وزیر اعلیٰ پنجاب کے خوش کن اقدامات کا اعلان مگر...

  وزیر اعلیٰ پنجاب کے خوش کن اقدامات کا اعلان مگر...
  وزیر اعلیٰ پنجاب کے خوش کن اقدامات کا اعلان مگر...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یوں تو ہماری وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز مشرق وسطیٰ اور یورپ کے ممالک میں کئی شہروں کی سیر کر چکی ہیں اور وہاں رہائش پذیر بھی رہ چکی ہیں مگر حالیہ دورہ چین نے انہیں کئی حوالوں سے بہت متاثر کیا ہے اور انہیں سمجھ آئی ہے کہ قوموں کی ترقی اور وقار کیا ہوتا ہے اب وزیر اعلیٰ صاحبہ پر اس دورے کا اثر کب تک رہے گا اس کا تو علم نہیں لیکن انہوں نے چین سے واپسی پر ایک اعلی سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ان تمام خوش کن اقدامات کا حکم صادر فرمایا ہے جن کی ہم جیسے پردیس میں رہ چکے لوگ دہائیوں سے خواہش رکھتے تھے ہماری نظر میں کسی بھی ملک، صوبے یا شہر کی سوچ، ترقی یا وہاں کے رہنے والوں کی صلاحیتوں کا اندازہ ان کی صفائی، سڑکوں کی حالت، ٹریفک کے نظام اور ان کے اخلاق کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی بندہ ہماری ایئرپورٹس سے شہر میں داخل ہونے تک ہماری سوچ اور حکومتی کارکردگی کو بخوبی سمجھ سکتا ہے

ہمارے معاشرے کے بڑے مسائل ہمارے گلی محلوں میں پڑے گند اور سڑکوں پر انتہائی بے ہودہ اور بے ہنگم ٹریفک سے شروع ہو کر سرکاری دفاتر میں عوام کی تذلیل تک اور کچہریوں میں خوار ہوتے انصاف کے متلاشیوں تک نظر آتے ہیں 

بہرحال وزیر اعلیٰ پنجاب نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے یا حکم دیا ہے وہ نہایت قابل ستائش ہیں، اگر ان پر بھی عملدرآمد ہو جائے تو، (جس کی ہمیں بالکل بھی امید نہیں ہے۔) محترمہ نے فرمایا ہے کہ ہم قبضہ مافیا کو کھلا نہیں پھرنے دیں گے اور فوری طور پر تمام شہروں سے تجاوزات ختم کروائیں گے۔ آپ نے تمام سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی فوراً مرمت کرنے کا بھی حکم دیا ہے، پنجاب کو پلاسٹک فری کرنے کا بھی ایک بار پھر حکم دیا ہے (ویسے وزیر اعلیٰ صاحبہ کو یاد ہوگا کہ وہ جون سے مومی شاپرز پر پابندی لگا چکی ہیں جس پر آدھا سال گزر جانے کے باوجود 10 فیصد بھی عملدرآمد نہیں ہوا) وزیر اعلیٰ صاحبہ نے سڑکوں پر موٹر سائیکلوں کی الگ لائن لگوانے، طلبہ و طالبات کو لے جانے والی گاڑیوں کے کنٹرول اور آوٹ سورس کیے گئے تعلیمی اداروں کی نگرانی کے بھی احکامات دئیے ہیں، اور سب سے زیادہ خوش کن اقدام شہروں کی صفائی کا حکم ہے۔ لیکن ایک حیران کن حکم بھی دیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر صاحبان کرپشن کے خلاف کارروائی کریں (پہلے یہ پتا کرنا چاہیے تھا کہ کرپشن کرواتا کون ہے؟)

اگر ان احکامات پر واقعی عملدرآمد ہو جائے تو ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں اور ہم وزیر اعلی کو پاکستان کی وزیر اعظم دیکھنے کے خواہاں ہوں گے۔

