بلاول کا ’’بڑا بول‘‘ اور ٹھپے لگانے کے شوقین کارکن

بلاول کا ’’بڑا بول‘‘ اور ٹھپے لگانے کے شوقین کارکن
 بلاول کا ’’بڑا بول‘‘ اور ٹھپے لگانے کے شوقین کارکن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیانے کہتے ہیں، فیشن، روایت اور عادت اگر کمزوری بن جائے تو وہ موقع بے موقع اپنے تقاضے پورے کرنے کے لئے لوگوں کو مجبور ضرور کرتی ہے۔ خصوصاً نوجوانوں کے لئے ایسی کمزوری کے اثرات زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ ہمارے جمہوری نظام میں جب انتخابات کا مرحلہ آتا ہے تو ’’جھرلو‘‘ سے لے کر ’’دھاندلی‘‘ تک کی اصطلاحیں استعمال کر کے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ الیکشن دھاندلی کے حوالے سے یار لوگ یہ الزام بھی لگایا کرتے ہیں کہ پولنگ اسٹیشن میں غنڈہ گردی کرتے ہوئے بیلٹ بکس پر ٹھپے لگائے جاتے ر ہے۔ گزشتہ دو تین دہائیوں سے ٹھپے لگانے کا الزام لازمی شامل کیا جاتا ہے، یعنی ہماری دوسری نسل تک یہ ٹھپے لگانے والی کارروائی کا ذکر اِس قدر ہو چکا ہے کہ جب اور جہاں، جس کوبھی دھاندلی کا موقع ملتا ہے، تو ٹھپے لگانے کا کام ضرور کیا جاتا ہے۔


گزشتہ دِنوں آزاد کشمیر میں عام انتخابات ہوئے تو نقص امن کے خطرے کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے قائدین نے مطالبہ کیا کہ الیکشن فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے اس مطالبے کے پیشِ نظر پولیس اور انتظامیہ کی مدد کے لئے فوجی اہلکاروں کو بھی تعینات کرنے کی ہدایت کر دی۔ پولیس کے ساتھ رینجرز کی تعیناتی کی وجہ سے امن و امان کی صورت حال بہتر رکھنے میں کامیابی ہوتی ہے۔ اس تجربے کے حوالے سے آزاد کشمیر میں فوجی اہلکاروں کی موجودگی کا بھی فائدہ ہُوا کہ حالات قابو میں رہے اور کوئی ایسا واقعہ نہ ہوا،جس کا ذکر کرتے ہوئے سیاسی رہنماؤں کو جارحانہ انداز میں الزام تراشی کی عادت پوری کرنے کا موقع ملتا۔


تین سیاسی جماعتوں مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے کارکنوں اور قائدین کے درمیان اشتعال بہت بڑھ گیا اور ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات کا گراف بھی بہت اوپر پہنچ گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری (جو بلاوجہ مشتعل ہو کر تقاریر کرنے اور جارحانہ انداز میں مخالف سیاسی رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی وجہ سے مشہور ہیں) نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ پاکستان میں عام انتخابات کے موقع پر جس طرح مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے دھاندلی سے الیکشن جیت لیا تھا، اُسی طرح آزاد کشمیر کے الیکشن میں بھی دھاندلی کرنے کی کوشش ہو گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم پاکستان اور مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کو دھمکی دی کہ اگر آزاد کشمیر کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو آپ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری کے طویل دھرنے کو بھول جائیں گے۔


ایسے بیانات اور اشتعال انگیز صورت حال میں فوج کو مدد کے لئے بلانا ضروری تھا، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ لڑائی جھگڑے اور مار کٹائی کے بڑے واقعات نہ ہوئے اور نہ ہی پولنگ اسٹیشنوں کے اندر دھاندلی کی کوئی فلم چلائی جا سکی۔ سارا کام پُرامن ماحول میں بہتر طور پر مکمل ہو گیا۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ لاہور میں صورتِ حال مکمل قابو میں رہی اور کسی دھاندلی یا بدنظمی کا شور نہیں مچایا گیا۔ ایسی پُرامن صورتِ حال میں میر پور شہر کے کچھ نوجوانوں نے، جن کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے، پولنگ اسٹیشن کے باہر ایک فرضی پولنگ اسٹیشن بنایا اور وہاں بیک وقت کئی نوجوان مزاحیہ انداز میں ووٹ کی پرچی پر ٹھپے لگاتے ہوئے بلاول بھٹو زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ دراصل ان کے لئے کوئی کام نہیں تھا، کیونکہ پیپلزپارٹی کو اس حلقے میں کوئی امیدوار نہیں مل سکا تھا۔ اس وجہ سے وہ بہت بور ہو رہے تھے۔ اُنہیں اپنی پارٹی قیادت کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار اور بوریت ختم کرنے کے لئے یہی طریقہ اچھا لگا اور وہ مصنوعی دھاندلی کا ڈرامہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔


اِس دلچسپ صورت حال سے ایک بات تو یہ واضح ہوتی ہے کہ اب دھاندلی(ٹھپے لگانے) کو الیکشن کا ضروری عنصر سمجھ لیا گیا، ورنہ میر پور کے نوجوان کبھی بھی بوریت دُور کرنے کے لئے ٹھپے لگانے والا کام نہ کرتے۔ اگر اُس حلقے میں پیپلزپارٹی کا امیدوار بھی ہوتا تو پھر بوریت کا شکار یہی نوجوان اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے برعکس بی بی شہید بے نظیر بھٹو اور شہید بابا ذوالفقار علی بھٹو کی زور دار اور جذباتی نعرہ بازی کرتے ہوئے ووٹروں کو متوجہ کر سکتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے جس طرح وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو دھاندلی کا پیشگی الزام لگاتے ہوئے دھمکی دی تھی، آزاد کشمیر کے الیکشن میں صرف دو سیٹیں جیتنے کے بعد اب وہ کہاں کھڑے ہیں اور وہ ناکامی کے غم کو دُور کرنے کے لئے کون سا سہارا لیں گے؟ مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید تو الیکشن مہم کے دوران آصف کرمانی اور دیگر رفقا کے ساتھ زیادہ زور دار تنقید تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر ہی کرتے رہے کہ اُنہیں عمران خان کے نامزد کردہ امیدواروں کی کامیابی کا امکان نسبتاً زیادہ دکھائی دیتا تھا، تاہم پیپلزپارٹی کو آزاد کشمیر میں حکمران جماعت ہونے کے باوجود جس ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے بعد تو بلاول بھٹو زرداری کو ’’بڑا بول‘‘ بولنے سے توبہ کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے نوجوان ساتھیوں کی دِل جوئی کا خیال رکھنا چاہئے۔ پارٹی کی ناکامی سے رنجیدہ اور زخمی کارکنوں کو تنہا چھوڑنے کی غلطی ہر گز نہ کریں، بلکہ اُنہیں اپنی توجہ اور قربت کے ذریعے اپنائے رکھنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ کارکن حقیقی معنوں میں سرمایہ اور اثاثہ ثابت ہوں گے۔

مزید :

کالم -