راولا کوٹ تک
کورونا وبا کے باعث لوگوں کو کئی مہینے لاک ڈاؤن میں رہنا پڑا۔ نہ سنیما گھر کھلے تھے اور نہ ہی ہوٹل، بڑے بڑے مال بھی بند رہے اور پارکوں کے دروازوں کو بھی تالے لگے رہے۔ فضا میں ڈپریشن کی لہر سی تھی جس کی لپیٹ میں تقریباً سب ہی آ گئے تھے۔ لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ جوں ہی کورونا کے کیسسزمیں کمی آئی ویسے ہی لوگوں نے فٹا فٹ اپنے بیگ پکڑے اور شمالی علاقوں کے جانب نکل گئے۔ اتنا عرصہ گھٹن بھرے ماحول میں رہ کر اب لوگ پہاڑوں کی تازہ ہوا میں چین کی سانس لینا چاہتے ہیں۔ یونیورسٹی اور سکولوں سے چھٹیاں ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میں بھی اپنی فیملی کے ساتھ سفر پر نکل گیا۔ ہمارا ارادہ تو سکردو جانے کا تھا لیکن دو دن مسلسل ٹریفک جام کی خبریں سن کر ہم نے اپنا رخ راولاکوٹ کی طرف کر لیا۔ راولاکوٹ آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ کا دارالحکومت ہے۔ راولاکوٹ سیاحوں کے لئے اپنی قدرتی خوبصورتی اور آب و ہوا کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ طشتری نما وادی میں 1615 میٹر (5300 فٹ) بلندی پر، اور کوہالہ سے 76 کلومیٹر دور ہے۔ ادھر جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ راستہ سیدھا سیدھا تھا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے ساتھ روڈ لگتی ہے اور مظفرآباد کے راستے کوہلہ اور سوڈنگلی سے بھی ایک رابطہ روڈ ہے۔ ساری منصوبہ بندی کر کے ہم نے کوچ بک کرائی اور روانہ ہوگئے۔ اسلام آباد تک کا سفر کافی آسانی سے گزرا۔ اسلام آباد ہم موٹروے سے پہنچے اور اس کے بعد کہوٹہ روڈ سے ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت طے کر کے راولاکوٹ پہنچے۔ چلتے چلتے یہ بتاتا چلوں کہ کہوٹہ روڈ نے موٹر وے پر ہموار سفر کا سارا مزا کرکرا کردیا اور اس وقت میرے دماغ میں بار بار یہ گانا آ رہا تھا“گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہولے ہولے...”۔ کہوٹہ سے راولاکوٹ تک کا سفر ہے تو صرف ساڑھے تین گھنٹے کا تھا لیکن ناہموار سڑکوں نے اسے ہمارے لیے چیلینج ہی بنا دیا۔ان ہچکولوں اور بل کھاتی سڑکوں کے باعث میری اور فیملی کے چند افراد کی طبعیت بھی خراب ہوئی۔ طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے دو تین بار گاڑی کو رکوانا پڑا۔ دیو قامت درخت ہریالی اور بلند ترین پہاڑوں کا نظارہ دلکش تھا۔ہمت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے آخر کار ہم راولاکوٹ سٹی پہنچے۔ راولاکوٹ سٹی بظاہر بہت اچھی تھی۔ وہاں پہنچ کر ہمیں اپنا ریسٹ ہاؤس ڈھونڈنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ فریم ویلی ریزورٹ راولاکوٹ پہنچ کر ہم نے سکھ کا سانس لیا۔ ریزورٹ بالکل ڈیم کے ساتھ واقع ہے اور اس کی چاروں اطراف بہت خوب صورت اور دلفریب مناظر تھے۔ ادھر پہنچ کر ہم کو پہلے جس چیز نے تنگ کیا وہ تھی گرمی۔ راولاکوٹ کا موسم بہت عجیب تھا صبح کو تیز دھوپ، رات کو قدرے ٹھنڈا۔ پہلے دن جیسے ہی ہم ریزورٹ پہنچے تو سب سو گئے لیکن میرے اور میرے کزن کے کمرے میں پنکھا نہیں تھا تو ہم دونوں چاہتے ہوئے بھی سو نہ پائے۔ رات کے کھانے میں بار بی کیوکے بعد ریزورٹ والوں نے ہمیں پروجیکٹر دے دیا کہ آپ اس پر فلمیں دیکھ لیں۔ خوش قسمتی سے میں اپنا لیپ ٹاپ ساتھ لے کر گیا تھا تو ہم سب نے مل کر منا بھائی ایم بی بی ایس دیکھی اور بڑا شغل لگایا۔ پہلی رات کی نیند میں کچھ خاص بات تھی۔ صبح میں کچھ ایسے اٹھا جیسا کبھی کسی دباؤ تھا ہی نہیں۔ دوسرے دن ارادہ تو ہمارا تولی پیر جانے کا تھا مگر سورج بادلوں کو چیر کر سر پر آ کھڑا ہوا جس کے باعث پروگرام اگلے دن پر ڈال دیا۔ ایک اور وجہ یہ بھی تھی ڈرائیور کو بھی بخار ہو گیا تھا لیکن انھوں نے ہمیں اپنے بہت سارے سفروں کے قصے سنائے جن میں شیطانی پہاڑیوں کا واقعہ قابل ذکر اور دلچسپ تھا۔ہم پھر راولاکوٹ سٹی کا چکر لگا کر آئے۔مزے مزے کے کھانوں اور چائے پر سب کا زور رہا۔ اگلے دن ہم جاگے اور تولی پیر کی طرف روانہ ہوگئے۔ ٹوٹی ہوئی سڑکوں کے پیش نظر ہم نے دعا اور دوا سے سفر شروع کیاتولی پیر راولاکوٹ کا سب سے خوبصورت اور پرکشش مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہ تین مختلف پہاڑی راستوں کا اصل مقام ہے۔ یہ تولی پیر روڈ پر راولاکوٹ شہر سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ با آسانی ڈھائی گھنٹے بعد ہم ایک مقام پر پہنچے جہاں 50 سے زائد گاڑیوں کا ٹریفک جام تھا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ پاکستانی عوام کتنی دلیر ہے۔ جن علاقوں میں 1800 سی سی گاڑیاں پھنس رہی ہوتی ہیں وہاں یہ لوگ اپنی 660 سی سی لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ اکثر جب بھی پہاڑوں میں گاڑیاں پھنسی ہوتی ہے اس کی اصل وجہ چھوٹے انجن والے کی جلد بازیاں ہوتی ہے۔ وہاں پر بھی یہی دیکھنے کو ملا۔تولی پیر سے تھوڑا نیچے آئے تو سوچا کہ یہاں تصویریں بنا لیتے ہیں لیکن وہاں اتنا گند تھا جس کی کوئی حد نہیں۔ ہم نے وہاں اترنے سے زیادہ واپسی کو ترجیح دی اور دوران واپسی ہمیں ایک اچھا پوائنٹ مل گیا۔ ہم لوگوں نے وہاں تصویریں بنائیں بادلوں میں گھری ہوئی جگہ کو دیکھ کر مجھے کشمیر کا ہی ایک اور مقام ساران یاد آگیا۔ سب نے مختلف پوززمیں تصویریں لیں اور خوب مزا کرتے ہوئے واپس آگئے۔واپس پہنچ کر ہم نے تلی ہوئی مچھلی کھائی اور اور پھر گپ شپ میں آدھی رات ہو گئی۔ اگلی صبح ہوئی تو ہم نے بنجوسہ جانے کا ارادہ کیا۔ یہ راولاکوٹ شہر سے 19 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ تحصیل ہجیرہ، ضلع پونچھ (اے کے) میں واقع ہے۔ کہنے کو تو بنجوسہ ایک خوبصورت جھیل ہے جو سرسبز پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے لیکن وہاں پہنچ کر کچھ اور ہی دیکھنے کو ملا۔ ہر طرف آئس کریم یا لیز چپس کے ریپر پڑے تھے۔ لگ بھگ 19 سال کی دو لڑکیاں نشانہ لگا رہی تھی کہ دیکھتے کس کا جوس کا ڈبہ کوڑے دان میں گرے گا۔ میں پاس کھڑا سب دیکھ رہا تھا اور ایک نتیجے پر پہنچا۔ نہ ان کا نشانہ اچھا تھا اور نہ ہی ان کی تربیت۔ ہم سب کو کشتی چلانے کا شوق ہے پر جھیل کا گندا پانی دیکھ کر پہلی بار بوٹنگ کا ارادہ ترک کردیا جھیل کو لمبے گھنے درختوں کے جنگل نے گھیرا ہوا تھا، اتنا خوب صورت نظارہ تھا مگر جھیل اور اردگرد کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے مزا کرکرا ہوگیا۔مجھے جھیل سیف الملوک یاد آگئی جو پہاڑوں میں گھری ہوئی تھی مگر بہت صاف تھی۔ واپس ریزورٹ آکر ہم نے پیکنگ شروع کردی اور اگلے دن صبح چھ بجے واپس روانہ ہو گئے۔ واپسی پر ہم روات کے راستے جی ٹی روڈ سے لاہور آئے۔ ایک دفعہ مرزا اسد اللہ خان غالب نے کہا تھا قومیں بادشاہوں سے نہیں عوام سے بنتی ہیں اور اگر آج آپ کبوتر نہ اڑا رہے ہوتے تو ملک کچھ اور ہوتا۔ جس دن ہم لوگوں نے بھی کوڑے کے ڈبے پر نشانہ لگانا، سڑک پر ٹھونکنا چھوڑا ہم بھی بدل جائیں گے اور ہمارے سیاحتی علاقوں کی کشش کئی گنا بڑھ جائے گی۔