تفہیم اقبال:شکوہ، جوابِ شکوہ (10)

تفہیم اقبال:شکوہ، جوابِ شکوہ (10)
تفہیم اقبال:شکوہ، جوابِ شکوہ (10)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بند نمبر(22)
عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی
مضطرب دل، صفتِ قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندئ آئینِ وفا بھی نہ سہی

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں، تو بھی تو ہر جائی ہے

اس بند کے مشکل الفاظ کے معانی:
جادہ پیمائی (راستے کو ماپنا، سفر کرنا، کسی سفر پر رواں دواں رہنا)۔۔۔ تسلیم و رضا (انکساری، عجز)۔۔۔ مضطرب(بے قرار، تڑپتا ہوا)۔۔۔ صفتِ قبلہ نما(قبلہ نما کی مانند۔۔۔ قبلہ نما ایک چھوٹے سے پرچم کی شکل کا آلہ سا ہوتا ہے جو ایک بانس کے سرے پر باندھا جاتا ہے اور جب ہوا چلتی ہے تو وہ ہوا کے رخ پر اپنا رخ بدلتا رہتا ہے۔ عام طور پر مسلمان کعبے کا رخ (مغرب) معلوم کرنے کے لئے اس آلے سے مدد لیتے ہیں اس لئے اسے ’’قبلہ نما‘‘ یعنی قبلہ کی سمت دکھانے والا بھی کہا جاتا ہے)۔
اب اس بند کے معانی اورتشریح:
اقبال خدا کے سامنے شکوہ کناں ہیں۔کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم عہدِ گزشتہ والے وہ مسلمان نہیں رہے جو کبھی تھے تو چلو مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا۔

یہ بھی مان لیتے ہیں کہ تیری ذات سے پہلے جس شدت سے ہم کو عشق تھا وہ شدت شاید اب نہ رہی ہو گی، اور ہم جو اپنے دورِ ماضی میں تجھ پر صدقے واری جایا کرتے تھے، ہماری وہ جاں نثاریاں بھی شاید اب دیکھنے میں نہ آتی ہوں گی۔ اور ہم تیری تسلیم و رضا کی جادہ پیمائی کا پہلا جیسا حق بھی نہیں ادا کرسکتے ہوں گے۔

اور ہم اس عجز و ایثار کے راستے پر پہلے کی طرح چلنے اور جادہ پیمائی کرنے کے قابل بھی نہیں رہے ہوں گے۔۔۔اور جس طرح بانس کے سرے پر لگا ہوا قبلہ نمائی کا وہ آلہ جو ہر وقت پھڑ پھڑاتا اور اِدھر اُدھر دائیں بائیں حرکت کرتا رہتا ہے شائد ہماری اس طرح کی بے تابی، بے قراری اور اضطراب میں بھی کمی آ گئی ہو گی۔ اور وہ پہلے جیسا جوش و جذبہ بھی نہ رہا ہوگا۔ اور ہم مسلمانوں نے تم سے جو عہدِ وفا باندھا تھا، اس کی پابندی میں بھی فرق آگیا ہوگا۔۔۔
لیکن اگر بالفرض ہم یہ سب کچھ مان بھی لیں تو پھر تجھے بھی خیال کرنا چاہیے کہ تیرا بھی وہ کریمانہ سلوک جو پہلے ہم سے ہوا کرتا تھا وہ بھی تو نہیں رہا۔ تو کبھی ہمارے ساتھ گہری شناسائی اور پکی دوستی رکھاکرتا تھا لیکن پھر ہم سے ’’کٹیّ‘‘ کرکے غیروں سے محبت کی پینگیں بڑھا نے لگا۔ کبھی ہمارا بنتا ہے اور کبھی غیروں کا بن جاتا ہے!اگر ایسا ہی ہے تو ہم مسلمانوں کو یہ کہنے کی اجازت بھی تو دے کہ اگر ہم میں وہ پہلے سی خوئے تسلیم و رضا نہیں رہی تو تم نے بھی تو ہم سے آنکھیں پھیر لی ہیں اور ہر جائی بن گیا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بند نمبر(23)
سرِ فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے
اک اشارے میں ہزاروں کے لئے دل تونے
آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تونے
پھونک دی گرئ رخسار سے محفل تونے

آج کیوں سینے ہمارے شررآباد نہیں
ہم وہی سوختہ ساماں ہیں تجھے یاد نہیں؟

اس بند کے مشکل الفاظ کے معانی:
سرِ فاراں(فاراں پہاڑ کی چوٹی ۔۔۔ سعودی عرب کے تقریباً وسط میں وادئ فاران واقع ہے۔ یہ وادی آس پاس کے دوسرے علاقوں کی نسبت سرسبز اور زرخیز ہے۔ سعودی عرب کے جنوب میں ایک وادئ حضرالموت بھی ہے جو بالکل بنجر اور ریگستان ہے۔

