زرعی ترقی کا تذویراتی منصوبہ

    زرعی ترقی کا تذویراتی منصوبہ
    زرعی ترقی کا تذویراتی منصوبہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا زرعی ویژن پاکستان کی زراعت کو مربوط ٹیکنالوجیز، موسمیاتی موافقت، شفافیت اور ویلیو ایڈیشن کے ذریعے تحقیق اور مارکیٹ پر مبنی متنوع اور پائیدار شعبے میں تبدیل کرنا ہے،اس کے لئے فیڈریشن تفصیلی مشاورت کے ذریعے رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مختصر، درمیانی اور طویل مدتی اقدامات کے لیے مستقبل کے فریم ورک کی حکمت عملی مرتب کرنے کی کوشش کا آغاز کر چکی ہے۔

پاکستان میں زراعت کو معاشی ترقی کا محور تصور کیاجاتا ہے۔ ملک میں صنعتی اور خدمات کے شعبوں کی ترقی زراعت کی ترقی سے براہ راست جڑی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی تجارت (برآمدات/ درآمدات) کا بھی زراعت کے شعبے پر انحصار ہے جو فصلوں، مویشیوں، ماہی گیری اور جنگلات کا مجموعہ ہے۔

ملکی زراعت میں سب سے بڑا چیلنج بار بار فصل کا برباد ہونا اور اور منڈیوں میں زرعی اجناس کی بے قدری ہے۔ نتیجتاً، ملک کو ادائیگیوں کے توازن کے بحران اور غذائی اشیا کی کم فراہمی کا سامنا ہے۔ اشیائے ضروریہ کا موجودہ درآمدی بل 10 بلین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ ہم بھاری قیمت پر کپاس درآمد کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ کپاس کا بحران بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایک عام گھرانے کے لیے کھانے کا بل ناقابل برداشت ہو چکاہے۔ خواتین اور بچوں کی سٹنٹنگ گروتھ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے صحت عامہ کے بل میں اضافہ ہو رہا ہے اور ترقی کے قیمتی مواقع ضائع ہو رہے ہیں۔

کووڈ بحران، ٹڈی دل کے حملے اور پھر 2022 کے سیلاب پاکستان کے زرعی شعبے کودرپیش چیلنجوں کی تیاری کی کمی کی یاددہانی ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ زراعت پر مبنی معیشت ہونے کے ناتے ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے پورے زرعی فریم ورک پر نظر ثانی کی جائے جس کے لئے ایف پی سی سی آئی کی قیادت نے کمر کس لی ہے۔ 

اس میں شک نہیں کہ معیشت اور غذائی تحفظ کو درپیش خطرات زراعت کے مروجہ طریقوں کو تبدیل کرنے کے لیے عوامی سرمایہ کاری اور ترقیاتی کوششوں کو دوبارہ ترجیح دینے اور حکمت عملی بنانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے پاس پالیسی دستاویزات کی کمی نہیں۔ اگر کسی شے کی کمی ہے تو عمل درآمد کی حکمت عملی کی کمی ہے، جب جب ہم نے پالیسی اور حکمت عملی کو عزم کے ساتھ ملایا ہے، شاندار نتائج حاصل ہوئے ہیں۔

1879 کا فامین کمیشن زراعت کے شعبے میں قائم ہونے والی کمیٹیوں اور کمیشنوں کی تاریخ کا آغاز تصور کیا جاتاہے، اسی طرح نہری کالونیوں میں دریا کے پانی کو موڑنا ایک ایسی فتح تھی جس نے دنیا سے قحط کے دوبارہ نمودار ہونے کو روک دیا۔ آزادی کے بعد، 1954 میں ہارورڈ ایڈوائزری گروپ کی آمد نے زراعت پر مبنی صنعتیں (کپاس، چینی، کھاد)  لگانے کی راہ ہموار کی۔ کالا باغ کے نواب کی سربراہی میں 1958 کا ایگریکلچر کمیشن بڑے پیمانے پر زرعی / ادارہ جاتی انفراسٹرکچر اور فریم ورک بنانے کے لیے جانا جاتا ہے۔اس کے تحت نئی یونیورسٹیاں اور صوبائی تحقیقی نظام قائم کیے گئے، اور توسیعی اور فیلڈ ونگز کو وسعت دی گئی۔  انڈس واٹر ٹریٹی نے پانی کے بڑے ڈیموں اور لنک کینال کے نیٹ ورک کی تعمیر کو یقینی بنایا، اس طرح آبپاشی کے نیٹ ورک کو وسعت دی گئی۔ 1960 کی دہائی کے وسط سے سبز انقلاب کی ٹیکنالوجیز کو اپنانے سے نظام کی اہلیت کو فائدہ پہنچا اور خوراک کی کمی کا خطرہ بڑی حد تک ٹل گیا۔

