ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ         (4)

ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ         (4)
ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ         (4)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہم نے آپ کو نظر بندی کے اس دور میں بھی دیکھا، جب آپ کے آنے جانے کیا باہر نکلنے پر بھی سخت پابندی تھی، اور آپ اس سے سخت بے زار بھی تھے، اس وقت بھی یہ عالم تھا کہ آپ اچانک باہر نکل آتے، اور راہ چلتے لوگوں سے سلام دعا کرتے رہتے۔ آپ سے ملنے کی صورت یہ ہوتی تھی کہ آپ کے گھر سے متصل بعد والے مکان میں مہمانوں کی سیکورٹی چیکنگ کرنے کے بعد اسی گھر سے درمیان میں ایک دروازہ نکال کر راستہ بنایا گیا تھا، واپسی بھی اسی گھر سے ہوتی۔ جب کہ اس سے قبل شناختی کارڈ وغیرہ کئی گھر پہلے ایک چوکی میں چیک کیے جاتے، ڈاکٹر صاحب کی جانب سے آنے والی مہمانوں کی فہرست سے کارڈ ملائے جاتے، ایک بار یوں ہوا کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے منع کرنے کے باوجود ہمیں رخصت کرنے اندر سے صحن میں آ گئے، اور ملازم سے کہا کہ دروازہ کھول دو، یوں بہ راہ راست ہمیں گھر سے باہر سڑک پر لے آئے، اس دوران سیکورٹی پر مامور افراد کی دوڑ لگ گئی، مگر آپ سب سے بے نیاز سڑک پر کھڑے ہو گئے اور آتے جاتے افراد کو سلام کرتے اور ہاتھ ہلاتے رہے۔اس نوعیت کے ایک سفر میں ایک لطیفہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی جانب سے سیکورٹی اہل کاروں کو فراہم کی جانے والی مہمانوں کی فہرست میں ہمارا نام پروفیسر عزیز الرحمن  لکھا ہوا تھا، ڈاکٹر صاحب شروع ہی سے ہمیں اسی نام سے یاد کرتے تھے، اب ان کو تصحیح کون کراتا، جب کہ شناختی کارڈ پر نام سید عزیز الرحمن ہے، صرف اس بنیاد پر ہمیں بہت دیر تک روکا گیا کہ آپ کا نام فہرست میں موجود نام کے مطابق نہیں، کچھ دیر تو ہم نے صبر کیا، پھر ہمیں بھی طرارا آگیا، ہم نے سیل فون نکالا اور کہا کہ میں ابھی ڈاکٹر صاحب کو فون کرتاہوں، ان سے ہی تصدیق کراتا ہوں، پھر شاید کوئی کرنل صاحب اندر سے تشریف لائے اور ہمیں اجازت ملی۔ڈاکٹر صاحب اپنے معمولات اور اوقات کار کے بہت پابند تھے، ان کی لغت میں ہمارے معمول کے برعکس چار بج کر بیس منٹ کا مطلب پورے بیس منٹ ہی تھا، نہ اکیس نا بائیس۔ایک بار شاید چار بجے کا وقت طے ہوا، میں احتیاطا کوئی پانچ سات منٹ پہلے ہی پہنچ گیا، مگر حفاظتی عملے کی کارروائی میں اضافی دس سے بارہ منٹ صرف ہوگئے، جب میں برابر والے گھر سے آپ کے گھر میں داخل ہو رہا تھا تو مجھے میسج آگیا کہ اتنے منٹ تاخیر ہو گئی، میں اگلے ہی لمحے ان کے سامنے تھا، آپ کو سلام کرتے ہی عذر خواہی کی کہ میں گزشتہ بیس منٹ سے دروازے پر ہوں، آپ تصدیق  فرما لیجیے، عملے نے تاخیر کی، ڈاکٹر صاحب ایک دم غصے ہوگئے، اور اپنے خالص بھوپالی لہجے میں عملے کو قدرے نرم درجے کی ایک گالی دے کر اپنے ملازم سے بولے کہ آج ڈیوٹی پر کون سا۔۔۔ ہے، مجھے بتاو، تم مجھے فون کرتے تو میں اسی وقت انہیں سناتا، جب میں نے نام خود دیا ہے تو پھر انہیں کیا تشویش ہے، میں نے انہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے بہت کہا کہ ہمیں اس سے کوئی زحمت نہیں ہوتی، آپ ملک و ملت کا سرمایہ ہیں، آپ کا تحفظ ہم سب کی ضرورت ہے، مگر وہ مسلسل اپنے نا ملائم جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ کراچی میں ان کی بہن کے گھر پر ملاقات کے دوران پیش آیا، جب ہمیں فہرست میں نام ہونے کے باجود کافی دیر باہر روکا گیا، جب کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس وقت کم تھا، اور وہ ہمارے ہی منتظر تھے، اس وقت تو مجبورا انہیں فون کرنا پڑا، تب کہیں جاکر ان تک رسائی ممکن ہوئی، اس موقع پر بھی ان کا غصہ بل کہ جلال دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔اسی طرح جناب سیدنعیم حامد علی الحامد راوی ہیں کہ ایک بار ان کی پاکستان آمد پر انہیں اپنے ہاں ٹھہرایا، اس سے قبل بھی وہ اسلام آباد آمد پر ڈاکٹر صاحب کے ہاں ہی ٹھہرتے تھے، اور ان کی رہائش گاہ کا خاص اہتمام کیا، گاڑی، ڈرائیور، سب ان کی خدمت کے لیے ہر وقت موجود رہتے۔ اس کے باوجود پہلے ہی روز ڈاکٹر صاحب نے بتادیا کہ ہمارے ہاں اتنے بجے ناشتے، اتنے بجے ظہرانے اور اتنے بجے عشائیے کا اہتمام ہوتا ہے، اگر آپ ہمارے ساتھ کھانے میں اور ناشتے میں شریک ہونا چاہیں تو وقت کا خیال رکھیے گا، ورنہ آپ وقت بتا دیجئے گا، ناشتہ اور کھانا اس وقت آپ کے کمرے میں پہنچ جایا کرے گا۔ایک بار اپنا صبح کا معمول بتاتے ہوئے آپ نے کچھ اس طرح فرمایا تھا اگرچہ اب ساری تفصیل یاد نہیں کہ فجر کی نماز سے اتنا پہلے اٹھتا ہوں، فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد تلاوت اور یہ عمل شاید کوئی گھنٹہ بھر جاری رہتا ہے، جس میں قرآن کریم کے ترجمے سے بھی استفادہ ہوتا ہے، پھر ایکسرسائز جس کے لیے فزیو تھراپسٹ آتا یے، اور پھر ناشتہ۔ اس کے بعد روز کے معمولات شروع ہوتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کا پڑھنے اور لکھنے کا معمول بھی مدت العمر جاری رہا۔ ان کے اخباری کالم سے تو سبھی واقف ہیں لیکن اس دوران وہ تاریخی، مذہبی اور ادبی کتب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں مختلف سائنسی موضوعات اور مختلف سائنسی مضامین پر بھی لکھنے لکھانے کا عمل بھی جاری رہتا تھا، ایک بار میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو آپ کے سامنے نہایت پیچیدہ زبان میں انگریزی کے کچھ کاغذات موجود تھے، اپنے طبعی تجسس کی بنا پر ہم نے ان پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش کی تو چند سطروں میں ہی سر گھومنے سے لگا، ڈاکٹر صاحب سے ہم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے اور کس زبان میں لکھا گیا ہے، اب تفصیل تو یاد نہیں، آپ نے فزکس اور کسی موضوع کا نام لے کر کہا کہ ان دونوں حوالوں سے  ایک عنوان پر ایک بین الاقوامی مجلے کے لئے مضمون تحریر کیا ہے، آخری بار اس پر ایک نظر دوڑانی ہے، پھر رات میں اسے ای میل کروں گا۔ یہاں اس بات کا اظہار بھی شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ ای میل کے ذریعے ہونے والی آپ کی زیادہ تر بلکہ شاید ساری خط و کتابت آپ کی جانب سے آپ کی اہلیہ کیا کرتی تھیں۔یاد رہے کہ دنیا بھر کے مانے ہوئے مختلف سائنسی مجلات میں آپ کے شائع شدہ مقالات کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد بیان کی جاتی ہے۔ آپ کی حساس اور اعصاب شکن ذمے داریوں کے ساتھ اس تعداد کو دیکھا جائے، تو آپ کی محنت اور اس ذوق تحقیق کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے۔عملی زندگی میں آپ کی ایک خوبی آپ کا آگے بڑھ کر جان پہچان کے بغیر ہر چھوٹے بڑے کو مسکرا کر سلام کرنا اور دوسروں کے سلام کا جواب دینا تھا۔ اسی طرح جس کسی سے تعلق ایک بار قائم ہوجاتا تو اسے نبھانے کا اہتمام بھی آپ پر شاید ختم تھا، یہی نعیم صاحب ایک بار پاکستان آئے اور اسلام آباد جانے کا عزم کیا۔ ڈاکٹر صاحب کو اطلاع کی توانہوں نے آپ کی رہائش کا انتظام ایک چار ستارہ ہوٹل میں کردیا، ان دنوں مصروفیت بھی شاید زیادہ تھی تو ایک دو روز ملاقات بھی نہ ہو سکی، جب ملے تو انہیں بتایا کہ باہر سے مہمانوں کی آمد زیادہ ہے، آپ کو گھر پر ٹھہرنے میں دشواری ہوتی، اس لیے آپ کے قیام کا انتظام باہر کیا گیا ہے۔     ٭

مزید :

رائے -کالم -