معاشرے کو بنجر بنانا سیاست نہیں
تحریر:طیبہ بخاری
وہ جس نے زندگی کی نہیں روح کی سیاست کی ۔۔۔وہ جو ڈری نہیں ۔۔۔وہ جو ڈٹی رہی ۔۔۔وہ جو سب کچھ لٹا کر بھی پیچھے ہٹی نہیں ۔۔۔وہ جس نے اپنا سب کچھ عوام کی نذر کر ڈالا ۔۔۔وہ جس کی نظریں تخت و تاج پر نہیں ، عوام کے دل اور نبض پر تھیں ۔۔۔وہ ہی بینظیر کی بینظیر ماں تھیں ۔۔۔وہ جس نے جمہوریت کی نصرت کی ۔۔۔اپنے شوہر کی سیاسی جدوجہد میں نصرت کی ۔۔۔ملک میں جمہوریت کے قیام کیلئے عوام کی نصرت کی ۔۔۔۔وہ بیگم نصرت بھٹو تھیں
ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو ایک خط لکھا تھا جس کے چند جملے پیش خدمت ہیں "پھولوں بھرے معاشرے کو بنجر بنانا سیاست نہیں۔ سیاست زندگی کی روح ہے۔ یہ عوام سے میرا لافانی رومانس ہے۔ یہ لافانی بندھن عوام ہی توڑ سکتے ہیں"۔
یہ جملے کسی اور نے لکھے اور کسی اور کیلئے لکھے ۔۔۔لیکن انہیں عملی روپ دیا بیگم نصرت بھٹو نے ۔۔۔انہوں نے ثابت کیا کہ یہ جملے لکھنے والا بھٹو ہو سکتا ہے تو ان جملوں کو حقیقت بھی بھٹو ہی بخش سکتے ہیں۔۔۔ بیگم نصرت بھٹو اپنے شوہر اور عوام سے" لافانی رومانس" پر آخر دم تک قائم رہیں۔
یہ سوال بھی کیے جاتے رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کیونکر قائم رہی ؟۔۔۔بینظیر کو سیاست کس نے سکھائی ؟
تو ان 2سوالوں کا سیدھا اور صاف 2 حرفی جواب ہے کہ ۔۔۔۔بیگم نصرت بھٹو
وہ ہمت و شجاعت کا پیکر تھیں ۔۔۔جمہوریت اور سیاست کیلئے بے مثال قربانیاں دیں اور مرتے دم تک دیتی رہیں ۔۔۔قوم کیلئے مشکلات اور المناک صدمات برداشت کیے اور ان سب کواپنے سینے سے لگائے قبر میں اتر گئیں۔۔۔
بعد از مرگ"مادر جمہوریت" کا لقب پانے والی بیگم نصرت بھٹو کو دنیا سے رخصت ہوئے آج 11 سال بیت چکے ہیں۔پاکستان کی سابق خاتون اول اور 2بار وزیراعظم رہنے والی محترمہ بے نظیربھٹو کی بہادر ماں نے ملک میں جمہوريت کے قیام کے لیے بے پناہ جدوجہد کی ۔بیگم نصرت بھٹو 23 مارچ 1929 ءکو ایران کے صوبے اصفہان میں پیدا ہوئیں، والد کا نام محمد عبداللطیف اصفہانی تھا۔نصرت خانم کے والد کا تعلق ایرانی کرد خاندان سے تھا، وہ کاروباری شخصیت تھے، اور برطانوی دور میں کراچی میں آ کر آباد ہوئے۔ 8 ستمبر 1951 کو ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی شادی ہوئی۔ جولائی 1977 کو جنرل ضیا ءالحق نے جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کی تو بیگم نصرت بھٹو کو نظر بند کردیا گیا، کبھی قذافی سٹیڈیم میں پولیس کی مار کھا کر لہولہان ہوئیں تو کبھی عدلیہ کا ضمیر جگانے کی سعی کرتی رہیں ۔شوہر کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے خاندان اورپارٹی دونوں کو سنبھالا، پیپلزپارٹی کو منظم کیا اور شعبہ خواتین کی بنیاد رکھی۔وہ کئی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں سینئر وفاقی وزیر بھی رہیں۔
وہ حقیقی معنوں میں جمہوریت کی علمبردار اور اسے سیاسی جماعتوں کے اندر نچلی سطح تک رائج کرنے کی زبردست حامی تھیں۔ اُنہوں نے بہت سا فلاحی کام کیااور عام لوگوں کے اندر سیاسی بیداری پیدا کی۔1973ء سے 1977ء تک پاکستان کی خاتونِ اوّل رہیں مگر خود نمائی سے پرہیز کیا اور عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔
