پنجاب اور خواتین کی حکومتیں

پنجاب اور خواتین کی حکومتیں
پنجاب اور خواتین کی حکومتیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پانچ دریائوں کی دھرتی پنجاب برصغیر کا وہ خطہ ہے جو صدیوں سے تہذیب، سیاست، معیشت اور ثقافت کا گہوارہ رہا ہے، اس خطے کی تاریخ میں جہاں مرد حاکموں نے اپنی بہادری اور حکمت عملی کے ذریعے اہم کردار ادا کیا، وہاں خواتین حکمرانوں نے بھی اپنی ذہانت، بصیرت اور عزم و ہمت سے تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے، برصغیر کے دیگر خطوں کی طرح پنجاب کی تاریخ میں بھی خواتین حکمرانی کی مثالیں کم ہیں، مگر جو چند سامنے آئیں وہ غیر معمولی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاک و ہند کی تقسیم سے قبل کے پنجاب کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو رضیہ سلطان صرف پنجاب نہیں،بلکہ ہندوستان کی حکمران تھیں، مگر انہوں نے پنجاب کے لئے بہت کام کیا جبکہ مہارانی جند کور راجہ رنجیت سنگھ کے چھوڑے ہوئے بہت بڑے پنجاب کی حکمران تھیں اور تقسیم کے بعد پاکستانی پنجاب میں پہلی دفعہ ایک خاتون مریم نواز کی حکمرانی ہے ۔
 تقسیم پنجاب سے قبل رضیہ سلطان اور مہارانی جند کور جیسی حکمران خواتین کو براہِ راست اقتدار ملا یا انہوں نے بالواسطہ حکومت چلائی، مگر انہوں نے اپنی صلاحیت اور بصیرت سے تاریخ میں نمایاں مقام بنایا، متحدہ پنجاب کی تاریخ میں ان دو خواتین کے نام سنہری حروف میں لکھے جاتے ہیں،کیونکہ انہوں نے مردوں کے غلبے والے معاشرے میں اپنے حوصلے اور ذہانت سے حکمرانی کی، رضیہ سلطان دہلی سلطنت کی پہلی مسلم خاتون حکمران تھیں جبکہ مہارانی جند کور پنجاب کی سکھ سلطنت کی محافظہ کے طور پر سامنے آئیں، دونوں نے مختلف ادوار میں مختلف حالات کا مقابلہ کیا، لیکن ان کا مشترکہ پہلو یہ تھا کہ وہ کمزور حالات اور کڑی مخالفت کے باوجود اقتدار کے ایوانوں میں نمایاں رہیں ، رضیہ سلطان دہلی سلطنت کے حکمران سلطان شمس الدین التمش کی بیٹی تھیں، شمس الدین التمش ایک مدبر حکمران تھے، جنہوں نے دہلی سلطنت کو استحکام بخشا، اپنی اولاد میں سے انہوں نے سب سے زیادہ قابلیت رضیہ سلطان میں دیکھی اور اسی بنا پر انہوں نے اپنی بیٹی کو جانشین مقرر کرنے کا عندیہ دیا، یہ فیصلہ اس وقت کے معاشرے کے لئے غیر معمولی تھا، کیونکہ برصغیر سمیت پورے عالم اسلام میں عورت کا حکمران بننا عام تصور نہیں تھا۔ 1236ء میں التمش کی وفات کے بعد مختلف سازشوں کے باوجود رضیہ تخت پر بیٹھنے میں کامیاب ہوئیں، ان کے اقتدار کے آغاز ہی سے انہیں سخت مخالفت کا سامنا رہا، دہلی سلطنت کے ترک امرا عورت کو حکمران تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے، پنجاب کے کئی علاقوں، خصوصاً لاہور اور ملتان کے گردونواح میں بغاوتیں پھوٹ پڑیں، مگر رضیہ سلطان نے اپنی حکمت عملی اور بہادری سے پنجاب میں اپنی طاقت کو منوایا، وہ مردانہ لباس پہن کر میدانِ جنگ میں اترتی تھیں تاکہ سپاہیوں کا حوصلہ بلند رہے،ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو محض ایک بادشاہ کی بیٹی نہیں،بلکہ ایک حقیقی حکمران کے طور پر منوایا، انہوں نے خواتین کے لئے حکمرانی کا دروازہ کھولا، جو اس دور میں ایک انقلابی قدم تھا،انہوں نے عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کرنے کی کوشش کی،مذہبی رواداری اور عوامی بہبود پر زور دیا، دربار میں قابلیت کی بنیاد پر عہدیدار مقرر کیے۔ان کے دور اقتدار میں لاہوری اور سرہندی سرداروں کی بغاوتوں کو کچلا گیا اور سلطنت میں ایک ایسی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، جس میں عورت کو بھی اقتدار میں رہنے کا حق حاصل ہو، رضیہ سلطان کے لئے سب سے بڑے چیلنج اندرونی سازشیں تھیں، ترک امرا نے کبھی انہیں دِل سے تسلیم نہیں کیا، بالآخر 1240ء  میں بغاوت کے نتیجے میں انہیں قتل کر دیا گیا۔ ان کا دور حکومت صرف چار سال پر محیط رہا، لیکن تاریخ نے انہیں ہمیشہ پہلی مسلم خاتون حکمران کے طور پر یاد رکھا، جس نے پنجاب میں بھی اپنا تسلط بنائے رکھا۔
