ای او بی آئی کے پنشنروں کی فریاد، کچے کے ڈاکوؤں کا حل!
دو تین ہفتوں سے ای او بی آئی پنشنروں کی طرف سے فون کے ذریعے اصرار ہے کہ ان کی پنشن کے حوالے سے پھر لکھوں کہ مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی کو مسلسل لوٹا جا رہا ہے اور حق دار پنشنروں کی ماہانہ پنشن میں اضافہ نہیں کیا جا رہا، بلکہ وفاقی حکومت اور ادارے کا رویہ سردمہری کا ہے۔ ای او بی آئی کے پنشنر حضرات کا موقف ہے کہ وہ نہ تو بھیک مانگتے ہیں اور نہ ہی سرکاری خزانے سے کسی رعایت کے لئے کہہ رہے ہیں بلکہ وہ تو عمر بھر اپنی تنخواہوں کی کٹوتی کراتے رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو پنشن ملتی ہے۔ ملتان سے ایک پنشنر نے فون پر بتایا کہ سرکار نے ای او بی آئی میں سینکڑوں افسر اور ملازم بھرتی کر رکھے ہیں جو کسی کام کے بغیر تنخواہوں کے علاوہ خوردبرد کے بھی ذمہ دار ہیں،مرکزی سطح پر چیئرمین اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے علاوہ درجنوں ڈائریکٹر جنرل اور ان کا عملہ ہے جو اعلیٰ گریڈوں کے مطابق مشاہرے اور مراعات وصول کرتے ہیں،حالانکہ اس مقصد کے لئے اتنے بڑے سیٹ اپ کی ضرورت نہیں۔
اس فون کے علاوہ کئی مقامی بزرگ پنشنروں نے بھی رابطہ کیا، لاہور سے سلیمی صاحب نے بتایا کہ ان کو معاشرے میں سینئر سٹیزن کا جو احترام ملنا تھا اسے اس ادارے کو لگی جونکوں نے مٹی میں ملا دیا ہے،ان حضرات کا شکوہ بالکل درست ہے۔ اب تو صدر پاکستان آصف زرداری نے بھی اپنے غصے کا اظہار کیا ہے کہ یہ ادارہ ایک مرحوم پنشنر کے نابینا بیٹے کو اس کی پنشن ادا نہیں کر رہا تھا۔
بزرگوں کی فرمائش پر ایک بار پھر بتانا لازم ہو گیا کہ یہ ای او بی آئی ہے کیا؟ اور اس کے پنشنر کون ہیں، یہ ادارہ اور پنشن کا سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا، یہ نظریہ یا طریق کار ترقی یافتہ ممالک سے مستعار لیا گیا۔ اس کے تحت یہ طے کیا گیا کہ سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں کو باقاعدہ رجسٹر کیا جائے، اس کے لئے ملازمین کی کم از کم حد بھی مقرر کر دی گئی، قانون کے مطابق ہر رجسٹرڈ ادارے کے ملازم کی تنخواہ میں سے ایک حصہ ہر ماہ کاٹ لیا جاتا ہے۔ مقررہ شرح کے مطابق آجر پر بھی ہر ملازم کے حصے کے ساتھ اپنا حصہ ڈالنا لازم ہے اور پھر ایک شرح سے سرکار کو بھی اپنی طرف سے حصہ دینا ہوتا ہے، یہ سب جمع تو ہوجاتا ہے لیکن اس سے ادائیگی ہر ملازم کو ریٹائرمنٹ کے بعد ماہانہ پنشن کے طور دی جائے گی تاکہ بڑھاپے میں آسرا ہو۔ بھٹو دور میں ایک ہزار روپے ماہوار پنشن شروع ہوئی جو اب صرف دس ہزار روپے ماہوارتک پہنچی ہے، حالانکہ اس عرصہ میں مہنگائی کی شرح کئی سو گنا بڑھ گئی اور روپے کی قدر گھٹ کر رہ گئی، یہ معمر لوگ مطالبے کرتے رہے اور پھر حکومت نے مہربانی کی کہ پنشن کی شرح مزدور کی کم از کم مقررہ تنخواہوں کے مطابق کر دی لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا۔ اس عرصہ میں ای او بی آئی کے پاس اربوں روپے جمع ہوئے اور پھر کروڑوں اور اربوں ہی کے حساب سے غبن بھی ہوا، لیکن نہ تو کسی بڑے کو سزا ہوئی اور نہ ہی کوئی ریکوری ہوئی۔اب بھی بڑے بڑے گریڈوں والے افسر تعینات ہیں اور بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کی خبریں آتی رہتی ہیں، لیکن پنشنروں کو اضافہ نہیں دیاجاتا، وزیر خزانہ اورنگزیب نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ وزارت خزانہ کا ای او بی آئی سے کوئی تعلق نہیں، یہ نجی ادارہ ہے۔