1977ء میں حالات نے پلٹا کھایا اُن کے شوہر کی حکومت ختم ہو گئی اور فوج نے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ بھٹو گرفتار کر لیے گئے اور پیپلز پارٹی کو کڑی آزمائش نے آ لیا۔ اس انتہائی نازک موقع پر بیگم نصرت بھٹو نے غیر معمولی تدبر، تحمل اور فولادی عزم کا ثبوت دیا۔اُنہوں نے ظلم اور جبر کا ہر وار بڑی بہادری اور مردانگی سے برداشت کیا اور لازوال جدوجہد کے ذریعے جمہوریت کی شمع روشن رکھی۔ ذوالفقار بھٹو پر جب قتل کا مقدمہ چلنا شروع ہواتو بیگم نصرت بھٹو نے عدالتوں میں بھی بڑے حوصلہ مندی سے جنگ لڑی اور سیاسی میدان میں ایک شیر کی طرح غاصبوں پر جھپٹتی رہیں۔ قائدانہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کا شیرازہ بکھرنے نہیں دیا اور عوام کے ساتھ اُنہوں نے جو گہرا تعلق پہلے سے پیدا کر رکھا تھا اس کے ذریعے کارکنوں کے اندر مزاحمت کی روح پھونکی اور اُنہیں آمریت کے مدمقابل ایک مضبوط سیاسی قوت میں ڈھال دیا۔ بھٹو کی پھانسی کا صدمہ اُنہوں نے اس طرح برداشت کیا جیسے وہ ہمت و عزیمت کی ناقابلِ تسخیر چٹان ہوں۔
اُن کی فہم و فراست کا سب سے بڑا شاہکار یہ تھا کہ اُنہوں نے اُن تمام عناصر کو بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی میں اپنے ساتھ شامل کیا جنہوں نے پی این اے میں ذوالفقاربھٹو کے خلاف عوامی تحریک چلائی تھی۔ نصرت بھٹو کو سرطان کا مرض لاحق ہو چکا تھا اس کے باوجود اُنہوں نے تحریکِ مزاحمت کی قیادت کی۔ سندھ میں ایم آر ڈی ناکام رہی لیکن جنرل ضیاء الحق پر اس قدر دباوٴ بڑھا کہ انہیں انتخابات کرانا پڑے اور یہی انتخابات آگے چل کر 1988ء کے انتخابات پر منتج ہوئے جس میں پیپلز پارٹی نے قومی سطح پر واضح کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابی بیگم نصرت بھٹو کی رہینِ منت تھی مگر اُنہوں نے اقتدار کا تاج اپنی بیٹی بے نظیر کے سر پر رکھا اور خود سینئر وزیر بننے پر اکتفا کیا۔
پھر وہ وقت بھی آیا کہ انہوں نے اپنےبڑے بیٹے میرمرتضیٰ بھٹو کی وطن واپسی کو نہ صرف ممکن بنایا بلکہ سیاسی رہنمائی کرتی رہیں۔ان کے جواں سال بیٹے شاہنواز بھٹو کی 27 برس کی عمر میں فرانس میں مشکوک حالات میں موت واقع ہو چکی تھی ۔ پھر ستمبر 1996 ءمیں میر مرتضیٰ بھٹو قتل ہو گئے۔ وہ جو اپنے شوہر اور ایک بیٹے کی موت کے باوجود حالات کے سامنے سینہ سپر رہی اب ہمت ہار گئی ۔۔۔ مرتضیٰ بھٹو کی موت نےبیگم نصرت بھٹو کو بے موت مار ڈالا اسی غم میں وہ شدیدعلیل ہو گئیں۔۔۔۔
وزیر اعظم ہاؤس کی ویران لابیوں میں وہ اپنے بیٹے کا نام ’’میرو میرو‘‘ پکارتیں پھرتیں ، وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے ماں کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ آخر کار جب فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کے اقتدار پر شب خون مارا تو بے نظیر اپنی دکھی ماں کو لے کر پہلے کراچی اور پھر دبئی چلی گئیں۔
پھر وقت نے ایک اور ستم ڈھایا اور نصرت بھٹو پر آخری اور بھرپور وار کیا ۔۔۔اب کی بار انہیں وہ زخم ملا جو ان کیلئے نا قابل برداشت تھا ،اب ان کی دلیر بیٹی محترمہ بے نظیربھٹو کو بھی شہید کر دیا گیا۔۔۔
پے درپے صدمات جھیلنے والی بیگم نصرت بھٹو 23 اکتوبر 2011 کو دبئی میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔انہیں گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔بیگم نصرت بھٹو نے اپنی زندگی میں شوہر کی پھانسی، 2بیٹوں اور بیٹی کی موت کے غم سہے،لیکن یہ پیغام دے گئیں کہ"معاشرے کو بنجر بنانا سیاست نہیں"۔۔۔
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں