گاؤں سے 4گھنٹے پیدل یا بیل گاڑی پر سفر کر کے فورٹ عباس یا قریبی اسٹیشن ٹبہ عالمگیر پہنچتے،چھوٹے اسٹیشن دو تین ہی مشہور ہوئے، ایک ڈونگا بونگا تھا

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:258
بہاول نگر کے بعد فورٹ عباس تک اس لائن پر چھوٹے اسٹیشن تو کافی تھے تاہم ان میں دو تین ہی مشہور تھے۔ ایک ڈونگا بونگا، جو بہاول نگر کے قریب ہی ایک اہم قصبہ تھا، دوسرا بڑا شہر ہارون آباد آتا تھا، جس کا پرانا نام بدرووالا تھا، یہ اپنے ارد گرد کے قصبوں سے نسبتاً زیادہ آبادی، اجناس خصوصاً کپاس کی بڑی منڈی کے علاوہ لکڑیوں کے کاروبار کے لیے بھی جانا پہچانا جاتا تھا۔ ہارون آباد ہر لحاظ سے گو فورٹ عباس سے کافی بڑا اور مشہور شہر تھا، تاہم پہلے اسے ایک سب تحصیل کا درجہ دے کر فورٹ عباس تحصیل ہیڈ کوارٹرز کے ماتحت کر دیا گیا تھا لیکن اب اسے خود مختار تحصیل کا درجہ مل گیا ہے، اسی مناسبت سے یہاں سرکاری دفاتر اور ادارے موجود ہیں۔ جب یہ ریلوے لائن شروع ہوئی تھی تو ہارون آباد ایک مختصر سا قصبہ ہوا کرتا تھا، جس میں بڑی غلہ منڈی اور ایک عام سا بازار ہوتا تھا، اسٹیشن شہر سے کافی باہر بنا ہوا تھا۔ اس کے ارد گرد کی زمین بہت زرخیز ہے اور نہری پانی کی آمد سے یہاں کی نہروں اور سڑکوں کے علاوہ کھیتوں میں بھی لوگوں نے جی بھر کے سایہ دار اور پھل دار درخت لگائے تھے۔
اب تو یہ ایک اچھا خاصا شہر بن گیا ہے۔ جہاں بہت بڑے کاروباری مراکز، کاٹن اور آئل فیکٹریوں کے علاوہ پاکستان میں چائے کی پیکنگ کا ایک بڑا کارخانہ ہے۔ ہارون آباد میں سرکاری اور نجی کالج تو موجود ہیں لیکن فی الحال یہاں یونیورسٹی کی سطح پر کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ یہاں کے لوگ بھی قریبی علاقوں میں رہنے والوں کی نسبت قدرے خوشحال ہیں۔
یہاں سے گاڑی کی 2 گھنٹے کی مسافت پر، جو اب سڑک کے راستے کم ہو کر محض 45 منٹ رہ گئی ہے، اس لائن کا آخری اسٹیشن فورٹ عباس آ جاتا ہے۔ یہاں پر ہمیں کئی وجوہات کی بنا ء پر کچھ دیر کے لیے قیام کرنا ہو گا، جس میں سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ میں نے اسی علاقے کے ایک گاؤں میں جنم لیا اور ان ہی ریل گاڑیوں پر سفر کرتا رہا تھا۔ پہلے ہم اپنے گاؤں سے چارگھنٹے کا پیدل یا بیل گاڑی پر سفر کر کے فورٹ عباس یا ایک اور قریبی اسٹیشن ٹبہ عالمگیر پہنچتے تھے۔ میں بعد میں گو یہاں زیادہ عرصہ نہیں رہا، تاہم اپنی جنم بھومی اور میرے پرکھوں کی آخری آرام گاہوں کی وجہ سے مجھے اس علاقے سے بڑا لگاؤ اور شدید محبت ہے۔ میرا بچپن اپنے گاؤں کی ریت سے بھری ہوئی گلیوں میں گزرا۔ جس کی ساری روداد میری خود نوشت”اچھی گزر گئی“ میں تحریر ہو گئی ہے۔
فورٹ عباس، دشت میں اک شہر ہے
اے قلعہ عباس، اگر میں تجھے بھولوں
تو میرا دایاں ہاتھ اپنا ہنر بھول جائے
فورٹ عباس، بہاولنگر ضلع کے رقبے کے لحاظ سے ایک بڑی تحصیل مگر ایک چھوٹا اور قدرے پسماندہ سا قصبہ ہے جس کو جنوبی پنجاب کا اس علاقے میں آخری شہر بھی کہا جا سکتا ہے۔ فورٹ عباس کے ساتھ ہی لگتا ہوا، کچھ ہی فاصلے پر عظیم صحرائے چولستان شروع ہو جاتا ہے جس کا دوسرا سرا رحیم یار خان سے جا ملتا ہے اور پھریہ وہاں سے اپنا راستہ بناتا ہوا سندھ کے تھر ریگستان سے بھی گلے لگ جاتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