معمر شہری یہ پوچھنے میں حق بجانت ہیں کہ اگر اب وزیرخزانہ یہ فرماتے ہیں تو وہ ذرا ریکارڈ دیکھ کر تصحیح کرلیں کہ ای او بی آئی کی تقرریاں حکومت کرتی اور ماضی میں جب بھی پنشن میں معمولی اضافہ ہوا تو وزارت خزانہ کی اجازت سے ہوا، پنشنر حضرات نے اب وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ ان کے خون پسینے سے جمع کی ہوئی رقوم میں سے ان کا حق ان کو دیا جائے۔ ای او بی آئی کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے اور پنشن سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق مزدور کی مقررہ تنخواہ کے مطابق کی جائے۔
لکھنے کے لئے موضوعات کی کمی نہیں، تحریک انصاف کی بدحواسی پر لکھا جا سکتا ہے۔ خیال تھا کہ یوٹیلٹی سٹورز کی بندش، ڈاکوؤں کے ہاتھوں پولیس اہل کاروں کی شہادت یا مہنگائی پر لکھا جائے لیکن درمیان میں معمر افراد کی فریادیاد آ گئی۔ اب یہ موضوع زیر تحریر ہے تو اسے دوسرے پہلو سے دیکھتے ہیں، وفاقی حکومت کی وزارت خزانہ اور خود حکومت جو آئی ایم ایف کے قرضے کی راہ دیکھ رہی اور فنڈ والوں کی شرائط سے پریشان ہونے کے باوجود پوری کررہی ہے۔ وہ ان شرائط میں سرکاری ملازمین کی پنشن کا مسئلہ بھی ہے اورحکومت اسے بند کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے حالانکہ حل بالکل سامنے ہے اور وہ بھٹو (مرحوم) کی بڑھاپے کی پنشن سکیم ہے جسے ای او بی آئی کا نام دیا گیا ہے، اس وقت اد ارے کے پاس اربوں روپے جمع ہیں تو اربوں ہی کی جائیدادیں بھی ہیں،اگر حکومت اس سکیم کا دائرہ تمام ملازمین پر پھیلا دے تو کٹوتی میں اتنے کھربوں روپے جمع ہوں گے جو شاید کسی صوبائی حکومت کے بجٹ سے بھی زیادہ ہوں اور اگر ان کٹوتیوں کے لئے بنائے گئے ادارے کا نظم و نسق ڈاکٹر امجد ثاقب کے اخوت کی طرز پر بے داغ ہو اور ڈاکٹر امجد جیسا ہی کوئی دیانت دار اور اہل فرد ادارے کا سربراہ ہو تو نہ صرف پنشن کا مسئلہ عمر بھر کے لئے حل ہو جائے بلکہ حکومت کی طرف سے شہداء یا حادثاتی موت کے لئے دیئے جانے والے وظیفہ کو بھی ادھر منتقل کیا جا سکے گا۔ یقین ہے کہ یہ تحریر راستے کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ایک ایتھلیٹ کی طرح اپنی منزل وزیراعظم تک پہنچ جائے گی اور وہ موجودہ ای او بی آئی پنشنر حضرات کی پنشن نوٹیفکیشن کے مطابق کرکے سرکاری ملازمین کے لئے بھی یہ سکیم رائج کرکے مشکل سے نجات پا جائے گی۔
آخر میں دیگر مسائل کو چھوڑتے ہوئے پولیس اہل کاروں کی ڈاکوؤں کے ہاتھوں شہادتوں کے حوالے سے چند گزارشات لازمی ہیں۔ بہت سے احباب نے اس پر بہت کچھ لکھا اور دکھایایا بولا، سب ایک بات پر متفق ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ ہے اور ان کا مقابلہ روائتی بندوقوں سے نہیں کیا جا سکتا اور اب جو صورت حال بنی ہے وہ ویسی ہے جیسے فوج اور دہشت گردوں کی ہے اور یہ باقاعدہ ایک چھاپہ مار جنگ ہو گئی ہے جس میں تمام تر بڑے دعوؤں کے باوجود حکومت کو ناکامی ہو رہی ہے، حالانکہ کچے میں مشترکہ آپریشن بھی کئے گئے، اس لئے پہلا سوال ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ کی موجودگی ہے اور دوسرا بڑا مسئلہ ان کی سرپرستی اور پھیلاؤ ہے لہٰذا ان کے خلاف یہ جستہ جستہ اور بددلی والی سرگرمی ایسے ہی نقصانات کا باعث بنے گی۔ اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ اس عمل کو اب جنگ ہی جانا جائے، ڈرون اور زمینی خفیہ اطلاعات حاصل کرکے ایک مکمل اور جامعہ منصوبہ بنایا جائے اس میں سندھ اور پنجاب کی پولیس اور رینجرز بڑی قوت کے ساتھ مسلح افواج کے تعاون سے بڑا اور مکمل آپریشن شروع کرے، اس میں ڈاکوؤں کی اعانت کرنے والوں کو بھی گرفت میں لیا جائے اور مستقل حل کے لئے کسی بھی نقصان (سیاسی یا ذاتی) سے بالاتر ہو کر ڈاکوؤں کی مکمل سرکوبی تک مہم جاری رکھی جائے تاوقتیکہ یہ لوگ مارے جائیں، گرفتار ہوں یا پھر سرنڈر کر دیں اب زیادہ تاخیر مناسب نہیں ہو گی۔