چین نے اپنے ریٹائرڈ فائٹرجیٹ جے - 6کو جنگی ڈرون میں تبدیل کردیا

بیجنگ(ڈیلی پاکستان آن لائن)چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نے ایک ایسا جنگی ڈرون متعارف کروایا ہے جو 1950 کی دہائی کے ریٹائرڈ جے-6 فائٹر جیٹ کو تبدیل کر کے بنایا گیا ہے۔
چینی میڈیا کے مطابق یہ ڈرون چانگ چن ائیر شو میں پیش کیا گیا، اس ڈورن کی نمائش نے کئی برسوں سے جاری ان افواہوں کی تصدیق کردی ہے کہ چین اپنے متروک جے-6 طیاروں کے بیڑے کو دوبارہ کارآمد بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
چین نے 1960 سے 1980 کی دہائیوں کے دوران ہزاروں جے-6 طیارے (جو سوویت MiG-19 پر مبنی تھے) تیار کیے تھے، جے-6 سیکنڈ جنریشن سُپرسانک لڑاکا طیارہ ہے یہ زیادہ سے زیادہ آواز کی رفتار سے 1.3 گنا تیزی سے اڑ سکتا ہے، جے-6 کی کمبیٹ رینج تقریباً 700 کلومیٹر ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ 250 کلوگرام تک ہتھیار لے جا سکتا ہے۔
ائیر شو میں ڈرون کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق، بغیر پائلٹ والے پہلے جے-6 طیارے نے 1995 میں اڑان بھری تھی۔
چینی میڈیا کے مطابق پرانے جے-6 فریم کا بیشتر حصہ ڈرون کے ڈیزائن میں برقرار رکھا گیا ہے، جس سے یہ ڈرون تیز اور کم خرچ بن گیا ہے۔ طیارے کو ڈرون میں تبدیل کرنے کے لیے عملے سے متعلق تمام ساز و سامان جیسے مشین گنیں، معاون فیول ٹینکس اور ایجیکشن سیٹس کو ہٹا دیا گیا ہے اور طیارے میں خودکار فلائٹ کنٹرول سسٹم، آٹو پائلٹ اور ٹیرین میچنگ نیوی گیشن نصب کیے گئے ہیں، اس طیارے میں اضافی ویپن اسٹیشنز بھی لگائے گئے ہیں تاکہ اس کی حملہ کرنے کی صلاحیت بڑھائی جا سکے۔
نمائش میں بتائی گئی تفصیل میں کہا گیا کہ یہ طیارہ اسٹرائیک (حملہ کرنے) یا تربیتی اہداف کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔ اگرچہ سوویت دور کا یہ طیارہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پرانا ہے مگر جے-6 ڈرونز کی بڑی تعداد انہیں دشمن کو تھکادینے والی جنگ کے لیے معاشی طور پر مؤثر بناتی ہے، ایک اندازے کے مطابق پی ایل اے کے پاس تقریباً 3 ہزار جے-6 فائٹر طیارے موجود ہیں۔
چینی میڈیا کے مطابق کسی تنازع کی صورت میں یہ ڈرونز جتھوں کی صورت میں حملوں کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں، ایک مکمل فائٹر جیٹ ہونے اور پرانا ہونے کی وجہ سے کم جدید ایویانکس رکھنے کے باعث جے-6 ڈرونز الیکٹرانک جنگی نظام، الیکٹرانک جیمرز یا ڈائریکٹڈ انرجی ہتھیاروں کا نسبتاً کم شکار ہوں گے۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس ڈرون کو نشانہ بنانے کے لیے روایتی فضائی دفاعی ریڈارز کو فعال کرنا پڑے گا جس سے ان ریڈارز کی جگہ اور فریکوئنسی ظاہر ہوجائے گی، پھر چین کے الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز یا اینٹی ریڈی ایشن میزائل ان ریڈار سائٹس کا پتا لگا کر انہیں جام یا تباہ کر سکتے ہیں۔