مگر ہمیں امید بہت ہی کم ہے ہماری ناامیدی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ محترمہ مریم نواز کے احکامات وہی ہیں جو ملک امیر محمد خان، غلام مصطفی کھر، حنیف رامے، میاں نواز شریف میاں شہباز شریف اور چوہدری پرویز الٰہی صاحب بھی اپنے اپنے وقت پر دے چکے ہیں اور ان پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا ہے ہماری وزیر اعلی کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آپ کے پیش روؤں میں کئی بڑی بڑی مونچھوں والے اور بارعب مرد حضرات تھے جن کا بیوروکریسی اور عوام پر بہت دبدبا بھی تھا لیکن وہ بھی اپنے اعلانات اور احکامات پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تاہم سوشل میڈیا سے پہلے کے زمانے میں کچھ پردہ داری رہ جاتی تھی اب تو کوئی بھی چیز کیمرے کی آنکھ سے محفوظ نہیں ہے۔ محترمہ آپ کے خوش کن اقدامات پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ اسی روایتی طریقہ کار سے بیوروکریسی سے کام لینا چاہ رہی ہیں اور اسی بیوروکریسی کی رپورٹس پر اکتفا فرما رہی ہیں حالانکہ آپ کا خاندان کا 40 سالہ اقتدار کی راہ داریوں سے گزر رہا ہے اب تک آپ کو یہ بات جان لینی چاہیے تھی کہ اس ملک کے مسائل ہماری اسی بیوروکریسی کے پیدا کردہ ہیں جن سے آپ مسائل حل کروانے کی خواہش رکھتی ہیں، آپ کو یہ اندازہ بھی بخوبی ہو گا کہ بیوروکریسی کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے۔ محترمہ آپ اپنے ڈپٹی کمشنر صاحبان سے بدعنوانی کے خاتمے کی امید رکھتی ہیں آپ واقعی اتنی سادہ ہیں یا عوام کو لولی پاپ دکھا رہی ہیں؟ اگر ڈپٹی کمشنر صاحبان بدعنوانی کا خاتمہ کرنے والے ہوتے تو بدعنوانی ہوتی ہی کیوں؟ یہ کمشنری کا نظام انگریزوں کا بنایا ہوا ہے اور اس کا مقصد مفتوح عوام پر قابو رکھنا تھا انگریزوں کے چلے جانے کے بعد اس نظام کی ضرورت نہ تھی مگر اس ملک کے فیصلوں  سازوں نے اس نظام کو جاری رکھا کیونکہ وہ بھی عوام پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتے ہیں 

محترمہ سے گزارش ہے کہ اگر آپ واقعی عوام کے مسائل حل کرنا چاہتی ہیں، اگر آپ واقعی اپنے صوبے کو خوشحال دیکھنے کی متمنی ہیں تو پھر سب سے پہلے موجودہ سسٹم کو بدلنے کی منصوبہ بندی کیجیے، روایتی سوچ، روایتی اور نمائشی اقدامات اور بیوروکریسی کے رحم و کرم سے ہٹ کر کام کرنا ہوگا، اداروں کی تعمیر نو کرنا ہوگی، اگر آپ چائنہ یا یورپ کے نظام سے متاثر ہیں تو پھر ان کے طریقہ کار اور ان کے نظام کو سمجھنے کی کوشش کیجیے اور ایسے لوگوں سے کام لیجیے جو بیرون ممالک رہے ہوں وہاں کے نظام سے واقف ہوں اور اپنے ملک کے لیے بے لوث ہوں ورنہ آپ کے سارے اعلانات ہوائی رہیں گے اور سارے اقدامات تشنہ عملدرآمد رہیں گے۔ یہ خاکسار لاہور کے ایک ریستوران سے کھانا لینے گیا تو وہ سب کو گرم کھانا مومی لفافوں میں دے رہا تھا میں نے اسے کہا کہ تمہیں پتا نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے جون سے مومی لفافوں پر پابندی عائد کر دی ہوئی ہے تو اس کا جواب تھا "وزیر اعلیٰ کو کون پوچھتا ہے"

محترمہ آپ اپنے ذاتی ملازمین کو لاہور شہر کے مختلف علاقوں میں بھیج کر پتا کروا لیں کہ آپ کے احکامات پر کتنا عمل ہو رہا ہے؟

ہم تو مشورہ دے سکتے ہیں کہ اگر آپ واقعی ایک کامیاب وزیر اعلیٰ کے طور پر تاریخ میں اپنا نام لکھوانا چاہتی ہیں اور مستقبل میں پاکستان کی وزارت عظمی کا خواب دیکھ رہی ہیں تو پھر روایتی ہتھکنڈوں سے نکل کر نظام کو بدلنے کی کوشش کیجیے۔ 

مزید :

رائے -کالم -