1970 کی دہائی کے دوران، پولٹری اور کھاد کی صنعتوں میں توسیع ہوئی جس کے بعد پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ اسی دہائی میں ڈاکٹر زیڈ اے ہاشمی (سابق وائس چانسلر یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد)کی قیادت میں بارانی کمیشن قائم کیا گیا۔ اس ضمن میں آخری کوشش 1986 میں جناب سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایگریکلچر کمیشن کے قیام میں کی شکل میں کی گئی جو دو سال تک فعال رہا۔ایگریکلچر کمیشن کی 1988 کی رپورٹ کئی پہلوؤں سے اہم ہونے کے باوجود متروک ہے اور  تب سے زرعی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تذویراتی کوششیں معدوم پڑ چکی ہیں۔

واضح رہے کہ ڈیپارٹمنٹس اور پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے تیار کردہ پانچ سالہ منصوبے اور پالیسی دستاویزات بھی ہمیں دستیاب ہیں۔ 1960، 1980 اور جزوی طور پر 1990 کی دہائی پاکستان میں زرعی ترقی کے سنہری دور تصور کئے جاتے ہیں۔ اس ملک میں سبز انقلاب، پولٹری اور کپاس کی صنعتوں، دودھ اور گوشت، پھلوں اور سبزیوں اور سبز ماحول کی کامیابی کی کہانیاں بھی ہیں۔تاہم، زرعی طبقات کے لیے ماضی قریب میں زراعت کا شعبہ منافع بخش نہیں رہا،زرعی پیداوار تقریباً جمود کا شکار ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے جی ڈی پی کی شرح نمو مایوس کن رہی ہے۔ دیہی غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ بہتری نہ ہونے کی اہم وجوہات میں غیر فعال تحقیقی اور ترقیاتی ادارے اور بیڈ گورننس جیسے عوامل شامل ہیں۔

زرعی ترقی تحقیق، قدرتی وسائل کے انتظام اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں مسلسل سرمایہ کاری کا نام ہے، جس کے بعد کسان ٹیکنالوجی کو اپناتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس کا کسی اور شعبے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہ ہمارا کسان بہت سی پیچیدگیوں کا شکارہے، مارکیٹ کی قوتیں اور پبلک پالیسی کسان کے عمل اور ردعمل کے ضمن میں اہم عوامل ہیں۔ ایک اہم پہلو کسان کی سودے بازی کے لیے قابلیت نہ رکھنا ہے،  نتیجے کے طور پر، ضروری ہے کہ حکومتیں کسانوں کی ضروریات اور حدود کا خیال رکھیں۔

چھوٹے کسانوں کی سرمایہ کاری اور نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے کی کمزور صلاحیت اور ناکافی عوامی حمایت یا فارم کی سرمایہ کاری کے لیے متبادل آپشنز کی کمی کے نتیجے میں مجموعی پیداواری صلاحیت رک گئی ہے۔ فصلوں کی پیداوار اور آبادی کا رجحان بتاتا ہے کہ 2033 تک ملک کو 5 ملین ٹن گندم کے خالص خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسی طرح زرعی اراضیوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیز کے رجحان، میونسپل اور صنعت کی ضروریات کے لیے میٹھے پانی کے استعمال اور  موسمیاتی تبدیلیوں سے قدرتی وسائل کو خطرہ لاحق ہے۔ پاکستان میں 8.20 ملین ہیکٹررقبہ، یعنی کل قابلِ زراعت کا 14 فیصد ضائع ہو رہا ہے۔ میٹھے پانی کے محدود وسائل راستے کی رکاوٹ ہیں۔ٹیکنالوجی، پالیسی، ادارہ جاتی اور مارکیٹنگ جیسے اقدامات کے ذریعے زرعی شعبے میں اصلاحات کی گنجائش موجود ہے۔ دیہی انفراسٹرکچر میں بہتری، غربت کا خاتمہ، زراعت میں برآمدات کے دائرہ کار میں توسیع سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

فیڈریشن نے زرعی ماہرین کو انگیج کرنا شروع کردیا ہے اور بہت جلد ایک مربوط لائحہ عمل عوام کے سامنے رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے اس پر عمل درآمد کے لئے بھرپور مہم کا آغاز کرے گی تاکہ نہ صرف ملک کی زرعی ضروریات پوری ہوں بلکہ صنعت کے شعبے کے لئے درکار خام مال کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔ جس طرح فیڈریشن نے آئی پی پیز کے مسئلے کے حل کے لئے بھرپور مہم چلا کر کامیابی حاصل کی ہے، اسی طرح ملک میں زرعی انقلاب یقینی بنائے گی۔انشاء اللہ!

مزید :

رائے -کالم -