردن ”نپنے“کا پلان جو پہلے ہی سے تیار کیا ہوا تھا اُس کو عملی جامہ پہنا نا شروع کر دیا گیا ہے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں Regime change کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ بدانتظامی، مہنگائی، سیاسی غیر یقینی، معاشی Stagnancy،عوامی Polarisation جس کا محرّک عمران خان بن چکا ہے سب پریشان کُن ہیں۔ ہماری حفاظت فوج جیسا منظم ادارہ ہی کر سکتا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ منتخب ہو کر نئی آنے والی حکومت اس بارود خانے کو اپنی فراست اور عوامی اُمنگوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے دھماکے سے بچا پائے گی۔