نہ اس میں بارش ہوتی ہے اور نہ سبزہ اگتا ہے لیکن پھربھی اسے وادی کہا جاتا ہے۔ وادی دراصل دو پہاڑوں کے درمیان ایک نسبتاً ہموار جگہ کو کہتے ہیں۔ اگر یہ جگہ تنگ ہو تو درہ کہلاتی ہے اور اگر کشادہ ہو تو اس کو وادی کہا جاتا ہے۔

یہ وادی ء فاراں مکہ مکرمہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ اقبال نے وادیء فاراں کی تعریف و توصیف میں اردو اور فارسی میں کئی آبدار اشعار کہے ہیں۔مثلاً:
پھر وادیء فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے

ہے اگر دیوانہ ء غائب تو کچھ پروا نہ کر
منتظر رہ وادیء فاراں میں ہو کر خیمہ زن

دلِ طورِ سینا و فاراں دو نیم
تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم

لشکری پیدا کن از سلطانِ عشق
جلوہ گر شو برسرِ فارانِ عشق

سینا است کہ فاران است یارب چہ مقام است ایں
ہر ذرۂ خاکِ من چشمے است، تماشا مست

کامل (مکمل)۔۔۔ دل لینا(گرویدہ بنا لینا)۔۔۔ آتش اندوز کرنا (آگ بھڑکانا)۔۔۔ حاصل (پیداوار، پروڈکشن)۔۔۔ پھونک دینا(جلا کر خاک کر دینا، مٹا دینا)۔۔۔ گرمی ء رخسار(گالوں کی گرمی ء سرخ رخساروں کی تپش، حسن کی افراط)۔۔۔شرر آباد(وہ مقام جہاں شرارے رہتے ہوں، شعلوں اور شراروں کا مسکن)۔۔۔ سوختہ ساماں (دل جلے، عشق کی آگ میں جل کر خاکستر ہونے والے)
اب اس بند کی تشریح اور وضاحت:
المائدہ قرآن حکیم کی پانچویں سورہ ہے۔ اس سورہ کی تیسری آیہ کے آخری حصے کا اردو ترجمہ یہ ہے۔ خدا اپنے بندوں سے مخاطب ہے: ’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کی گئی ہیں ان کی پابندی کرو) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر ان میں سے کوئی چیز کھالے۔ بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

ویسے تو اس سورہ(المائدہ) کا زمانہ ء نزول 6ہجری کے اواخر یا 7ہجری کے اوائل کا ہے کہ جب صلحِ حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا تھا اور کفار مکہ نے 1400مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا تھا اور بڑی ردو کد کے بعد یہ بات قبول کی تھی کہ آپ لوگ آئندہ سال زیارت کے لئے آ سکتے ہیں۔ لیکن آیہء کریمہ کا یہ حصہ جو الیوم اکملتُ لکم دینکم سے شروع ہوتا ہے وہ اس تناظر میں اس سورہ میں نہیں آنا چاہیے تھا کہ اس میں وقت کا جو تعین کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’آج کے دن ہم نے تم پر دین کو مکمل کر دیا‘‘۔۔۔جبکہ سن 6یا 7ہجری کے بعد بھی نزولِ قرآن کا سلسلہ جاری رہا۔
اس موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا مودودی تفہیم القرآن جلد اول میں لکھتے ہیں: ’’مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حجتہ الوداع کے موقع پر سن 10ہجری میں نازل ہوئی۔۔۔ میرا قیاس یہ ہے کہ ابتداً یہ آئت جس سیاقِ کلام میں نازل ہوئی تھی اس کی حقیقی اہمیت لوگ نہ سمجھ سکے۔ بعد میں جب تمام عرب مسخر ہو گیا اور اسلام کی طاقت اپنے شباب پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ فقرے اپنے نبیؐ پر نازل فرمائے اور ان کے اعلان کا حکم دیا‘‘۔
نظم شکوہ کے اس بند کا پہلا مصرعہ۔۔۔ ’’سرِ فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے‘‘۔۔۔ اسی آیہ کی طرف صاف اشارہ کر رہا ہے ۔اقبال شکوہ کررہے ہیں کہ اے خدا! تو نے سرِفاراں نبی کریمؐ کی زبانی یہ فرمایا تھاکہ : ’’ہم نے آج کے دن، دین کو تم پر کامل (مکمل) کر دیا ہے‘‘۔ اس بند کے بعد کے تین مصرعے بھی اسی تکمیلِ دین کی پراسس کا تتمہ معلوم ہوتے ہیں!

پہلے مصرعے میں ’’فاراں‘‘ کا لفظ شاعر کے جغرافیائی مطالعے کی وسعت کا غماز ہے۔ مختلف جغرافیائی تصانیف میں لفظ فاراں کی جو تشریحات کی گئی ہیں ان کی رو سے مکہ مکرمہ کے اردگرد کے پہاڑوں کو سلسلہ ء کوہستانِ فاران کہا جاتا ہے۔۔۔۔ فاران نام کا ایک گاؤں بھی مکہ کے شمال میں کچھ فاصلے پر واقع ہے اور جس طرح کوہِ سینا اور وادیء سینا کا تقدس حضرت موسیٰ کی ذات سے وابستہ ہے اسی طرح کوہِ فاراں اور وادیء فاراں کا تقدس بھی حضرتِ رسول اکرمؐ کی ذاتِ مبارکہ سے وابستہ ہے۔
یہ تمہید باندھ کر خدا سے سوال کیا جاتا ہے کہ’’آج کیوں سینے ہمارے شرر آبادنہیں؟‘‘۔۔۔ یعنی جو شرارے تیرے عشق کی آگ نے ہمارے دلوں میں بھڑکا دیئے تھے ان کا کوئی سراغ آج کیوں نہیں ملتا؟ اور آخر میں یہ کہہ کر کہ: ’’دیکھو ہم وہی نصیبوں جلے اور سیاہ بخت ہی تو ہیں جو شاید تمہیں یاد نہیں آ رہے!‘‘شکوہ کا ایک نیا انداز مکمل کردیا جاتا ہے۔

برسبیل تذکرہ اس بند کے دو اور ترجمے بھی نذرِ قارئین کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ ایک پنجابی میں ہے اور دوسرا انگریزی میں۔ پنجابی زبان کا بند یہ ہے:

دین مکمل توں فاران پہاڑ اُتّے فرمایا
اِکّو سَینَت نال ہزاراں بندہ پِچھّے لایا
اگ بھکھونا نِگھّا نِگھّا عِشق نچوڑ بنایا
نگھ رُخساروں بال چواتی منڈلی نوں تڑفایا

اج کیوں ساڈی ہِک دے وِچوّں پھُٹدانہیں چنگیاڑا
تُوں بُھلیاں، کر یاد اسیں آں اوہو دھونی واڑا
اس پنجابی بند میں مشکل الفاظ کے معنی دیکھ لیجئے۔۔۔
سَینَت (ناز، نخرہ اور ادا)۔۔۔ اگ بھکھونا(آگ کا جلا ہوا)۔۔۔ نگھّا نگھّا (جو مسلسل گرم انگاروں کی طرح سلگتا رہے)۔۔۔ چواتی (شرارہ)۔۔۔ منڈلی(ہجوم ، انبوہ)۔۔۔ ہِک (چھاتی، سینہ) چنگیاڑا(چھوٹا انگارا، شرارہ)۔۔۔ دھونی واڑا (کسی کوڑے کے ڈھیر کو اگر آگ لگی ہو اور شعلے اوپر نہ اٹھ رہے ہوں لیکن مسلسل دھواں نظر آئے تو پنجابی میں اسے ’’رُوڑی‘‘ کہا جاتا ہے۔

جب تک وہ ڈھیر سلگ سلگ کر راکھ نہیں بن جاتا، وہ ’’دُھونی‘‘ سلگتی رہتی ہے۔ ’’واڑہ‘‘ کا لفظ پنجابی میں اس احاطے کو کہا جاتا ہے جس میں بہت سے جانور / مویشی لا کر بند کر دیئے جاتے ہیں۔ شاعر نے اسی لئے دنیا کو واڑہ کہا ہے اور اس میں سلگتی مخلوق کو ’’دھونی واڑہ‘‘ کا نام دیا ہے۔
امید ہے اب اس پنجابی بندکے معانی بھی آپ پر آشکار ہوگئے ہوں گے ۔۔۔۔اسی بند کا انگلش ترجمہ بھی دیکھئے:
On Faran`s summit you gave religion its final shape and form:
With a single gesture you carried a thousand hearts by storm.
You fired with zeal the pursuit of love which was our aim:
The beauty of your burning cheeks set the entire mehfil aflame.

Why today no sparks smoulder in our bosoms at all?
We are the same inflammable stuff don`t You recall?
اس بند (Stanza) میں بھی چھ مصرعے (Lines) ہیں اور ہر مصرعہ اقبال کے اردو مصرعے کا انگریزی ترجمہ ہے۔ علاوہ ازیں ان مصرعوں کو اگر آپ ذرا اونچی آواز میں ایک لے کے ساتھ پڑھیں تو وہی مترنم صوتی سماں پیدا ہو جاتا ہے جو اقبال کے اردو والے بند کو پڑھتے وقت قاری کو محسوس ہوتا ہے۔ اس بند کی رائم سکیم (Ryme scheme) aa،bb،ccہے یعنی Form،Storm اور Aim،aflaimاور all،Recall کے قافیوں کی صوتی موسیقی نے وہی تاثر پیدا کیا ہے جو اقبال کے بند میں ’’کامل، دل ، حاصل ، محفل، آباد اور یاد نے کیا ہے!
اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ شاعری صرف قافیہ بندی اور اوزان کو پورا کرنے کا نام نہیں بلکہ اس کے علاوہ الفاظ کا انتخاب اور ان کی نشست و برخاست بھی ایک ایسا فنکارانہ چیلنج ہے جسے صرف شاعر فنکار ہی سمجھ سکتا اور پورا کرسکتا ہے۔۔۔ اسی لئے تو خواجہ حیدر علی آتش نے کہا تھا:
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا

مزید :

رائے -کالم -