خاتون پولیس آفیسر کے تبادلہ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان
رات گئے ہونیوالے فیصلے خاتون پولیس آفیسر کے تبادلے اور خدمات وفاق کے سپرد کرنے کی خبردن چڑھے جب سامنے آئی کہ ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور انوش مسعود چودھری کو تبدیل کر دیا گیا، آئی جی پنجاب نے انوش مسعود کو فوری سی پی او رپورٹ جبکہ چیف سیکرٹری نے انوش مسعود چودھری کو وفاق میں رپورٹ کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے، اے آئی جی فنانس محمد نوید کو ایس ایس پی انویسٹی گیشنز لاہور تعینات کرنے کے ساتھ فوری چارج لینے کی بھی ہدایت کی گئی۔ تاہم تھوڑی ہی دیر بعد نیوز چینل پر خبریں چل گئیں کہ خاتون ایس ایس پی کا وفاق سے تبادلہ کینسل کردیا گیا ہے اور وہ پنجاب پولیس کو رپورٹ کریں گی۔یہ خبریں چلنے کی دیر تھی کہ جن طاقتوں نے اسے تبدیل کروانے اور فوری وفاق میں بھجوانے کے احکامات جاری کروائے ہیں انہیں سانپ سونگ گیا کہ یہ کیا ہوا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کا عجلت میں تبادلہ نہیں ہونا چاہیے تھا اگر پنجاب حکومت نے یہ فیصلہ کر ہی لیا تھا تو انہوں نے یہ فیصلہ واپس لے کر ثابت کیا ہے کہ اختیارات پر ان کا نہیں کسی اور کا کنٹرول ہے اس خاتون پولیس آفیسر سے پنجاب پولیس کے موجودہ افسران جو کرتا دھرتا ہیں وہ خوش نہیں تھے اوران افسران کا الزام ہے کہ خاتون پولیس آفیسر مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث ہے لیکن ان افسران کے پاس خاتون پولیس آفیسر کی کرپشن کے ثبوت موجود نہیں ہیں۔ سابق ادوار میں بھی اس خاتون پولیس آفیسر کو دو بار سرنڈر کیا گیا ایک دفعہ سابق آئی جی پولیس امجد جاوید سلیمی کے دور میں اور دوسری بار انعام غنی کے دور میں تاہم اس خاتون پولیس آفیسر نے جلد ہی پنجاب میں واپسی کے احکامات جاری کروالیے تھے۔سابق آئی جی پولیس امجد جاوید سلیمی تو بعد ازاں ان کے سفارشیوں میں شامل ہوگئے تھے۔موجودہ کرتا دھرتا پولیس افسران کو یہ ماننا پڑے گا کہ انہیں اس خاتون پولیس آفیسر کو برداشت کرنا پڑے گا بدنامی تو پنجاب حکومت کی ہے کہ جنہوں نے سرنڈر کرنے کے ساتھ ہی اسے واپس بھی لے لیا ہے ایسے تبادلے جو اداروں کی بے بسی کی عکاسی پیش کرتے ہیں اس سے حکومت کے اختیارات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے بحرحال اسے ہم ایک واقعہ ہی قرار دے سکتے ہیں اور یہ واقعہ قابل مذمت ہے یہ دو وفاقی وزرا ء کی مبینہ مداخلت کا نتیجہ ہے لیکن حقیقت بدستور یہی ہے کہ ملک کی سویلین بیوروکریسی اور پولیس سیاست کی بدترین قسم کے متاثرین ہیں اور یہ کام سیاست دان اور سویلین حکومتیں کر رہی ہیں۔ اگر ہم اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہتے ہیں توپولیس کے معاملات میں سیاستدانوں کو مداخلت کیلئے نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ملک کی انتظامی مشینری (سول سروس اور پولیس وغیرہ) کو سیاست سے پاک کرنے اور اسے تمام اطراف سے بچانے کا سنہری موقع ہے۔ بیوروکریسی اور پولیس اگر اس وقت بری حالت میں ہے اور کوئی کارکردگی نہیں دکھا پا رہی تو اس کی وجہ زبردست پیمانے پر بیرونی مداخلت اور سیاسی بھرتیاں، تقرریاں اور تبادلے ہیں بیوروکریسی اور پولیس کو سیاست دان اور یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے ذاتی ملازم سمجھا ہے چاہے یہ پی ٹی آئی کی حکومت ہو یا پھر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی یا پھر کسی فوجی آمر کی۔ ہر سیاسی جماعت اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کرتی ہے کہ پولیس اصلاحات لائی جائیں گی، بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کیا جائے گا لیکن جب یہ جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو پولیس اوربیورکریسی میں مزید سیاست شامل کر دیتی ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے دور میں صورتحال خراب تھی تو نون لیگ اور اتحادیوں کے آج کے دورِ حکومت میں بدتر ہو چکی ہے۔ پولیس اور بیوروکریسی کیلئے کوئی تحفظ نہیں ٰ جبکہ وفاقی حکومت نے سول سروس کو سیاست سے پاک کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ سول سروس کے قواعد و ضوابط اسے سیاست سے بچاتے ہیں، سرکاری ملازم کے عہدے کی معیاد کا تحفظ بھی موجود ہے اور ساتھ ہی پولیس اور بیورکریسی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے وہ غیر جانبدارانہ انداز سے کام کرے اور غیر قانونی احکامات کی پیروی نہ کرے۔ لیکن عملاً، ایسے قواعد و ضوابط کی بھرپور خلاف ورزی کی جاتی ہے اور نتیجتاً پاکستان کی پولیس اور بیوروکریسی دنیا میں سب سے زیادہ سیاست کا شکار ہے کئی فیصلوں میں اعلیٰ عدلیہ نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ پولیس اور بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کیا جائے اور سرکاری ملازمین کے عہدوں کی معیاد کا احترام کیا جائے۔ تاہم، کسی بھی حکومت نے ان عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا اور نتیجتاً ملک میں پالیسی سازی کا سب سے بڑا ادارہ سمجھے جانے والے وفاقی و صوبائی سیکریٹریٹس کو نقصان ہوا ہے بلکہ عوام کو سہولتوں کی فراہمی، طرز حکمرانی اور سرکاری محکمے و ادارے بھی تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