 مہارانی جند کور،پنجاب کی سکھ سلطنت کے بانی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بیوہ اور مہاراجہ دلِیپ سنگھ کی والدہ تھیں ،دلیپ سنگھ کم عمر تھے ،اس لئے عملی طور پر مہارانی جند کور پنجاب کی ’’سرپرست حکمران‘‘ بن گئیں،انہوں نے اپنے کم عمر بیٹے کی نیابت میں سلطنت کا نظم و نسق سنبھالا اور یہ ثابت کیا کہ عورتیں نہ صرف حکمرانی کی صلاحیت رکھتی ہیں،بلکہ سیاسی چالوں اور عالمی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہیں۔ انہوں نے بطور ماں اور بطور حکمران دونوں کردار ادا کیے، ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ سلطنت کو اندرونی سازشوں اور برطانوی دبائو سے بچانا تھا۔ مہارانی جند کور نے اپنے چار سالہ اقتدار میں کئی اہم اقدامات کیے،انہوں نے فوج کو منظم کرنے کی کوشش کی، درباری سازشوں کے باوجود تخت کی حفاظت کی، ا نگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مقابلے کے لئے سخت رویہ اپنایا، لاہور دربار کو اپنی ذہانت اور حوصلے سے متحد رکھنے کی کوشش کی۔ مہارانی جند کور کے لئے سب سے بڑے چیلنج،درباری سازشیں اور انگریزوں کی مداخلت تھے، دربار کے کئی سردار برطانوی حمایت حاصل کرنا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لئے مہارانی کے خلاف محاذ بنانے لگے، 1847ء میں انگریزوں کے دبائو پر انہیں اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔
 رضیہ سلطان اور مہارانی جند کور دونوں خواتین کے عہد اور حالات مختلف تھے، لیکن ان میں کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں، رضیہ سلطان کو چار سال بعد قتل کر دیا گیااور مہارانی جند کور کو چار سال بعد اقتدار سے ہٹا د یا گیا، مردانہ معاشرے کی مخالفت نے رضیہ سلطان کو تسلیم نہ کیا، جند کور کو درباری سرداروں اور برطانوی قوتوں نے کمزور کرنے کی کوشش کی، رضیہ سلطان نے پنجاب میں دہلی سلطنت کی عملداری قائم رکھی، جند کور نے پنجاب کو برطانوی تسلط سے بچانے کی کوشش کی۔
پاکستانی پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار مریم نواز شریف کو 2024ء  میں صوبہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا اور خواتین کی حکمرانی کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی، انکی حکمرانی بھی ایسی کہ بلا شرکت غیرے ،وفاقی حکومت ان کے کسی کام میں رکاوٹ بنتی نظر نہیں آرہی اور وہ صوبے کی حدود سے نکل کر ایک مرکزی حکمران کی طرح پوری دنیا کے سرکاری دورے کر رہی ہیں ،ان کے غیر ملکی دوروں سے پنجاب کو فائدہ پہنچ رہا ہے یا نہیں ؟ اس بارے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ،ان کی حکمرانی کا دور ابھی دوسرے سال کے وسط میں ہے ، مزید ساڑھے تین سالوں کے بعد ہی فیصلہ ہو گا کہ ان کا یہ دور کیسا رہا ؟ مردوں کے پنجابی معاشرے میں ایک خاتون حکمران کو کس طرح کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے ،یہ سب جانتے ہیں،رضیہ سلطان اور مہارانی جند کور کو ایک خاتون ہونے کے ناتے بہت زیادہ مشکلات پیش آئیں ،یہ مشکلات ایک خاتون حکمران ہونے کے ناتے مریم نواز کو بھی درپیش ہیں۔
وزیر اعلیٰ بننے کے بعد انہوں نے گورننس کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دی، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات کا آغاز کیا،خواتین کی شمولیت اور ان کے معاشی و سماجی کردار کو بڑھانے کے لئے پالیسیز متعارف کروائیں، انہوں نے پنجاب میں جدید طرزِ حکمرانی اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینے کی کوشش کی انہیں اپنے خاندان کی سیاست اور ماضی کے حکومتی تجربات ورثے میں ملے ، آنے والا وقت بتائے گا کہ تاریخ میں وہ اپنا نام کیسے لکھواتی ہیں۔
٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -